مقاصد الگ لیکن نفرت مشترکہ ہے


لاہور کی مال روڈ پر آج رات گئے تک ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے اور جمہوریت کو استحکام بخشنے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری رہا ۔ اس احتجاج کا اہتمام پاکستان عوامی تحریک اور اس کے رہنما علامہ طاہرالقادری نے 2014 میں لاہور ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے لئے انصاف کے حصول کے لئے کیا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی و مسلم لیگ (ق) نے بھی اس احتجاج کی حمایت کی تھی اور ان کے لیڈر اس احتجاجی جلسہ میں تقریریں کرنے کے لئے پہنچے تھے۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں میں کسی ایک مقصد پر اتفاق رائے تو موجود نہیں ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف ان کی نفرت واحد قدر مشترک ہے جو ان لیڈروں کو ایک ایسے شخص کے پلیٹ فارم تک لے آئی جو نہ ملک میں مستقل قیام پذیر ہے بلکہ اس نے کینیڈا کی شہریت بھی حاصل کررکھی ہے۔ طاہرالقادری اپنا بیشتر وقت کینیڈا میں ہی صرف کرتے ہیں لیکن حسب ضرورت و موقع وہ پاکستان آکر دھرنا اور احتجاج کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش ضرور کرتے رہتے ہیں کہ وہ جب چاہیں ملک کی سیاست میں طوفان برپا کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ طوفان سڑکوں پر ہنگامہ آرائی ، لوگوں کے لئے مواصلات کی مشکلات میں اضافہ اور پاکستان کے درجنوں ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر اینکرز اور رپورٹروں کو گلا پھاڑ کر ’سامنے دکھائی دیتی‘ تبدیلی کا اعلان کرنے کا موقع تو ضرور فراہم کرتا ہے لیکن طاہرالقادری اپنی سحر انگیز شخصیت اور دینی حیثیت کے باوجود اس احتجاج کو بیلٹ بکس تک منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسی لئے انہیں پاکستان کی سیاست میں ایک ’شر پسند ‘ مداخلت کار سے زیادہ حیثیت دینا مشکل ہے۔

آج کا جلسہ بظاہر شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے استعفیٰ کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ کیوں کہ طاہر القادری کا دعویٰ ہے کہ ساڑھے تین برس پہلے ماڈل ٹاؤن میں ان کے کارکنوں پر پولیس کے تشدد کے ذمہ دار یہی دو حضرات ہیں۔ وہ سیاسی ضرورتوں کے لئے نواز شریف کا نام بھی اس فہرست میں شامل کرلیتے ہیں۔ تاہم اب وہ چونکہ نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں اس لئے طاہرالقادری ا ور آج کےجلسہ میں ان کے ساتھ مل کر شریف خاندان کو ملک کے بدترین سیاستدان اور مجرم ثابت کرنے والے لیڈروں کا زور بیان شہباز شریف پر مرکوز رہا ہے۔ یوں بھی مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اصل خطرہ شہباز شریف کو ہی سمجھا جارہا ہے کیوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہونے کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اور اپنی پارٹی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے طاہر القادری کے علاوہ ملک کی وزارت عظمیٰ کے دو طاقتور امیدواروں آصف علی زرداری اور عمران خان کا خیال ہے کہ اگر ملک میں اس سال کے دوران منعقد ہونے والے انتخابات سے قبل شہباز شریف کو بھی گرا لیا جائے تو مسند اقتدار تک ان کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی لئے آصف زرداری اور عمران خان اگرچہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں لیکن شریف خاندان کے اقتدار اور عوامی مقبولیت کو دھچکا پہنچانے کے لئے انہوں نے طاہرالقادری کے سجائے ہوئے اسٹیج پر رونق افروز ہونا ضروری سمجھا۔ لیکن ایک دوسرے سے دونوں کی دشمنی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے طاہرالقادری پر یہ واضح کردیا تھا کہ وہ ان کی ’کاز‘ کی تو حمایت کرتے ہیں لیکن وہ ایک ہی اسٹیج پر ساتھ ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔ اس لئے پاکستان عوامی تحریک کے رہنما نے یہ اہتمام کیا کہ آج کے احتجاج کے دو سیشن منعقد کئے گئے۔ پہلے سیشن میں آصف زرداری نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور یہ اعلان کرکے خود کو اور اپنے حامیوں کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ اگر وہ چاہیں تو ایک دن میں شریف خاندان کی حکومتوں کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال وہ ان پر الزام تراشی کو ہی ’کافی‘ سمجھتے ہوئے تقریریں کرنے اور شریف خاندان کو ’جمہوریت‘ اور ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری کی جلسہ گاہ سے روانگی کے بعد رات گئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسٹیج پر تشریف لائے اور شریف خاندان کے جرائم کی فہرست بتا کر خود کو انصاف کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر پیش کیا۔ وہ اس قسم کی طویل فہرست آصف زرداری کے جرائم کے بارے میں بھی فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور زرداری بھنا کر عمران خان کے لتے لیتے ہیں۔ زرداری اور عمران خان کی اس سیاسی سے زیادہ ذاتی چپقلش سے اگرچہ یہ بات بہت حد تاک واضح ہوگئی کہ انصاف کی فراہمی ہو یا ملک میں جمہوریت کا نظام استوار کرنے کی بات ہو، دیگر لیڈروں کی طرح ان دونوں کی ترجیحات میں یہ دونوں باتیں شامل نہیں ہیں۔ اصل مقصد اقتدار کا حصول ہے جس کے لئے دوسرے کو ولن اور خود کو ہیرو ثابت کرنا بے حد ضروری ہے۔ یوں تو آج آصف زرداری کو جمہوریت کے چیمپئن کے طور پر پیش کرنے والے طاہرالقادری ساڑھے چار برس قبل جو دھرنا لے کر اسلام آباد گئے تھے اس کا اصل مقصد ملک سے پیپلز پارٹی کی بدعنوان حکومت کا خاتمہ اور آصف زرداری جیسے ظالم حکمران سے نجات حاصل کرنا تھا۔ اب شہباز شریف کا تختہ الٹنے کا مقصد حاصل کرنے کے لئے طاہرالقادری کل کے ‘بدعنوان‘ آصف زرادری کو گلے لگائے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیڈروں کی باہم دشمنی کا طاہرالقادری کو یہ فائدہ بھی ضرور ہؤا کہ انہیں دو بار تقریر کرنے کا موقع ملک گیا جس میں وہ ملک سے’ سلطنت شریفیہ‘ کے خاتمہ کا ایمان افروز اعلان جوش و خروش سے کرتے رہے۔ اس کے علاوہ طول طویل خطاب کرنے کا شوق بھی پورا ہو گیا۔

 2018 انتخابات کا سال ہے۔ آج لاہور کے اسٹیج پر جمع سارے لیڈر ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے دعویدار ہیں لیکن وہ جمہوری عمل پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیوں کہ اگر وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے عوام کا ووٹ ہی اصل اہمیت کا حامل ہے اور اسی کے ذریعے یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ملک میں کون برسر اقتدار آئے گا تو وہ احتجاجی جلسوں میں استعفوں کا مطالبہ اور حکومتیں گرانے کا دعویٰ کرنے کی بجائے عوام سے رابطہ کرنے اور آنے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر شریف خاندان واقعی سیاسی لحاظ سے اس قدر بے توقیر اور غیر اہم ہو چکا ہے کہ آئیندہ انتخابات میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو یہ سارے لیڈر اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو گرانے کے لئے وقت اور وسائل برباد کرنے کی بجائے چند ماہ بعد انتخابات میں زور آزمائی کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لیڈروں میں سے کسی کو بھی ۔۔۔ اسی طرح مسلم لیگ کے لیڈروں پر بھی مختلف حالات میں یہی بات صادق آتی ہے ۔۔۔ ملک میں جمہوریت کے تسلسل سے غرض نہیں ہے۔ بلکہ وہ صرف جمہوری عمل کے نتیجہ کو ہی اصل جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یعنی جو انتخاب کسی لیڈر کو کامیاب کروا دے، وہی انتخاب جمہوریت کی شاندار مثال بن جاتا ہے لیکن مخالف سیاسی جماعتوں کے لئے وہی انتخاب دھاندلی اور بے ایمانی کا نمونہ ہوتا ہے جس میں لوگوں کے حق انتخاب پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے تحریک انصاف نے علی الاعلان 2013 کے انتخابات کے بعد ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے نتائج کو قبول نہیں کیا اور پہلے دن سے وہ ملک کی منتخب حکومت کے خلاف مہم جوئی میں مصروف رہی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے اسی جوش و خروش سے تو نہیں لیکن دبے لفظوں میں مسلم لیگ کی حکومت کو انتخابی جعل سازی کا نتیجہ سمجھا اور یہ تسلیم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس کی حکومت نے 2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پانچ برس کے دوران کسی اہم شعبہ میں کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے عوام نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں قومی اسمبلی کے علاوہ دیگر اسمبلیوں کے اراکین کی صورت میں مراعات سے فائدہ اٹھانے میں پوری طرح شریک رہی ہیں۔

ملک میں جمہوریت کے دعویدار جب تک ہار جیت کے اصول کو قبول نہیں کریں گے اور جب تک ایک دوسرے کے لئے احترام اور قبولیت کا رویہ نہیں اپنایا جائے گا، اس وقت تک نہ تو ملک میں جمہوری مزاج اور روایت کو فروغ ملے گا اور نہ ہی معاشرہ سے شدت پسندی اور نفرت انگیز طرز عمل کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ سیاسی لیڈر ایک فنکشنل جمہوریت میں اپوزیشن کے رول کو بھی قبول کرنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے اسمبلیاں ویران اور جلسے آباد رہتے ہیں۔ دلیل کی بجائے گالی اور الزام بہترین ہتھیار سمجھے جاتے ہیں۔ آج ’متحدہ ‘ اپوزیشن رہنماؤں نے اسی ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ اس سے شریف خاندان کو کس قدر زخمی کرسکے لیکن یہ طے ہے کہ یہ سارے رہنما جمہوریت پسند لیڈروں کے طور پر اپنی صلاحیت کے بارے میں شبہات کے سائے گہرے کرنے میں ضرور کامیاب رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali