سیکس ایجوکیشن یا طبعی وجود کی تہذیب


زینب کے بعد۔۔۔ اُس سات سالہ بچی کے جسم کے ساتھ جنسی دہشت گردی اور اُس کے وحشیانہ قتل کے بعد سیکس ایجوکیشن کی بات چل نکلی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سیکس ایجوکیشن کے ذریعے اسلام کی مشرقی قدروں کو پامال کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں طرح طرح کی موشگافیاں برساتی مینڈکوں، ڈینگی مچھروں اور موسمِ گرما کی مکھیوں کی طرح ذہنی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں۔ تو صاحبو ! یہ سیکس ایجوکیشن ہے کیا اور کیا یہ کوئی مجرمانہ اور غیر انسانی فعل ہے۔

لیجیے مجھے یاد آ گیا، تو میں چند برس پہلے کا ایک قصّہ سناتا ہوں۔ میں درامن کے فی ایل سکول میں پڑھاتا تھا۔ اس سکول میں مسلمان بچے تھے جن میں زیادہ تر ترک، پاکستانی اور البانوی تھے۔ ایک دن کچھ والدین جن کی قیادت ایک مخصوص مذہبی جماعت کر رہی تھی، مجھ سے ملنے آئے اور شکایت کے انداز میں بولے کہ یہاں تیسری جماعت کے بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اور آپ پاکستانی الاصل مسلمان ہو کر ان سے کچھ نہیں کہتے۔ وہ سخت مشتعل تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھا سکتا ہوں۔ تو وہ لوگ خاموش ہو کر میرا مونہہ تکنے لگے اور بولے کچھ نہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ اگر قرآنِ مجید اردو یا پنجابی میں ہوتا تو کیا آپ اپنے بچوں کو پڑھنے دیتے۔ اس پر وہ بھڑک کر بولے کہ کیا مطلب۔ قرآن سب کے لیے ہے کیوں نہ پڑھنے دیں گے۔ تو عرض کیا کہ قرآن میں لکھا ہے، ” یصور کم فی الارحام ” کہ وہ تمہاری ماں کے پیٹ میں تمہاری تصویر بناتا ہے۔ اگر بچہ پوچھتا کہ کیسے بناتا ہے تو کیا آپ کیا جواب دیتے۔ اس پر جو کچھ کہا سنا گیا اُس کی تفصیل غیر ضروری ہے کیونکہ ہم میں بہت سے لوگ ” لا یعقلون” کی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

میں اپنی اصل میں چنابِ کے کنارے واقع ایک گاؤں کا باسی ہوں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں گھریلو جانور، گائیں، بھینسیں، بھیڑ بکریاں، کتے، گدھے، مرغیاں، بطخیں، چڑیاں اور کوے سب ایک ساتھ گھروں میں رہتے ہیں۔ ہمارے دیہی گھروں کے آنگنوں میں مرغے اپنی مرغی سے ہر طرح کی وارداتیں کرتے تھے اور بچے یہ سب دیکھتے تھے، کبھی گھر سے باہر کتا اور کتیا کا سنجوگ دکھائی دیتا، کبھی گائے، بھینس یا بکری کو “نیا کروانے” کا جلوس جاتا تو بچے اس میں شامل ہوتے اور سب کے سامنے بیل یا بکرا تولیدی عمل انجام دیتا جس پر حرف زنی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ ایک فطری عمل تھا جو دیہی زندگی کا جزو لاینفک تھا مگر جدید شہروں کی زندگی الگ ہے۔ اور اس میں بے راہروی کے ہزاروں قرینے ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ اور بچے یہ سب کچھ سکولوں میں اور دوستوں کے حلقے میں، گلی محلوں میں سیکھتے ہیں اور خیر سے الیکٹرانک میڈیا نے اب اس بے راہروی کے ایسے ایسے مواقع فراہم کردیئے ہیں کہ صراطِ مستقیم پر رہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔

ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے خاندانی نظام کا جنازہ ہی اُٹھ چکا ہے۔ اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد میں کوالی فائیڈ والدین موجود ہی نہیں۔ لڑکیاں اور لڑکے جسمانی طور پر لوگ بالغ ہو جاتے ہیں مگر ذہنی طور پر وہ بچے ہوتے ہیں اور ان کی جسمانی بلوغت کی بنا پر شادی کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ ذہنی بلوغت نہ ہونے کے سبب میاں بیوی بچوں کی طرح لڑتے ہیں اور جب اُن کے بچے ہو جاتے ہیں تو ان کی تربیت بھی وہی بالغ بچے کرتے ہیں جو ذہنی بلوغت سے محروم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے عہد میں ایک ایسی نسل نے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے جس کے پاس بچوں کی تربیت کا نہ ہی ہنر ہے اور نہ ہی مناسب تعلیم۔ ہم روایتی معاشرے کے لوگ ایسی معاشرتی جیل کے قیدی ہیں جس میں روٹی، کپڑے اور مکان کی تلاش میں ہی زندگی بسر ہو جاتی ہے۔ لوگ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ضرورتیں چوری کرتے ہیں اور ذہنی اور روحانی اذیت میں گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ کیا ایسی ذہنی تکلیف اور اقتصادی مشکلات میں گھرے لوگ اپنے بچوں کی مناسب تربیت کر سکتے ہیں۔

کیا عالمِ اسلام کو تعلیم و تربیت سے محروم کسی ایسی اُمت کی ضرورت ہے جو زمین کو جنت بنانے کے بجائے دوزخ بنا دے۔ اور ہم اس وقت سچ مُچ دوزخ میں رہ رہے ہیں جہاں بچے جنسی دہشت گردی، طالب علم تعلیمی دہشت گردی، عام پاکستانی اقتصادی دہشت گردی کا شکار ہیں اور آج کا پاکستان، جسے قائد اعظم کا پاکستان کہا جاتا ہے، چند امیر گھرانوں کی نجی ملکیت ہے جس میں عام آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دس کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کیا پاکستان کا خواب یہی تھا جسے اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے اور جس کو قائد اعظم کی قیادت میں حاصل کیا گیا تھا۔ کیا یہی انارکی اور بد امنی تھی جس کے لیے لاکھوں افراد قتل ہوئے اور جس کی ستر سالہ تاریخ کا نقطہ عروج سات سالہ زینب کا قتل ہے۔

یہ خاندان جنہیں ایوب خان کی دس سالہ حکمرانی کے دوران حبیب جالب نے چند گھرانے کہا تھا، اب بھی اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ملک میں سرمایہ داروں اور غاصبوں کی نام نہاد جمہوریت چل رہی ہے اور پس منظر میں جالب کی آواز سنائی دے رہی ہے :

بیس گھرانے ہیں آباد

اور کروڑوں ہیں ناشاد

ملک کے دشمن کہلاتے ہیں

جب ہم کرتے ہیں فریاد

صدر ایوب زندہ بار

صدر ایوب زندہ باد

اور ایوب خان کو رُخصت ہوئے پچاس برس ہونے کو ہیں مگر پاکستان کی حالت نہیں بدلی، کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان ہے۔ اور وہ اس لیے کہ جو طبقے حکومت کر رہے ہیں ان کا واحد مقصد اپنی خوشحالی ہے جس کے لیے وہ زر اندوزی کے راستے پر چلتے چلے جا رہے ہیں اور غریب بچوں کے ساتھ زیادتی ہو تو ان کی بلا سے، خیر سے اُن کے اپنے بچے تو مسلح محافظوں کے درمیان چلتے ہیں اور محفوظ ہیں۔

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar