بجھی ہوئی راتیں گزارنے والوں سے خطاب


چلو تمہیں بتاتا ہوں ان دنوں راتیں کیسی ہوتی تھیں۔ کبھی ڈیجیٹل گھڑی اور سوئیوں والی گھڑی کا فرق دیکھا ہے تم نے؟ ڈیجیٹل گھڑی ہیبت کا دوسرا نام ہے۔ یہ تمہارے ہمارے سروں پہ سوار رہتی ہے۔ اس میں ٹائم دیکھو تو ہر وقت لگتا ہے جیسے اگلا گھنٹہ اب بجا کہ بجا۔ ادھر سوئیوں والی گھڑی میں پونے دو بجنے کا مطلب ہے کہ یار ابھی بڑا ٹائم پڑا ہے، ادھر یہ نمبروں والی بتائے گی ابے او، ایک بج کے پینتالیس منٹ ہو گئے ہیں، صرف پندرہ منٹ رہتے ہیں، لو یہ سوچتے سوچتے ایک چھیالیس ہو گئے، ایسا ایکوریٹ حساب کیوں چاہیے، کسے چاہیے؟ وہ ٹھیک نہیں تھا کہ سوئی رینگتی رینگتی خود ہی پانچ سات منٹ کے بعد بتاتی تھی کہ لو بھئی اب بھی دس منٹ رہتے ہیں، برکت والے دس منٹ۔ تو بس جو فرق دس کم دو اور شارپ ایک بج کے پچاس منٹ میں ہوتا ہے وہی فرق اس وقت کی اور اب کی راتوں میں ہوتا ہے۔ وہ دیکھو وہ جو گھڑی لگی ہوئی ہے، اس میں سیکنڈ کی سوئی تک نہیں ہے، وہ میں نے جان بوجھ کے لگائی ہے، وہ بس سکون سے منٹ اور گھنٹے گراتی رہتی ہے، تنگ نہیں کرتی۔ تو وقت ایسے بھی گزر سکتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ تمہارے کندھوں پہ سوار ہو اور پیر اس کے تمہاری کمر کے گرد لپٹے ہوں اور وہ ہر گھنٹے کا الارم تمہیں کوڑے مار کے بجائے؟

ہماری راتوں میں اندھیرا واقعی پایا جاتا تھا۔ تم نے کبھی گھپ اندھیری رات دیکھی ہے؟ تم کیوں دیکھو گے، تمہارے گھر کے عین منہ پہ سٹریٹ لائٹ جلتی ہے، گھر کے اندر تک چاند چڑھا ہوتا ہے۔ ہماری راتوں میں روشنی اس ایک بلب کے ذمے ہوتی تھی جو صحن میں لگا ہوتا تھا۔ اس کے اوپر بارش سے بچانے کو ایک چھوٹا سا شیڈ ہوتا تھا، وہ جیسے چاول نکالنے والا پھیلا ہوا سا چمچ ہوتا ہے نا؟ بس اسی طرح کا شیڈ ہوتا تھا، اب آندھی، بارش، طوفان، ان سب سے وہ بلب بچ بھی جاتا تھا اور چار پانچ سال چلتا بھی تھا۔ کبھی کسی دکاندار نے اس کی ایک سالہ گارنٹی تک نہیں دی تھی لیکن وہ جلتا رہتا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ روشنی بند کرنا میرے اختیار میں تھا۔ اس واحد روشنی کا بٹن بند ہوتا تو پھر ستارے آن ہو جاتے، چاند جل اٹھتا، سرخ والا ستارہ تک نظر آ جاتا، دب اکبر ڈھونڈا جاتا، وہ ایک الگ دنیا ہوتی تھی بابو، تم نے کبھی دیکھی ہے؟ تمہارا شہر روشنیوں کا شہر ہے، اپنا وقت اندھیروں کا تھا لیکن وہ اندھیرے بہت روشن تھے۔ یہ ناسٹیلجیا نہیں ہے یار، ستارے دیکھ سکتے ہو اب؟ یاد کرو آخری بار کب دیکھے تھے، کہاں دیکھے تھے؟ گھر کے اندر لیٹ کے بھی کبھی دیکھے ہیں؟ کبھی انہیں دیکھتے دیکھتے سوئے ہو؟ کبھی پنکھے، کولر یا اے سی کے بغیر سونا پڑ جائے تو موت نہیں آ جاتی؟ بند کمروں میں مرتے ہو چھت پہ جا کے نہیں سوتے۔ تو بیٹا جان، ستارے چھت پہ جا کے نظر آتے تھے، تمہارے پاس چھت ہے کتنی ویسے؟ موبائل پہ باتیں کرنے کے علاوہ چھت پہ آج تک کوئی کام کیا ہے؟ ناسٹیلجیا تب ہو اگر یہ سب نعمتیں اب ملتی نہ ہوں، سب کچھ ملتا ہے، آنکھ نہیں ملتی۔ آنکھ بنانا کیا ناسٹیلجیے میں شامل ہو گا؟

مقدس راتوں کا الہڑ پن سب سے پہلے بجلی نے چھینا تھا۔ چاندنی وہاں درشن دیتی ہے میاں جہاں ضرورت ہو، ایویں خواہ مخواہ گھروں میں نہیں جھانکتی۔ تو بجلی آئی۔ پھر دن والی روشنی راتوں کو بھی ہونے لگی، رات اپنے معصوم جلوے سمیٹ کے انجان ویرانوں کو نکل گئی۔ پھر خاندان کے بزرگوں کی جگہ ریڈیو نے لے لی۔ ریڈیو کبھی بند ہوتا تو سب نانیوں دادیوں کے ساتھ چپک جاتے۔ وہ لوگ کہانیاں سناتے ہی رات میں تھے۔ کہا جاتا تھا کہ دن میں کہانی سنو گے تو بیٹا مسافر راستہ بھول جائے گا۔ پھر سفر بھی رات اور دن کا ہو گیا۔ نہ سواریوں کو خیال نہ سفری گاڑیوں کو ڈر، کیا دن کیا رات، سفر چوبیس گھنٹے ہونے لگا اور ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی۔ ٹی وی وہ چیز تھا جسے دیکھنے کے بعد بھی سب اسی کی باتیں کرتے تھے۔ دادیاں نانیاں بھی اسی کی ہو گئیں۔ چاند نکلتا رہا، تارے جھلملاتے رہے، جگنو شہر کی آبادیوں سے غائب ہوتے رہے، سٹریٹ لائٹ جلتی رہی اور رات کب آئی کب رخصت ہوئی کون جانتا ہے؟

تو بالے رات کا جاگنا یہ نہیں ہوتا کہ انرجی سیوروں کی لائٹ میں کمپیوٹر سکرین یا موبائل کے سامنے چندھیائی آنکھوں سے بیٹھے رہو، اذانیں ہونے پہ سوؤ اور دیر گئے لال آنکھیں لیے اٹھ کر کہہ دو کہ ہم رات میں جاگے تھے۔ جاگنا تو یہ ہے کہ رات کے راز جانو، نکلو دو بجے رات کو سڑکوں پر، دیکھو رات کی زندگی کیسی ہوتی ہے، رات کی مخلوق کے ڈھنگ کیا ہیں، جان آنی جانی چیز ہے، اسے تو دن دہاڑے بھی زنگ کھا جائے گا، رات جیو اگر رت جگا کرنا ہے، رات محسوس کرو اگر لمبی رات دیکھنی ہے، سنسان سڑکوں پہ نکلو اگر ہمت ہے، وہاں رات ملے گی اپنے پورے جوبن پہ، اسے گلے لگاؤ، پھر جو سرخ آنکھیں لیے آؤ گے تو دعوی کرنے کا حق رکھو گے کہ ہاں، ہم نے رات جاگی ہے!

تمہیں پتہ ہے رات کو چائے کی خوشبو بدل جاتی ہے؟ کافی رات کو زیادہ تلخ اور انلائٹننگ لگتی ہے، سگریٹ سلگتے ہوئے عجیب سی آوازیں نکالتی ہے، کانوں میں شدید خاموشی لمبی کن کی آواز آتی ہے، چنبیلی کا پھول تین چار گز تک خوشبو دیتا ہے، موتیا خود سے آواز دے کے بلاتا ہے، درختوں کے پتے اپنی کہانی سناتے ہیں، سنو، سن لو۔ گاڑیوں کے ہارن، چیختے رکشے، جھگڑتے اینکر، خبروں کی لال پٹیاں، ہیش ٹیگ، احتجاج، امریکہ مردہ باد کے علاوہ کوئی زندگی گزارنی ہے یا اسی میں خوش ہو؟ آدھی سے زیادہ گزار لی ہے بیٹے، کوئی خبر نہیں یہی پوری ہو۔ اب اس وقت سانس چلتا ہے، جسم کام کرتا ہے، آنکھیں دیکھتی ہیں، ناک سونگھتی ہے، کان سنتے ہیں تو کچھ ایسا کر لو جو کرنے کا حق ہے۔ یہ روشنیاں تمہارے ساتھ نہیں رہنے والیں۔ یہ سایہ بناتی ہیں، جو چیز سایہ بنائے اور جانے پہ سایہ تک ساتھ لے جائے اس کی دوستی کیا اور اس کی دشمنی کیسی؟ ساتھ رہنے والا اندھیرا ہے، ساتھ رہنے والی رات ہے، ساتھ رہنے والا سناٹا ہے، اسے اپنا لو، اس سے دوستی کر لو، موج میں رہو گے۔

سنو، سنو، سنو، مجھے یہ بات تمہیں شروع میں ہی کہہ دینا چاہیے تھی لیکن میں بھول گیا۔ جسے رات اپنا بنا لے وہ پھر روشنیوں میں کسی کام کا نہیں رہتا۔ رات اپنے کالے بالوں میں اس طرح اسیر کرے گی کہ دن کے اجالوں میں تمہارا دم گھٹنے لگے گا۔ تمہیں سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔ تم رات ڈھونڈو گے مگر وہ اپنے وقت پر آئے گی۔ ہر رات دوسری سے الگ ہو گی لیکن ایک مکمل رات ہو گی۔ کوئی پچھلی رات تمہیں کسی اگلی رات کے جیسی نہیں دکھے گی لیکن ہر اگلا دن پچھلے دن کے جیسا اور ہر پچھلا دن کئی اگلے منحوس دنوں کے جیسا لگتا رہے گا۔

لیکن یہ باتیں تمہیں سنانے کا فائدہ اب نہیں ہے۔ وقت ڈیجیٹل گھڑی کی صورت تمہاری گردن پہ سوار ہے۔ تم نے ٹھیک چھ بج کے تیس منٹ پہ جاگنا ہوتا ہے، پانچ منٹ الارم سنوز کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد تم اس بھیڑ کا حصہ بننے کی تیاری کرتے ہو جس میں چھوٹے سے چھوٹا کیڑا اور بڑے سے بڑا اشرف المخلوقات سب شامل ہوتے ہیں۔ پیٹ کا جنجال، زنجیروں کی کھنکھناہٹ، فونوں کی گھنٹیاں، چیختے بیپر، ناچتے نامعلوم، س?ن کھڑے ہوئے معلوم، گزرتے سیکنڈ، بدلتے گھنٹے، کسی ہوئی ٹائی، چمکتے جوتے، مشینی کھانا، بے سری چائے، جاؤ بھئی جاؤ۔ یہ سودے بازیاں رات ان کے ساتھ کرتی ہے جن کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ ہوتا ہے۔ تم رات کو اپنی کمائی سے نہیں خرید سکتے، رات تو خود کمائی جاتی ہے۔ تم راتیں گنوانے والے ہو، رات تو گزاری جاتی ہے، رات تو محسوس کی جاتی ہے۔ ورنہ، رات بجھ جاتی ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain