کالم نویس، انڈرویئر اور برائیلر تجزیہ کار


کہیں پڑھا تھا کہ “جنھیں پڑھنا چاہیے، وہ لکھ رہے ہیں اور جنھیں لکھنا چاہیے، وہ پڑھنے پر مجبور ہیں”۔

اگر ہم روزانہ کی اخبارات کا مطالعہ کریں۔ تو ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ کسی نے ایسا یقیناً اردو اخبارات (اکثریت) کے ادارتی صفحات پڑھ کر کہا ہو گا۔

ادارتی صفحات پر باقاعدگی سے چھپنے والے چند بلکہ اکثریت ایسے کالم نویسوں کی ہے۔ جو صرف بیت الخلا جانے کے قصّے کو اپنے کالموں کی زینت نہیں بناتے۔ وگرنہ تو اکثر کالم نویس اپنے گھر سے نکل کر دفتر پہنچنے تک کے سفر کو بھی نظریہ کالم کا تڑکا لگا کر کالم کی صورت میں خارج کر دیتے ہیں۔ جسے ادارتی صفحات کے غیر ادارتی مدیر چھاپنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اگر یہ کالم نویس، کسی بیرونی دورے پر چلے جائیں پھر تو بس پوچھیئے مَت۔ ایئرپورٹ کی انتظار گاہ سے لیکر بیرون ملک پہنچ کر رفع حاجت تک کے تمام مراحل کو وہ کالم داغنے والے قلم کے ذریعے داغ دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ انٹارٹیکا کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ جہاں صرف وہی جا سکتے ہیں۔

چند کالم نویسوں کی نویسیاں پڑھ کر تو لگتا ہے کہ ان کے گھر میں کوئی ان کی سنتا نہیں ۔ لہزا وہ بولتے نہیں، لکھتے ہیں اور وہ جو لکھتے ہیں۔ اسے ان کا ملازم ٹائپ کرکے اخبار والوں کو ای میل کردیتا ہے۔ جو چھپ جاتا ہے۔

ایسے کالم نویسوں کو پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ روزانہ لکھنے والے کالم نویسوں پر ویسے ہی پابندی لگا دے۔ جیسے زیادہ بچے پیدا کرنے والوں پر ہونی چاہیئے۔ بلکہ حکومت کو چاہئیے ان کالم نویسوں کے لئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ان کے قلم کے لئے کنڈوم بھی باآسانی بازار میں دستیاب کردے۔ تاکہ پڑھنے والوں کو مجبوراً بھی ان کالم خوروں کو پڑھنا نا پڑے۔

کچھ نامی گرامی کالم نویس تو اپنے کالموں میں ایسی گاڑھی اور نستعلیق اردو لکھتے ہیں۔ جسے سمجھنے کے لئے لغت کی خدمات مستعار لینا پڑھتی ہیں۔ ایسے کالم نویس سمجھتے ہیں کہ کالم میں مشکل الفاظ کا استعمال ان کے کالم کو دوسروں سے منفرد کرتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں تعلیم یافتہ اسے سمجھا جاتا ہے۔ جو اخبار پڑھ سکے۔ ناکہ اخبارات میں چھپنے والے ان کالموں کو جن کی اردو پڑھ کر پڑھنے والوں کے پیٹ میں مڑور اٹھنے لگیں اور اسی اخبار کو قے آنے کی صورت میں استعمال کرسکیں۔

پاکستان میں نیوز چینلز کی بھرمار کے بعد ان کالم نویسوں کی اکثریت بزریعہ برقی آپریشن کالم نویسوں سے تجزیہ کار بن گئے ہیں اور اب نیوز چینلز پر ہونے والے مباحثوں میں کسی بھی دستیاب کالم نویس پلٹ تجزیہ کار کو اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جتنا تحریک انصاف کے جلسوں میں ناچ گانا۔

اخبارات میں کالم لکھنے والوں کی اکثریت ان صحافیوں کی ہے۔ جو اس زمانے میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ جس زمانے کی گاڑیوں کے ماڈل بھی سڑکوں سے غائب ہوچکے ہیں۔ یہ ان کالم نویسوں کی خوش قسمتی ہے کہ جب ان کی تاریخ اختتام مدّت قریب آئی تو پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا نے براستہ آمریت زچگی آنکھ کھول لی۔

ایک کے بعد ایک نیوز چینل آنے پر ان ادھیڑ عمر کالم نویسوں کو بھی اپنے ولیمے کے سوٹ زیب تن کرنے کا موقع مل گیا اور نیوز چینلز دیکھنے والوں کو وحید مراد اور محمد علی کے زمانے کے فیشن یاد آنے لگے۔

ادھیڑ عمر کالم نویس پلٹ تجزیہ کاروں کے ضرورت سے زیادہ استعمال اور چینلز کی بھرمار نے میڈیا انڈسٹری میں فریش تجزیہ کاروں کی طلب میں اضافہ کردیا۔ جس کو پورا کرنے کے لئے مصنوعی نشوونما پانے والے برائلر چکن کی طرح برائلر تجزیہ کار آنے شروع ہوگئے۔ جنھیں عسکری پولٹری فارمز میں سٹیرائیڈز اور انجیکشنز کی مدد سے تیار کیا گیا۔ تاکہ برقی میڈیا کی طلب کو پورا کیا جاسکے اور بزریعہ برائیلر تجزیہ کار پولٹری فارمز چلانے والے اپنے قوم پرست بیانئے کی ترویج کرسکیں۔

اِن برائلر تجزیہ کاروں نے مارکیٹ میں آتے ہی دیسی تجزیہ کاروں کو تگڑا ٹاکرا دینا شروع کردیا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ ٹاک شوز کی کاسٹ پوری کرنے کے لئے برائلر تجزیہ کاروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ جو کہ برائلر چکن کی طرح مناسب قیمت پر باآسانی دستیاب بھی ہوتے ہیں اور دیکھنے میں بھی اُن تجزیہ کاروں سے بہتر۔ جو ان برائلر تجزیہ کاروں کو دیکھا دیکھی نئے سوٹ تو سلوا چکے ہیں۔ مگر اِن صحافی تجزیہ کاروں کا اندازِ بیاں، برائلر تجزیہ کاروں کی طرح نا تو تندوتیز ہے اور نا انھیں سوشل میڈیا پر اپنا منجن بیچنا آتا ہے۔

روائتی کالم نویسوں کی اکثریت ایسی ہے جنھوں نے صحافت پہلے اور انڈر ویئر پہننا بعد میں شروع کیا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو ہر کالم نویس اپنے آپ میں صحافت کی ایک یونیورسٹی ہے اور شاید پاکستان میں صحافت کا جو معیار اس وقت ہے۔ اس کی وجہ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا ہیں۔ جنھیں ان کالم نویسوں نے ہمیشہ بیلنس رپورٹنگ کرنے کا سبق تو دیا۔ مگر خود اپنے کالموں اور تبصروں میں بیلنس کو پلٹ کر اَن بیلنس کرکے کے دکھایا۔

دوسری طرف برائلر تجزیہ کاروں کی ضرورت سے زیادہ رسد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ آج کا صحافی ان برائلر تجزیہ کاروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رپورٹنگ کے دوران ہی تجزیہ کرنا شروع کردیتا ہے اور سٹوڈیو میں بیٹھا میڈیا ڈگری رکھنے والا برائلر میزبان بھی ایسے سوالات داغتا ہے۔ جس کا نا تو سر ہوتا ہے اور نا پیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).