اب تو چور بھی چین سے آئیں گے


یہ شاید ’’ہمالیہ سے بلند‘‘ پاک چین دوستی کا کمال تھا جوسکول میں پڑھایاجاتارہا کہ ’’چلتے ہو تو چین کو چلئے ‘‘(اگرچہ بعد ازاں ہم نے امریکہ کا رخ کر لیا)۔ پاک چین دوستی توخیر ہماری پیدائش سے بھی پرانی ہے لیکن اس کے اثرات ہم تک ابھی چند دہائیوں پہلے ہی پہنچے۔ چین سے وابستہ بچپن کی یادیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سوائے اس مقولے کے جو ہمیں دوسری یا تیسری جماعت کی اسلامیات میں بطور حدیث پڑھایاگیا کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ چین جانا پڑے۔ ‘‘۔ ہمارا بچپن جرمنی کی لالٹین کے ساتھ گزرا، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر جاپانی، کمبل ایرانی یا پھر تھوڑے بہت کوریائی اورلڑکپن میں کلاشنکوف روس کی ہوتی تھی۔ کتابوں میں پڑھا کہ’’کنگھی جاپانی اور شیشہ بغدادی‘‘ ہوا کرتا تھا۔ کتابیں، کاپیاں ملک کے اندر ہی بنتیں البتہ کاغذ کہیں باہر(یقیناً چین سے نہیں) سے آتا۔ اناج اور سبزیاں اپنے کھیتوں میں اگتیں یا پھر پنجاب سے آتیں۔

تالا شاید پہلا آلہ تھاجو چین سے آکر ہماری زندگیوں میں داخل ہوا اور بتدریج پاکستانی تالوں کی جگہ لینا شروع کر دی۔ چین کی اس’’تالا ڈپلومیسی‘‘کے پیچھے کار فرما طویل المدتی منصوبہ بندی اور دور اندیشی کا ادراک کافی تاخیر سے ہوا۔ تالے کے بعد چینی مصنوعات کی آمد کا سلسلہ تیز ہوا۔ لالٹین کی جگہ چائینا کی ٹارچیں، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ اور واک مین ( جیبی سائز کے ٹیپ ریکارڈر) ٹیلی ویژن کے علاوہ ملبوسات اور پھر زرعی اجناس تک چین سے آنا شروع ہوئیں۔ کلاشنکوف کا چینی ماڈل بھی با آسانی اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو جاتا۔

’’چائنا کا مال‘‘ ایک استعارے کی صورت میں ابھرا اور زندگی کی ناپائیداری پر لوگوں کا ایمان پختہ کر گیا۔ پاک چین دوستی البتہ پائیدار ثابت ہوئی اور روز بروز مضبوط و مستحکم ہوئی۔ چینی مصنوعات کی آمدقیمتوں میں نمایاں کمی کا باعث بنی۔ معیار زندگی تبدیل ہوتا چلا گیا۔ البتہ بہت کم لوگوں نے احساس کیاکہ چین کی آمدسے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط گھٹ گئے، پھر آنا جانا کم ہوا اوربتدریج تعلقات میں سرد مہری آنے لگی۔ اندرون ملک متعددصنعتیں معدوم ہوتی گئیں۔ کئی صنعت کار امپورٹرز بن گئے اوروہی مصنوعات جو خود بنایا کرتے تھے چین سے ارزاں نرخوں پر بنواناشروع کر دیں۔ صنعتکار اور سرمایہ کار کا تو شاید بھلا ہوا، مزدور کے لئے مواقع محدود ہو گئے۔ صنعتکاروں کے بعد کسانوں کے برے دن بھی پیچھا کرتے پہنچ گئے۔ سبزی، فروٹ، دالیں، پیاز اور گذشتہ دو تین سالوں سے تواخروٹ اور مونگ پھلی بھی چین سے آنے لگیں۔ مشروم جو ہمارے جنگلوں میں اگتی تھی، چین کے کھیتوں سے آنے لگیں

مصنوعات اور زرعی اجناس کے ساتھ ساتھ چینی شہریوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا۔ 1940کے خلفشار کے دوران چین کے شہریوں کی ایک بڑی تعدادآکرکراچی میں آباد ہو ئی تاہم حالات معمول پر آتے ہی کئی ایک واپس چلے گئے یا دوسرے ملکوں کو مہاجر ہوئے۔ فقط تین سے چار ہزار نے کراچی کو ہی اپنا مستقل مسکن بنائے رکھا۔ کچھ سال قبل چین نے پاکستان میں بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کو چین سے لیبر اور انجینئرز کی آمد سے مشروط کیا تو پاکستان آنے والے چینی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ مختلف اقسام کی ہیوی مشینری کی درآمد بھی چینی شہریوں کی آمد میں اضافے کا باعث بنی۔

2005کے زلزلے کے بعد چینی مزدوروں کی آمد کا سلسلہ چلا تو تھمنے کا نام نہیں لیا۔ 2009تک پاکستان میں چینی شہریوں کی کل تعداد دس ہزار تک تھی۔ 2015میں یہ تعداد دیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا تو چینی شہریوں کی آمد کا سلسلہ اور تیز ہوا۔ 2016میں وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 72ہزار چینی باشندے پاکستان آئے۔ 2017 میں یہ اس تعداد میں نمایاں اضافہ متوقع ہے تاہم فی الوقت حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ ایک چینی اخبار کے مطابق اس وقت پاکستان میں چینی شہریوں کی کل تعداد چار لاکھ تک ہے۔

چینی باشندوں نے پاکستان آ کر اپنا رنگ ڈھنگ اور طور طریقہ تو خیر نہیں چھوڑا، البتہ جہاں ضرورت پڑی پاکستانی عادات و اطوار کو بھی اپنالیا۔ بڑے تعمیراتی منصوبوں میں کام کرنے والے پاکستانی مزدور ایک عرصہ تک چینی کمپنیوں اور افسران استحصال کا شکار رہے مگر حکومت پاکستان یا کسی ادارے نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اول تو معلومات تک رسائی نہ ہونے کے برابر رہی، دوسرا بیشترچھوٹے موٹے مسائل کو پاک چین دوستی کی خاطر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ حالیہ دنوں میں نیلم جہلم منصوبہ پر کام کرنے والے مزدور بذریعہ عدالت کمپنی سے دو ارب روپے کی مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے۔

کمپنیوں کے علاوہ چینی شہری جو نجی یا کاروباری ویزوں پر آتے ہیں وہ بھی پاکستان کے عام شہریوں کی استحصال میں ملوث پائے گئے۔ شواہد ملے ہیں کہ اس عمل میں ان کے پاکستانی شراکت داروں کا بھی پھرپور کردار و حصہ ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کی منصوبوں میں تعمیراتی میٹریل کی سپلائی، سامان کی منتقلی، خرید و فروخت جیسے کاموں میں چینی باشندوں کی کمیشن خوری کی داستانیں پاکستانی کمیشن مافیا کو بھی پریشان کیے ہوئے ہیں۔ اور تو اور راولپنڈی اسلام آباد میں چینی باشندوں نے درجنوں چائینز لینگویج سینٹر کھولے، زبان سکھانے کے لئے شہریوں سے بھاری فیسیں وصول کیں اور پھر غائب ہو گئے۔ چین کے تعلیمی ویزوں کے نام پر فراڈ میں پہلے پہل پاکستانی شہری ملوث تھے۔ حالیہ کچھ واقعات میں چینی باشندے بھی اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔

دستاویزات میں جعل سازی، غیر معیاری مصنوعات کی خرید و فروخت، کمیشن خوری، کرنسی اور منشیات اور ممنوعہ اشیاء کی سمگلنگ سمیت کونسا ایسا غیر قانونی کام ہے جس میں چینی شہری اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ دوستی نہ نبھا رہے ہوں۔ دروغ بر گردن راوی کراچی، گوادر اور لاہور سے کچھ دوستوں نے بتایا کہ چھوٹے موٹے سٹریٹ کرائمزجیب تراشی، سمگل اور چوری شدہ موبائل فون اور دیگر برقی آلات کی فروخت کے علاوہ ہوٹلوں میں کھانا کھا کر بل ادا کیے بغیر بھاگ جانے جیسی چھوٹی موٹی وارداتوں میں بھی چینی شہری ملوث ہیں۔ بھاولپور سے کچھ عرصہ قبل اطلاع آئی کہ تین چینی شہری تین مہینے تک ایک ہوٹل پر ادھار کھانے کے بعد لاپتہ ہو گئے۔ سی پیک کے تعمیراتی منصوبوں کے علاوہ بجلی کے منصوبوں پر کام کرنے والے مقامی مزدوروں کے بقول چینی شہری سیمنٹ، سریا اور دیگر تعمیراتی سامان کی فروخت میں بھی ملوث پائے گئے تاہم ان میں سے بیشتر واقعات میڈیا یا پولیس کو بوجوہ رپورٹ نہیں ہوئے۔

نومبر 2017 میں ایف آئی اے نے کراچی میں نے دو چینی شہریوں کو گرفتار کیاجنہوں نے مشینری کی درآمد کے دوران جعلی دستاویزات کے ذریعے کسٹم حکام کو 51کروڑ 30لاکھ روپے کا چونا لگایا۔ اکتوبر میں دو دیگر چینی شہریوں کو لاہور ائیر پورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ایک 20 ہزار امریکی ڈالر جبکہ دوسرا 15ہزار چینی یوان اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ مارچ میں کراچی سے گرفتار ہونے والے ایک چینی باشندے نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں ان کے منظم گروہ سکیمنگ ڈیوائسز کے ذریعے اے ٹی ایم مشینوں سے شہریوں کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور پھر جعلی اے ٹی ایم کارڈ بنا کر لوگوں کے اکاونٹس سے رقم چراتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک چرائی گئی رقم کروڑوں نہیں اربوں میں ہے۔ جون 2016میں پولیس نے کراچی سے ایک چینی شہری کو گرفتار کیا جس پر الزام تھا کہ اس نے مختلف اے ٹی ایم مشینوں سے شہریوں کے کم از کم دو کروڑ روپے چرائے۔ رواں سال کے آغاز میں ہی پولیس اور ایف آئی اے نے کراچی شہر کے مختلف علاقوں سے کم از کم پانچ چینی شہریوں کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے گذشتہ کچھ عرصے میں اے ٹی ایم مشینوں پر سکیمرز لگا کر مختلف اکاونٹس سے کروڑوں چرائے۔

پاک چین دوستی کے شاہکار سی پیک منصوبے کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے درمیان معاشی کے ساتھ ساتھ ثقافتی رشتے بھی قائم ہو رہے ہیں اور مستقبل قریب میں مذہبی رشتے بھی جنم لینے کا امکان ہے (چند ماہ قبل سی پیک کے حوالے سے ایک سمینار میں مشاہد حسین سید کی تقریر سے لگ بھگ یہی تاثر ملا تھا۔ ) گوادر میں چینی کرنسی کے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت ابھی کچھ ہی دن قبل ملی ہے۔ ثقافتی تعلقات کی مثالیں چینی اور پاکستانی شہریوں کی باہمی شادیوں کی صورت میں موجود ہیں۔ چینی مصنوعات، اجناس اور شہری جس تیزی سے پاکستان میں وارد ہوئے اسی تیزی سے اس معاشرے کا حصہ اور ضرورت بنتے چلے گئے۔ اب تو یوں لگتا ہے کے آنے والے سالوں میں، مصنوعات اجناس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ چوراچکوں، کے علاوہ ٹارگٹ کلر سے بھکاری تک سبھی چین سے ہی آئیں گے۔ عین ممکن ہے کہ عنقریب پاکستانی بھکاری احتجاج کرتے نظر آئیں کے چینی گداگروں نے ریٹ گرا دیے ( جس طرح افغانی مزدوروں نے پاکستانی مزدوروں کے ریٹ کم کروائے تھے۔ ) البتہ جس تیزی سے چینی چور، سمگلر اور نوسرباز پاکستانی پولیس کے ہتھے چڑھ رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وہ واقعی ”چائنا کا مال“ ہیں۔ چینی مصنوعات کی طرح ان کی بھی کوئی گارنٹی نہیں چلا تو چلا، نہ چلا تو ٹھس۔ ہاں یہ یاد رہے کہ ان چور اچکوں، وارداتیوں اور نوسربازوں کی کارستانیوں کی بناء پر پاک چین دوستی پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی کیونکہ چین نے چور بھیجنے سے کئی دہائیاں قبل تالا بھیج کر دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments