مارو ان باغیوں کو
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب لال مسجد کی انتظامیہ نے اسلام آباد میں اپنا قانون چلانا شروع کر دیا، اپنے لڑکوں کو پولیس کی ذمہ داری دے کر قاضی خود بن گئے، تو میڈیا پر بہت شور مچا کہ اس لاقانونیت کو روکا جائے۔ آوازیں اٹھیں کہ قانون بنانے اور عمل کرنے کا اختیار صرف ریاست کو ہے۔ میڈیا کے چوبیس گھنٹوں نے چیخنا شروع کر دیا کہ \’مارو ان باغیوں کو\’۔ لیکن انتہا اس وقت ہوئی جس وقت چینی شہریوں کو لال کر دیا گیا تو چینی حکومت بھی اس مسئلے میں شامل ہونے پر مجبور ہو گئی۔
مفتی تقی عثمانی کے مولوی عبدالعزیز سے مذاکرات ناکام ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مولوی عبدالعزیز سے تعلق توڑنے کا بیان دیا اور مولوی عبدالعزیز کو خود سے نسبت دینے سے منع کر دیا۔ چودھری شجاعت حسین اور اعجاز الحق صاحبان کے مذاکرات بھی ناکام ہوئے۔ اور آپریشن شروع ہو گیا۔ ثابت یہ ہوا کہ لال مسجد میں ایسے لڑاکے اور ایسا اسلحہ موجود تھا کہ فوج کے مایہ ناز ایس ایس جی کمانڈو بھی آسانی سے مزاحمت کا خاتمہ نہ کر سکے۔
پھر خبریں آئیں کہ اتنے لوگ مر گئے ہیں، اتنے بچوں کی موت ہوئی ہے، اتنا نقصان ہوا ہے۔ اور پچھلے نو سال سے آج تک وہی میڈیا مشرف کو برا کہہ رہا ہے جس نے آپریشن کے لیے اپنے چوبیس گھنٹوں کی مہم چلائی ہوئی تھی۔ مولوی عبدالعزیز آزاد ہیں، اور اس آپریشن کے نتیجے میں جنرل مشرف ضمانتیں کرواتے پھر رہے ہیں۔
معاملہ یہ تھا کہ قانون کی عملداری اور بالادستی پر ہم متفق نہیں ہیں۔ قانون ہماری مرضی کے مطابق فیصلے نہ دے تو ہم اس کو ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
یہی معاملہ سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کی کہانی میں نظر آتا ہے۔ قانون پر چلنا نہ ممتاز قادری کو پسند تھا اور نہ ہی اس خطیب کو جس نے اپنی شعلہ بیانی سے ممتاز قادری کو قتل کرنے پر اکسایا اور بعد میں عدالت میں بیان حلفی دے کر اپنے خطاب سے اظہار برات کر دیا۔ سو ممتاز قادری نے خود ہی فیصلہ کیا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی ہے، اور قتل کر دیا۔ اب مفتی تقی عثمانی کی بات مانیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سلمان تاثیر نے گستاخی نہیں کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود، ممتاز قادری کی حمایت میں بریلوی حلقوں کے علاوہ انہیں تحقیر سے \’قبر پوجنے والے مشرکین\’ کہنے والے مسالک کے راہنما بھی جنازے میں شریک ہو کر شعلہ بیانیاں دکھاتے نظر آئے۔
اور اب اٹھائیس دن کے بعد ہونے والے چہلم میں وہ سب غائب ہو گئے۔ صرف چند بریلوی جماعتیں بچی ہیں جو مار دھاڑ کرتی ہوئی اسلام آباد کے ریڈ زون میں پہنچ گئی ہیں۔ اور ان کے مطالبات ایسے ہیں جو کہ حکومت کے لیے پورے کرنے ممکن ہی نہیں ہیں۔ میڈیا کے چوبیس گھنٹے ویسے ہی شور مچا رہے ہیں کہ حکومت نے ان مظاہرین کو ریڈ زون میں کیوں آنے دیا اور ان کو طاقت سے روکا کیوں نہیں، جیسے کسی زمانے میں انہوں نے لال مسجد کے معاملے میں یہی شور مچایا تھا کہ ریاست طاقت استعمال کرے۔ میڈیا پر یہی صدائیں ہیں کہ \’مارو ان باغیوں کو\’۔ اسی اثنا میں لاہور میں گلشن اقبال میں دہشت گردی کی ایک بہت بڑی واردات بھی ہو گئی۔
اب حکومت کسی بھی قسم کے مطالبات ماننے اور مذاکرات کرنے کی بجائے ان مظاہرین کو ریڈ زون سے ہٹانے کے لیے آپریشن کرتی نظر آ رہی ہے۔ جس فوج کی نگرانی میں اسحاق ڈار اور ایاز صادق سے مذاکرات کرنے کا مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں، اسی فوج نے پنجاب بھر میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔
حکومت اور فوج یکسو دکھائی دیتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے مطالبات سے بلیک میل نہیں ہونا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان کے کسی بھی قسم کے دباؤ کو نظرانداز کر کے آئندہ قانون پر چلنا ہے۔
مظاہرین کو حکومت نے پہلے دو گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا کہ ریڈ زون خالی کر دیں، پھر اس میں تین گھنٹے کی توسیع کر دی گئی ہے۔ مظاہرین جذبے سے سرشار ہیں، ان کے لیڈر ان کا حوصلہ جوان رکھے ہوئے ہیں۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ پرتشدد آپریشن تک بات جائے گی اور یہ پاکستان کے لیے ایک برا دن ثابت ہو گا۔ مظاہرین نے حکومتی الٹی میٹم مسترد کر دیا ہے اور اب حکومت نے پندرہ منٹ کا نوٹس دیا ہے کہ ریڈ زون خالی کر دیا جائے۔
اگر عین آخری لمحات میں حکومت کوئی بریک تھرو کرنے میں کامیاب ہو گئی تو دوسری بات ہے ورنہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ حکومت اس مرتبہ یہ تاثر دینے کی کوئی بھی کوشش نہیں کر رہی ہے کہ وہ خود آگے بڑھے اور ان مظاہرین کے لیڈروں کو یہ موقع دے کہ وہ حکومتی رٹ پر بالادستی حاصل کرتے دکھائی دیں۔
لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا حکومت خود قانون پر چلنے کا تاثر دے رہی ہے؟ کیا ماڈل ٹاؤن کے قتل کے معاملات شفاف ہیں؟ کیا پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن حکومت نے شروع کیا ہے یا وہ اس آپریشن کو روکنے کی پوری کوشش کرتی رہی ہے اور اب گلشن اقبال میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد عسکری اداروں نے خود ہی یہ آپریشن شروع کر دیا ہے؟
حکومت اگر خود قانون پر چلتی نظر نہیں آئے گی تو وہ اخلاقی برتری کھو دے گی، اور انجام کار یہ آپریشن پاکستان کے لیے برا ثابت ہو سکتا ہے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).