قائداعظم ایسا کیوں سوچتے تھے؟


ہم 1972ء کے موسم بہار میں چھٹی جماعت کے طالب علم ہوئے تومعاشرتی علوم اورتاریخ کی کتابوں میں مشرقی پاکستان سے متعلق اسباق ابھی تک نصاب کا حصہ تھے۔ غالبا ً۔ اساتذہ کو اس ضمن میں کوئی واضع ہدایات نہ ملی تھیں اس لیے مشرقی پاکستان کا جغرافیہ، صنعت، معدینات وغیرہ بدستور پڑھے اور پڑھائے گئے۔ درسی کتابوں پر قائد اعظم کی ویسے ہی تصویر و شبیہ چھاپی جاتی تھی جس طرح کرنسی کے نوٹوں پر ہوتی ہے اور جناح ٹوپی، چہرے پر سنجیدگی، وقار اور رعب جس کا خاصا ہے۔ آرٹسٹ نے قائداعظم کی شخصیت کا جو خاکہ ہمارے ذہن میں اتارا وہ سنجیدگی سے بڑھتا ہوا، فکرو تدبرو یقین کی تصویر پیش کرتا تھا۔

ریڈیو پر قائداعظم کی تقریر کی ریکارڈنگ سنی تھی، آوازاور لہجہ سے مذکورہ بالا تاثر کو تقویت ملتی تھی۔ ٹیلی ویژن ابھی نیا نیا تھا۔ طالب علموں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت دی جاتی تھی۔ معلومات کے ذرائع محدود تھے۔ میڑک کے بعد لائبریری سے واقفیت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ قائداعظم کی شخصیت تو اس شبیہ سے کہیں زیادہ مختلف تھی جس کا تعارف ہم سے درسی کتابوں میں کروایا گیا۔

وہ سخت گیر( ہارڈ لایئنر) نہیں بلکہ جدید نظریات کے علمبردار اورمحروم طبقات کے لیے نرم دلی ان کی سیاست اور فہم و فراست کا نمایاں حصہ تھی۔ قائد اعظم کی زندگی کے کئی واقعات اور ان کی طرف سے مختلف مواقع پر اختیارکئے گئے مؤقف میں معاشرت اور ریاست میں نئے اصولوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ قائداعظم نے کئی مرتبہ مروجہ روا یئتوں سے اتفاق تو کبھی انحراف کیا۔ کچھ نکات ایسے ہیں جو انسانی حقوق، اصول قانون اور ریاستی بندوبست کی وسیع بحث میں ہمیں کاش زمانہ طالب علمی میں معلوم ہو جاتے۔ اس بات کا افسو س بھی ہے کہ ہمارے قومی بیانیئے یا مباحث میں ان اصولوں سے راہ نمائی نہیں لی جاتی۔

1919ء میں رولٹ ایکٹ پاس ہوا تو بمبئی میں ایک جلسے کی صدارت کرتے ہوئے رولٹ ایکٹ کو کالا قانون کہا کیونکہ اس میں انتظامیہ اور پولیس کو وجہ بتائے بغیر حراست میں لینے اور نظر بند کرنے کے اختیارات دیے گئے تھے۔ یہ درست کہ برطانیہ میں جہاں سے جناح نے قانون کی تعلیم پائی وہاں حبسِ بے جا کا قانون لاگو ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں اور جناح پرا س قانون کی افادیت یقیناً برطانیہ میں قیام کے دوران واضح ہوئی ہوگی۔ مگر ہندوستان پر بیرونی تسلط کے تناظر میں اس قانون کی مخالفت کی استطاعت تو اسی ذہن کو ہوگی جو اظہار رائے اور شہری آزادیوں پر غیر مشروط یقین رکھتا ہو۔ ہر لندن پلٹ کو اس کا خیال کہاں تھا۔

1925ء میں محکمہ ڈاک کے مزدورں کی یونین کے صدر بنے تو اگلے ہی سال انڈیا ٹریڈ یونین قانون پاس ہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح مزدورں کی انجمن سازی کے حق اور حالات کار میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

1928ء میں ہندوستان کے باشندوں کی طرف سے متفقہ آئین کا خاکہ نہرو رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا تو انہوں نے اس کے متبادل اپنے چودہ نکات پیش کیے۔ جن میں تین اصولوں پر زور دیا گیا تھا جو آج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

اول۔ وفاقی بندوبست اور اکائیوں کے اختیارات کی مساوات (عدم مرکزیت)
دوئم۔ ریاستی اداروں میں اقلیتوں کی موثر اور یقینی نمائندگی
سوئم۔ صوبائی بندوبست میں اصلاحات (سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی، بلوچستان اور NWFP)

پاکستان میں پہلے اصول یعنی وفاق کی اکائیوں میں اختیارات کی مساوات پر کچھ کام ہوامثلاً این ایف سی ایوارڈ 2009 ء لیکن اس پر فاٹا، گلگت، بلتستان کے ضمن میں بہت سا کام باقی ہے۔
برطانوی تسلط کے زمانے میں بھی تمام صوبے ایک جیسی سماجی ترکیب یا انتظامی صلاحیتوں کے حامل نہ تھے۔ غیر ملکی حکمران کوئی جواز بناکر مساوی اختیارات کے معیار کی نفی کر سکتے تھے۔ خود مختاری کی صورت میں بھی مساوی اختیارات کا اصول اہم تھا اس لئے قائداعظم نے اسے کلیدی اہمیت دی۔ اس تناظر میں فاٹا کو پختونخواہ کا حصہ بنانے میں تاخیر کس قدر ناسمجھی کی بات ہے۔
چودہ نکات میں دوسرے اصول میں وہ اقلیتوں کے لیے مساوی کے ساتھ ساتھ خصوصی سیاسی نمائندگی کے انتظام کا تقاضا کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم اس بات سے غافل نہیں کہ سماج میں عدم مساوات پائی جاتی ہے اور اس تاریخی نابرابری کو محروم طبقات کے لیے خصوصی انتظام کے ذریعے سے ایڈریس کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے انسانی مساوات کے آفاقی اصول کے ساتھ وہ چودہ نکات میں نمائندگی کا مطالبہ بھی کرتے اوریہ بھی کہتے ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر استوار جداگانہ انتخاب کے نظام سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ (نکتہ نمبر تین)

دوسرے لفظوں میں و سیع تر انصاف کے حصول کے لئے وہ حقِ مساوات کو بھی اہمیت دیتے نظرآتے ہیں اور مساوات کو ممکن بنانے کے لیے محروم طبقات پر خصوصی توجہ کے اقدامات (سماجی انصاف)سے گریز بھی نہیں۔ ہمارے ہاں حقوق کی اس اپروچ کو مراعات سمجھا اور بنا دیا گیا ہے۔

سقوط مشرقی پاکستان کے محرکات میں ان دونوں اصولوں سے اغماض شامل تھا لیکن سترہ سالہ تاریخ میں سماجی معاشی ناہمواری کو دور کرنے کے ایسے منصوبے اور پالیسیاں نہیں بنائی جاسکیں جو ان دونوں زاویہ ہائے انصاف جن کو قائداعظم کی فراست نے تسلیم کیا یا آئین کے آرٹیکل 37کے تحت پالیسیوں کی بنیاد ہونا چاہیے تھاجس میں لکھا ہے کہ پاکستان میں استحصال اور غربت کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔

اس ضمن میں قائد کی سوچ قرارداد لاہور میں بھی عیاں ہوتی ہے۔ قرارداد میں جہاں دو ریاستوں کے قیام کی تجویز دی گئی وہاں دونوں ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق پرلازمی، موئثر اور جامع اطلاق کا تقاضا بھی شامل تھا۔

قائداعظم کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی تقریر اقلیتوں کے حقوق پر بشمول مذہبی آزادی کے آدرش کی زریں مثال ہے۔ قائد کی اس تقریر کو بعد کے نظریہ سازوں نے آیئن یا کسی اورپالیسی دستاویز کا حصہ نہیں بننے دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب دستور ساز اسمبلی میں بنیادی اور اقلیتوں کے حقوق کی کمیٹی کی تشکیل ہوئی تو قائد نے اس کی صدارت کی ذمہ داری خود لی۔

1927 ء میں قائد کم سنی کی شادی پر پابندی کا قانون بنانے کے محرک کے طور پر سرگرم تھے۔ یہ قانون کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لئے نہیں سب ہندوستانیوں کے لئے تھا۔
قائد یہ سب کیوں سوچتے تھے؟ وہ غالباً ہمیں ان مشکلات سے بچانا چاہتے تھے جن سے ہما را آجکل واسطہ ہے۔ پھر سوال تو یہ ہوا کہ آیا ہم بھی کبھی ایسا سوچیں گے جیسا قائد سوچتے تھے۔ ہمیں یہ موقعہ مل سکے گا؟ اس کا جواب وہ دے سکتے ہیں جو آیئن اور نصاب تشکیل دینے پر اختیار رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).