قصور کا وہ ’بے قصور‘ جسے قاتل سمجھا جاتا رہا


مدثر

ایک سال تک مدثر کو قاتل سمجھا جاتا رہا

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات کریں گے جن کے مطابق پولیس نے ایک شخص کو ایک بچی کے قتل کے غلط الزام میں ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔

یہ واقعہ گذشتہ برس فروری میں پیش آیا تھا۔

یہ الزامات بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں اس وقت سامنے آئے جب حال ہی میں صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی زینب انصاری کے ڈی این اے سے معلوم ہوا کہ ان بچیوں کو مارنے والا شخص ایک ہی ہے۔

پولیس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ سال فروری میں مدثر نامی شخص گرفتاری کے دوران مزاحمت کی وجہ سے مارا گیا تھا۔

قصور سے تعلق رکھنے والی زینب انصاری کے ریپ اور قتل کے بعد ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے دیکھے گئے۔

زینب کیس میں پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملنے والا ڈی این اے وہی ہے جو قصور ہی میں دیگر سات بچیوں پر ہونے والے حملوں سے ملا تھا۔

منگل کو یہ معلوم ہوا کہ پولیس نے عمران علی نامی شخص کو 22 جنوری کو قصور سے گرفتار کیا اور پھر صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ اس کا ڈی این اے زینب کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے سے مکمل مطابقت رکھتا ہے اور دعویٰ کیا کہ وہی اس کا قاتل ہے۔

پولیس کے مطابق اس کے ڈی این اے کا نمونہ زینب کے جسم سے حاصل کیے گئے قاتل کے ڈی این اے کے نمونوں سے مطابقت رکھتے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ ’وہی زینب سمیت ان آٹھ بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں کا مرکزی ملزم ہے‘۔

ان متاثرہ بچیوں میں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھیں، جنھیں گذشتہ سال فروری میں قصور ہی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

آج تک پولیس اور متاثرہ خاندان یہی سمجھتے رہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا ہے۔

ایمان فاطمہ

ایمان فاطمہ اپنی والدہ کے ہمراہ

’بھاگنے کی کوشش کی؟‘

ایمان فاطمہ اپنے گھر کے باہر گلی میں اپنے پانچ سالہ کزن عدیل کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔

اپنے والد کے ہمراہ بیٹھے عدیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اغوا کرنے والے نے مجھے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور ایمان فاطمہ کو لے گئے۔ وہ اسے اوپر لے گئے، ایک بوری میں ڈالا اور لے گئے۔‘

اس حادثے کے بارے میں عدیل کبھی کبھار بھول جاتے ہیں اور پریشان ہو جاتے ہیں لیکن ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اغوا کے بعد عدیل نے اپنی کم عمری کے باوجود اس گھر کی نشاندہی کی جہاں ان کی کزن کو لے جایا گیا اور بعد میں اس شخص کے بارے میں بھی بتایا۔

وہ مشتبہ شخص 21 سالہ مدثر تھا، جو ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور تقریباً دو سال پہلے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ قصور آیا تھا۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ متنازع ہے۔ پولیس کے ایک بیان کے مطابق مدثر کو مزاحمت کے دوران مارا گیا، جبکہ ایک اور سینیئر پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسے حراست میں لیا گیا جہاں اس نے اقبال جرم کیا، اور پھر بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا۔‘

لیکن بی بی سی سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے مدثر کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پولیس نے یہ جانتے ہوئے اسے مار دیا کہ ’وہ قاتل نہیں تھا کیونکہ وہ اصل مجرم کو تلاش نہیں کر پائے تھے‘۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں پولیس کو ’پولیس انکاؤنٹرز‘ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور ماورائے عدالت قتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا مزاحمت کرنے کی صورت میں ہوا۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس اکثر ’پولیس انکاؤنٹر‘ اس لیے کرتی ہے کیونکہ پاکستانی عدالتوں میں سزائیں ملنے کی شرح بہت کم ہے۔

مدثر کی والدہ

مدثر کے گھر والوں کو بعد میں اپنا گھر اور شہر چھوڑنا پڑا

’انھوں نے میرے بیٹے کو مار ڈالا‘

ایمان فاطمہ کی لاش ملنے کے بعد مقامی رہائشیوں نے بظاہر حکام کی جانب سے کوئی قدم نہ اٹھانے پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔

جنوری 2017 ہی میں ایک اور پانچ سالہ بچی عائشہ آصف کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں سب کچھ کھو بیٹھی ہوں۔ انھوں نے میرا بیٹا مار ڈالا۔‘

جمیلہ بی بی نے روتے ہوئے کہا ’ہمارے پڑوس میں رہنے والوں میں سے کوئی ہمارے ساتھ بات تک نہیں کرتا تھا۔‘

اس واقعے کے چند دن بعد مدثر کے گھر والے قصور چھوڑ کر چلے گئے۔

مدثر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جس دن ایمان فاطمہ اغوا اور قتل ہوئی اسی دن مدثر کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس کے بعد وہ پولیس کے ساتھ گئے اور ایک مقامی ہسپتال سے مدثر کی لاش حاصل کی۔

قصور میں پولیس حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ مدثر کی شناخت اس بچی کے کزن عدیل نے بطور مشتبہ شخص کی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایمان فاطمہ کے ایک رشتے دار نے بتایا کہ پولیس نے انھیں تھانے بلوایا تاکہ وہ مدثر کا قتل کے حوالے سے اقبال جرم سن لیں۔

لیکن بعد میں زینب کے قتل کے بارے میں جاری تحقیقات میں ڈی این اے کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ مدثر قاتل نہیں تھا۔

گذشتہ سال فروری میں مدثر کے مرنے کے بعد زینب سمیت چار مزید بچیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے تین ہلاک ہوگئیں جبکہ ایک اب بھی ہسپتال میں ہے۔ ان بچیوں سے بھی وہی ڈی این اے ملا ہے جو ایمان فاطمہ سے ملا تھا۔

جب وہ الزامات پیش کیے گئے جن کا بی بی سی نے سراغ لگایا تھا تو پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبے میں حکام اس کی ’مکمل تحقیقات‘ کریں گے اور ’ماورائے عدالت قتل کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔‘

ایمان فاطمہ کے والد نے بی بی سی کو بتایا تھا: ’میں بہت پریشان ہوں، اصل قاتل اب بھی آزاد گھوم رہا ہے اور ایک معصوم شخص کو مار دیا گیا۔‘

’مجھے پولیس پر اتنا غصہ ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ہمیں انصاف چاہیے اور ہم چاہتے ہیں کہ اصل مجرم پکڑا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp