صدق خواب کی شاعری


ڈاکٹر محمود ناصر ملک مشاعرہ پڑھنے والا، ادبی بیٹھکوں میں شاعری سنانے والا، شاعری میں استادی شاگردی کے مناقشے چھیڑنے والا اور شاعری کے شخصی دبستانوں کا سہارا لے کر مشہور ہونے کی کوشش کرنے والا شاعر نہیں ہے۔ گستاخی معاف، مگر یہی اس کیشاعری کا سب سے مضبوط اور پرکشش حوالہ ہے۔

محمود ناصر پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر، مشرب کے اعتبار سے ملنگ، مسلک کے اعتبار سے انسان، گفتار کے لحاظ سے شاعر، کردار کے حوالے سے خاموش محبتی اور منہاج کے اعتبار سے لفظوں کی بجائے تصویروں میں سوچنے والا مفکر ہے۔

میرا خیال ہے محمود ناصر شاید روزانہ اخبار نہیں پڑھتا مگر روح عصر اس کی ملاقات تازہ رہتی ہے۔ میں نے امراض اور مریضوں پر اس کی گفتگو سنی ہے مجال ہے کوئی غیر سائنسی بات آپ اس سے سنیں۔ وہاں وہ صرف ایک ڈاکٹر سنائی دیتا ہے۔ مجھے معلوم ہے وہ تصوف کی دنیا کے ایک نامی اور گرامی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن آپ کسی بابے کی بے سروپا کرامات سنا کر اسے متاثر نہیں کرسکتے۔ تصوف سے اس تعلق نے اس کے لئے انسانی دکھ کو منشائے ایزدی نہیں بننے دیا۔ مجھے لگتا ہے اس کے اندر ایک مارکسسٹ بھی چھپا ہوا ہے۔ لیکن یہ مارکسسٹ محبت کرنے سے باز نہیں آتا صرف اظہار سے ڈرتا ہے۔ ہوسکتا ہے اسی بے پایاں محبت کے اظہار کے لیے اس نے خود کو شاعری کی اجازت دی ہو۔

روح عصر سے اس کا تعلق، انسانی دکھوں کے ساتھ اس کا ربط، محبت کرنے کی شدید خواہش اور اس کے نتیجے میں خود پر گزرنے والے کرب کا احساس اور خدا سے اس کا ایک پیچیدہ تعلق محمود ناصر کی شاعری کی نمایاں ترین پہلو ہیں۔

ہم خواب دیکھنے والے لوگ ہیں لیکن ہم نے اتنے خواب دیکھ اور سنبھال رکھے ہیں کہ اب ہم بد خوابی کے مریض ہوگئے ہیں۔ جس طرح حد سے زیادہ کھانے سے بدہضمی ہوتی ہے اسی طرح استطاعت سے زیادہ خواب دیکھنے سے بد خوابی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایک خواب دوسرے سے متصادم ہو تو خواب ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں آپ جانتے ہیں کہ خواب مستقبل کا راستہ اور منزل کے سنگ میل ہوتے ہیں۔ یہ باہم دست وگریباں ہوجائیں تو راستے کھوٹے ہوجاتے ہیں دیکھئے اس بات کو محمود ناصر کیسے بیان کرتا ہے۔
آنکھیں جب بھی
صدق خواب سے ڈر جاتی ہیں
نغمے
میلے ہو جاتے ہیں

میرے استاد ڈاکٹر اختر احسن نے بہتی ہوئی ندی کی تصویر کو انسان کی زندگی کے مسلسل حالت سفر میں ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ تصویر علامہ اقبال کی مشہور نظم ساقی نامہ کے ان اشعار سے مطابقت رکھتی ہے جس میں علامہ نے ایک پہاڑی ندی کی شعر کشی کی ہے۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ

پہاڑی ندی کے بہنے کی آواز کو میرے استاد نے زندگی کا نغمہ قرار دیا ہے۔ اس نغمے کا جاری رہنا زندگی کے رواں دواں رہنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی بات کو محمود ناصر کے ایک اور شعر میں دیکھیے
جسے اب چاند راتوں میں مچھیرے گنگناتے ہیں
سمندر نے سنایا تھا وہ نغمہ خواب کے اندر

محمود ناصر نے اس نغمے کے رکنے کی بات نہیں کی اس نے اس کے میلے ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ نغمہ جاری ہے مگر میلا
Polluted
ہو چکا ہے۔ ”نغمے میلے ہو جاتے ہیں“۔ کی بلاغت اپنی جگہ پر لیکن اس کی وجہ اس سے زیادہ بلیغ ہے اور وہ یہ کہ آنکھیں خواب سے ڈر جاتی ہیں۔ علامہ اقبال ڈاکٹر اختر احسن اور محمود ناصر ملک تینوں کی باتوں کو ملایے اور ایک تصویر بنایے۔ آپ کو لگے گا کہ ہمارے خواب گڈمڈ ہوگئے ہیں خوابوں میں جنگ جاری ہے یہ خوابوں کی جنگ ہے جس میں انسان بم بن کر پھٹ رہے ہیں۔ اور آگے کی راہ کھوٹی ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایسے میں محمود ناصر آپ کو یہ دعا مانگتا دکھائی دیتا ہے۔
مجھے رستوں سے آگے کی خبر تھے۔
ہنر دے مجھکو پھر زاد ہنر دے۔

خوابوں کی اس لڑائی میں جہاں ہر خواب دوسرے سے متصادم ہے ایسے میں منزل کے ہر نشان کا دھندلا جانا لازم ٹھہرتا ہے۔ مگر کیا کیجئے محمود ناصر اس دھندلی تصویر کو بھی بہت صاف دیکھتا ہے۔ یہ اس کی بصارت ہے، بصیرت ہے یا خواب کو صفائے قلب سے دیکھنے کی صلاحیت۔ مگر وہ اس دھندلی تصویر کو بھی بہت واضح دیکھنے پر قادر ہے نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس کی تصویر کشی بھی کرتا ہے۔ اس تصویر کے خدوخال اور تفصیلات سے ہمیں آگاہ بھی کرتا ہے آپ کا دل چاہے تو اس تصویر کو نئے نظریہ علم کی روشنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
مکیں کی خاک اڑتی ہے۔ مکاں کی خاک اڑتی ہے
کہ شہر آرزو میں ہر گماں کی خاک اڑتی ہے۔

خابوں کے مابین جاری جنگ جس نے خواب کو گمان اور مکان و مکین کو خاک کر دیا ہے کو دکھانے والا شاعر آپ کو پھر اوبھی اوبھی سانس لیتی حقیقت میں واپس لاتا ہے۔
جہاں بارود پھٹتا ہے فنا کا رقص کرتا ہے
لہو معصوم جانوں کا بھی کیا کیا رقص کرتا ہے
ہمارا ہی تماشا لگا ہے دربار دنیا میں۔
ہمیں خود ہیں تماشائی تماشا رقص کرتا ہے۔

پاکستان حالت جنگ میں ہے یہ جملہ اپنے کئی ہزار مرتبہ سنا ہوگا کبھی یہ جملہ کہنے والوں سے یہ بھی پوچھیے کہ اس جنگ میں ہمارا دشمن کون ہے۔ جواب میں جب خاموشی ملے تب سمجھ میں آتا ہے کہ تماشا کیسے رقص کرتا ہے۔ جب ایک بےنام دشمن کے ساتھ ایک بے وجہ جنگ آپ کو جنگ میں تماشا بنا دے اور آپ اس جنگ کو حق اور باطل کی لڑائی قرار دیں۔ تو ایسے میں شاعر آپ سے لڑنے تو نہیں آئے گا مگر آپ کو یہ ضرور دکھلا دے گا کہ تماشا دکھانے والی کٹھ پتلیاں، ان کی ڈوریاں ہلانے والے، تماشا بننے والے اور تماشائی اصل میں سب ایک ہیں۔ میںں تو شاعری کا ایک عام قاری ہوں ہے۔ نقاد ہونا تو دور کی بات ہے تو شاعری کی کما حقہ تفہیم کا دعویدار بھی نہیں ہوں۔ لیکن معاشرے کی موجودہ صورتحال پر ہونے والی شاعری پر نظر ڈالیے پھر تماشا کرنے والے تماشا بننے والے اور تماشا دیکھنے والوں کے اختلاط کے بیان کی مثال ڈھونڈ کر لائیں۔ جب شناخت مدغم اور پہچان معدوم ہوجائے تو گھٹن بڑھ جاتی ہیں
گھٹن ہر روز بڑھتی جا رہی ہے
ہوا سے دور ہوتے جارہے ہیں

ہوسکتا ہے ایسے میں اقبال کے تتبع اور پیروی میں محمود ناصر نے خدا سے شکوہ کرنے کا سوچا ہو لیکن جس طرح وہ محبت کا اظہار بھی براہ راست نہیں کرتا اسی طرح شکائت کرنے کا انداز بھی اس نے صوفیا سے مستعار لیا ہے۔
بڑی مدت سے کوزہ گر نے اس جانب نہیں جھانکا
کہ اب چاک زماں پر کس جہاں کی خاک اڑتی ہے۔

میں نے شروع میں عرض کیا کہ میرے لئے محمود ناصر کی شاعری میں کشش کی سب سے بڑی وجہ اس کا ایک غیر روایتی شاعر ہونا ہے۔ وہ ایک بہت ہی مصروف استاد اور معالج ہے۔ مصروف معالج اپنے یقیناً دیکھے ہوں گے۔ ان کے لیے انسان ایک جسم سے زائد کچھ نہیں ہوتا۔ علاج میں ناکامی کے بعد یہ معالج اتنا بھی اداس نہیں ہوتے جتنا ایک بچہ سستے کھلونے کے ٹوٹنے پر ہو جاتا ہے۔ محمود ناصر معالج بھی غیر روایتی ہے۔ وہ ایک خطاط بھی ہے اور یہ خطاطی بھی غیر روایتی ہے۔ اس نے محبت بھی غیر روایتی کی ہے۔
بنائیں گے اب اور کوئی صورت تعلق کی۔
یہ وصل و ہجر اپنے درمیاں رہنے نہیں دیں گے۔

مجھے نہیں معلوم جو شخص ہر کام روایت سے ہٹ کر کرنے پر بضد ہو اس سے یہ شکایت کس حد تک جائز ہے کہ اس نے بادل کے بجائے پانی کو کیوں جھکا دیا۔ محمود ناصر اپنے ذہن میں تصویریں بناتا ہے۔ میں نے غلط کہا تصویروں نے اپنے نزول کے لیے محمود ناصر کے ذہن کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصویر اس پر وارد ہوتی ہیں، نازل ہوتی ہیں، القا ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اختر احسن کی شاگردی مجھے بتاتی ہے کہ ایسی تصویریں دیکھنے والا ان تصویروں کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ یہ تصویریں اس پر حکمرانی کرتی ہیں۔ اب اگر ان تصویروں میں محمود ناصر نے پانی کو جھکتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو وہ کیا کرے۔ روایتی قواعدو ظوابط کی غلامی یا اپنے ذہن میں بننے والی تصویروں کی آزادی پر اصرار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).