پروفیسر حسن ظفر عارف کی بیٹی کا موقف


شہرزاد ظفر عارف

میں عام طور پر اپنی ذاتی زندگی کی سوشل میڈیا پر تشہیر پسند نہیں کرتی لیکن بدقسمتی سے جو ایک نجی ٹریجیڈی تھی وہ ایک عوامی تماشا بن گئی ہے اور اس وجہ سے میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ کچھ چیزوں کو عام کر دیا جائے تاکہ دنیا سچ جان لے۔

میرے والد، ڈاکٹر ظفر عارف، اتوار 14 جنوری کو فوت ہوئے جس کی وجہ تمام شہادتوں کی روشنی میں دل کا دورہ لگ رہا ہے۔ میڈیا اس موت کو ایک بے رحمانہ قتل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور کچھ لوگ، نہایت ہی شرمناک انداز میں، ان کے جسم کی فوٹوشاپ شدہ تصاویر (اور بہت زیادہ ایڈٹ شدہ ویڈیوز، ہاں ویڈیوز بھی ایڈٹ ہو سکتی ہیں، ٹیکنالوجی حیران کن ہے) سوشل میڈیا پر اس دعوے کے ساتھ لگا رہے ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا تھا۔

میں یہ نہیں سمجھتی کہ مجھے یہ نشاندہی کرنی چاہیے کہ یہ ان کی یاد اور ان کی فیملی کے ساتھ کتنی بڑی بد تہذیبی ہے، علاوہ ازیں بد دیانتی اور غیر اخلاقی بھی۔ کچھ لوگ ان کی موت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ کچھ دوسرے ان سے محبت کے احساس اور پسندیدگی کے سبب، اسے ایک جرم سمجھتے ہوئے ان کے لئے انصاف کے خواہاں ہیں۔

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے اپنے والد کی موت کے بارے میں اتنی تفصیل سے بات کرنی پڑے گی لیکن حالات نے میرے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ ہماری فیملی نے موقعے پر پہنچتے ہی ان کے جسم کا تفصیلی معائنہ کیا تھا اور ہمیں پولیس نے وہ تصاویر دکھائی تھیں جو ان کے بارے میں علم ہوتے ہی کھینچی گئی تھیں۔

ان کے جسم پر ایک نشان بھی نہیں تھا، اور ایسی کوئی علامت نہیں تھی کہ ان پر تشدد کیا گیا ہو یا موت غیر فطری ہو۔ ان کی ناک کے نیچے موجود خون کے چند قطرے مشکوک نہیں ہیں، مجھے بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد جسم خون کا درست انجماد کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور ناک سے خون نکلنا عام ہے۔

جن حالات میں ان کو پایا گیا وہ اتنے ڈرامائی یا مشکوک نہیں تھے جتنے میڈیا آپ کو یقین دلانے کا خواہاں ہے۔ وہ ایک رات سے غائب تھے، ان کی کار اس علاقے میں پائی گئی تھی جہاں وہ جاتے رہتے تھے، اور ان کے موبائل فون غالباً کھلی ہوئی کھڑی سے وہاں موجود لوگوں نے پولیس کے پہنچنے سے پہلے چرا لئے تھے۔ ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں آئی، ہم اس کے منتظر ہیں، اور جب تک وہ نہیں آتی، ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہ ایک ہارٹ اٹیک کے علاوہ کچھ اور تھا۔

میں امید کرتی ہوں کہ جو لوگ یہ پڑھ رہے ہیں وہ یہ سمجھ لیں گے کہ میں تمام لوگوں میں میں وہ آخری فرد ہوں گی جو اپنے والد کی موت کے بارے میں سچ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ لوگ جھوٹ، پروپیگنڈا اور مبالغہ آرائی پر یقین کرنے کی بجائے حقائق جانیں۔

اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ کچھ اور نہیں کہتی، تو ہمیں تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اور میری اپنی عینی شہادت کی روشنی میں اس بات پر یقین کرنا چاہیے کہ یہ ایک فطری موت تھی۔

میں اس موقعے پر اس بد تہذیب انداز کی نشاندہی کرنا چاہوں گی جسے میت کے بارے میں اختیار کیا گیا۔ میت کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کمپلیکس میں لے جایا گیا تھا جہاں اسے ایک کھلی ایمبولینس میں چھوڑ دیا گیا تاکہ رپورٹر اس کی تصاویر اور ویڈیو بنا سکیں، جو انہوں نے سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کمپلیکس کی انتظامیہ اور پولیس کو اس بات پر نادم ہونا چاہیے کہ انہوں نے اس کام کو نہیں روکا، اور سب سے بڑھ کر میڈیا کو اس بات پر شرمسار ہونا چاہیے کہ ان میں احترام، انسانی اخلاق اور ہمدردی کی کوئی رمق نہیں دکھائی دی۔ انہوں نے موقع پر پہنچنے والے لواحقین کی تصاویر کھینچنے اور ویڈیو بنانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور تدفین کے وقت قبرستان میں بھی یہی رویہ روا رکھا۔

پلیز اسے شیئر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ محسوس کریں اور میں ان لوگوں کو جو ان سے محبت کرتے تھے یہ کہوں گی کہ وہ آنے والے دنوں میں عقل سلیم اور شعور سے کام لیں اور شواہد کے سامنے آنے سے پہلے نتائج اخذ کرنے میں جلدی نہ کریں۔

میں آپ کو اس بات کی تلقین کرتی ہوں کہ خود ساختہ اور غلط رپورٹس شیئر نہ کریں، میرے والد کی جسد خاکی کی تصاویر شیئر نہ کریں اور ان سب تصاویر کو ہٹا دیں جو آپ ہلے ہی پوسٹ کر چکے ہیں۔ اور آپ کو یہ بتائے بغیر خود ہی سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں فیملی کو بھیج کر ان کو اس مشکل وقت میں مزید ہراساں مت کریں۔ میں ان تمام لوگوں کی شکرگزار ہوں جو ان کی زندگی اور کام کے بارے میں عزت اور احترام کے ساتھ یادگار واقعات بیان کر رہے ہیں۔

میرے والد ظلم کا نشانہ نہیں بنے، اور میں ان کو اپنی یادوں میں ایسے زندہ نہیں رکھنا چاہتی۔ میں ان کی یادوں کو جھوٹ کی بنیاد پر قائم نہیں ہونے دوں گی۔ وہ صرف مجھ سے متعلق نہیں تھے، بلکہ وہ پاکستان کے لوگوں سے متعلق تھے جن کی خاطر انہوں نے ساری زندگی اتنی زیادہ جدوجہد کی۔

ایڈٹ: کچھ کمنٹس کی روشنی میں جو اس پوسٹ پر مجھے ملے ہیں دو مزید چیزیں۔ پہلی یہ کہ میرے والد کے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لانگ ڈرائیو پر ان کو پچھلی نشست پر جا کر آرام کرنے کی عادت تھی، یا پھر وہ کوئی بے آرامی یا تھکن محسوس کر رہے تھے۔ ان کے دل کی دوائی ان کے پاس پائی گئی تھی۔ یہ ہمارا سب سے بہتر اندازہ ہے جب تک کچھ اور ثابت نہ ہو جائے، لیکن صرف خدا ہی حقیقت سے آگاہ ہے۔

دوسری بات یہ کہ نہ تو میری فیملی اور نہ ہی مجھ پر کسی قسم کے بیان کے لئے کوئی دباؤ ڈالا گیا ہے۔ مجھے جو بھی جانتا ہے وہ اس بات سے واقف ہے کہ ماضی میں اپنے والد کی خاطر میں نے کتنی سخت لڑائی لڑی ہے اور میں ایسے کسی بھی دباؤ کے آگے نہیں جھکوں گی اور ہر قیمت پر انصاف کے حصول کے لئے لڑوں گی۔ بہرحال، یہ ایک معصومانہ سوچ ہو گی (اور مجھے میرے حصے سے کہیں زیادہ اہمیت دینے والی بات ہو گی) کہ کوئی جو ان کی موت پر پردہ ڈالنے کا خواہاں ہو گا اس بات پر یقین کرے گا کہ ایک عورت کا بیان لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے سے روک دے گا جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں۔

Shehrazade Zafar-Arif

I don’t normally like to publicise my personal life on social media but unfortunately what should’ve been a private tragedy has become a public spectacle and for this reason I feel that certain things need to be publicised in order for the world to know the truth.

My father, Dr. Zafar-Arif, died on Sunday the 14th of January of what all evidence points to as being a heart attack. The media is portraying his death as a brutal murder and some are, disgracefully, putting up photoshopped images of his body (and heavily edited videos – yes, videos can be edited, technology is amazing) on social media with claims that he was tortured. I don’t think I need to point out how disrespectful this is towards his memory and his family, not to mention dishonest and unethical. Certain people are trying to exploit his death for their own political agenda, while others are, out of a sense of love and admiration for him, trying to seek justice for what they believe to be a crime.

I never thought I would have to speak in such detail about my own father’s death, but the circumstances have left me no choice. We his family examined his body thoroughly as soon as we were brought on the scene, and we have been shown pictures of his body taken by the police immediately once they discovered it. There is not a single mark on him, and no indication whatsoever that he was tortured or that his death was unnatural. The few spots of blood under his nose are not suspicious – I’ve been told that after death the body does not clot blood properly and so nosebleeds are common. The circumstances under which he was found are not as dramatic or suspicious as the media wishes you to believe – he was missing for one night, his car was found in an area he was known to frequent, and his mobile phones were likely stolen through the rolled down windows of the car by members of the general public who were on the scene when the police arrived. The post-mortem report is not yet out, we are waiting on it, and until then, we have no real reason to believe it was anything but a heart attack.

I hope those who read this understand that I of all people would be the last to cover up the truth about my father’s death. I only want the public to know the facts rather than believing lies, propaganda and exaggeration. Unless the post-mortem report says otherwise, we must believe, based on all the evidence and my own account as a first-hand witness, that it was a natural death.

I would also like to take this opportunity to highlight the disrespectful manner in which his body was treated. It was taken to JPMC where it was left outside in an open ambulance for reporters to take pictures and make videos of, which they then went on to post on social media. Shame on the JPMC staff and police for not putting a stop to this, and shame above all on the media for their lack of respect and common human decency and empathy. They also did not hesitate to photograph and film his family when we arrived on the scene, and at the graveyard when we buried him.

Please feel free to share this and I urge those who cared about him to exercise common sense and rationality over the next coming days, and not to jump to conclusions until the evidence calls for it. I also urge you all to stop sharing fabricated or inaccurate reports, to stop posting images of my father’s body and to take down those that have already been posted – and, though it should go without saying, to not send these to his family or harass us any further in this difficult time. I am grateful to those who are sharing and posting commemorative accounts of his life and work with dignity and respect.

My father was not a victim, and I do not want him to be remembered as such. I will not allow his legacy to be based on lies. He belonged not only to me, but also to the people of Pakistan, whom he fought so hard for throughout his life.

EDIT: In light of some of the comments I’ve been getting on this post, two more things: firstly, the reason my father was in the backseat of his car may well have been because he had a tendency to stop during long drives to rest in the backseat, or because he was experiencing some discomfort or tiredness. His heart medicine was found next to him. This is our best guess unless proven otherwise, but only God can know for sure.

Secondly, neither my family nor I have been ‘pressured’ to make any kind of statement. Anyone who knows how hard I’ve fought for my father in the past would know that I would never succumb to such pressure and that I would fight for justice at whatever cost. In any case, it’s naive to think (and gives me far more importance than I’m due) that anyone who wished to cover up his death would believe that one woman’s statement could stop people from believing what they want to believe.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).