تین نسلوں کی کہانی…. ایک سی رائیگانی


 \"raziہم سب ملتان ٹی ہاﺅس میں بیٹھے تھے اور مکالمہ جاری تھا۔ ان موضوعات پر اور ان بہت سے مسائل پر جو ہمارے گردوپیش میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ذکر ہو رہا تھا ان دکھوں کا جو ہم سب کی تقدیر میں لکھ دیئے گئے اور کاتب تقدیر کون ہے اس کا ہم میں سے کسی کو بھی علم نہیں۔ ایک الجھی ہوئی ڈور تھی جسے ہم سب سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈور کا ایک سرا ہم سب کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا سرا کسی ایسی قوت نے انتہائی مضبوطی کے ساتھ تھام رکھا تھا جو ہماری تقدیر کی مالک بن بیٹھی ہے، جوہمارے حصے کے دکھ تحریر کرتی ہے، ہمیں آنسو دیتی ہے اور جسے ہم سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق کوئی بھی نام دے دیتے ہیں۔ ہم تین نسلوں کے نمائندے ملتان ٹی ہاﺅس میں غیر رسمی مکالمہ کررہے تھے کہ یہ مکالمے کی جگہ ہی تو ہے اور یہ ٹی ہاﺅس تعمیر ہی اس لیے کیا گیا کہ شہر کے دانشور یہاں جمع ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ بات کریں۔ اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور معاشرے میں پھیلے ہوئے دکھوں کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ٹی ہاﺅس اگر کچھ لوگوں کی نظروں میں بری طرح کھٹکتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سے حبس اور دہشت کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا آتا ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا نفرت کے سوداگروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ سو ہم تین نسلوں کے نمائندے اپنے اپنے حصے کی رائیگانی لیے یہاں موجودتھے۔ مکالمے کی سبیل جمشید رضوانی نے کی تھی جسے گفتگو اور دھرتی سے محبت کی روایت اپنے والد خان رضوانی سے ورثے میں ملی۔ وہ دھرتی کے دکھوں پر آزردہ ہوتا ہے، نفرتوں کی دیواریں توڑنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ناکام ہو کر بسا اوقات انہی دیواروں کا اسیر ہو جاتا ہے۔

\"multan\"تین نسلوں میں سے ایک کی نمائندگی تو سید مجاہد علی شاہ کر رہے تھے۔ ان کا تعلق 1960ء کے عشرے میں اپنی آنکھوں میں خواب سجانے والی نسل سے ہے۔ وہ نسل جس نے اپنے لڑکپن اور جوانی میں ایک روشن خیال معاشرہ دیکھا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں رکھ رکھاﺅ تھا۔ وضع داری تھی اور بہت سی خوبصورتیاں تھیں۔ اس نسل نے کچھ چراغ روشن کیے ۔ اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سید مجاہد علی کا لڑکپن اورجوانی ملتان کے علاقے نواں شہر میں گزری۔ یہیں ایک مندروالی گلی موجود تھی جس کے آس پاس ڈاکٹر مقصود زاہدی رہتے تھے اور وہی مندروالی گلی چند برس قبل ڈاکٹر انور زاہدی کے افسانوں کے مجموعے کا عنوان بن گئی تھی۔ اسی نواں شہر کے آس پاس پروفیسر عرش صدیقی کا گھر تھا اور یہیں کہیں اس زمانے میں ڈاکٹر سلیم اختر رہتے تھے۔ یہ سب مل کر ملتان کے ادبی منظرنامے کو خوبصورت بنا رہے تھے۔ سید مجاہد علی کی یادوں میں وہ تمام مناظر اور خوبصورت چہرے آج بھی موجود ہیں۔ انہوں نے 1971ء کے آس پاس ملتان سے ہجرت کی اور کراچی جا کر روزنامہ مشرق سے منسلک ہو گئے۔ کچھ عرصہ سب ایڈیٹری کرنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ پاکستان میں صحافت ایماندار لوگوں کے رزق کا باوقار ذریعہ نہیں بن سکتی۔ 1975ء میں انہوں نے صحافت ترک کی اور ناروے چلے گئے۔ محنت مزدوری کی اور آج بھی وہیں مقیم ہیں۔ قلم اور ملتان کے ساتھ ان کا ناتا آج تک برقرارہے۔ تحریر میں روانی بھی ہے اور جولانی بھی۔ ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں اور اپنے قلم کے ذریعے سماج سے بدصورتیوں کے خاتمے کی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

اسی محفل میں سید مجاہد علی کے بعد کی نسل کی نمائندگی میرے ساتھ شاکر حسین شاکر کر رہے تھے۔ ہم دونوں کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے 1980ء کے اس معاشرے میں شعور کا سفر شروع کیا جب بے شعوری کا سکہ رائج کیا جا رہا تھا۔ جنرل ضیاء اور اس کے ساتھی معاشرے سے روشن خیالی ختم کرکے ایک ایسی نسل پروان چڑھا رہے تھے جس نے بعدازاں خودکش جیکٹیں پہن کر ہمارے گلی محلوں کو لہولہان کرنا تھا۔ معاشرے کو ذات، برادری، رنگ، نسل اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا۔ سوچ کو مصلوب کرنے کا عمل جاری تھا اور ضمیر نیازی کے بقول صحافت پابند سلاسل تھی۔ پھانسیوں اور کوڑوں کا منظرنامہ تشکیل پا رہا تھا۔ جہاد اورفساد کا سبق پڑھایا جا رہا تھا۔ ہیروز کو غدار اور غداروں کو معمار قراردیا جا رہا تھا۔ رواداری کا ایسا ماحول تیارکیا گیا کہ پوری قوم کندھوں کے ساتھ کندھے ملا کر جنازوں کو کندھا دینے لگی۔ کچھ خواب ہماری نسل نے بھی آنکھوں میں سجائے تھے ۔ انقلاب، تبدیلی، انسانی حقوق اور رواداری کے خواب ۔ سید مجاہد علی کی طرح ہمارے خواب بھی ہماری آنکھوں میں کرچیاں بنا دیئے گئے اوراسی زمانے میں ایک اور نسل پرورش پا رہی تھی جس میں جمشید رضوانی اورذیشان ہاشم جیسے نوجوان شامل تھے۔

ذیشان ہاشم کا تعلق شجاع آباد سے ہے اور وہ روزگار کے سلسلے میں دبئی میں مقیم ہیں۔ تحریر کی بے پناہ صلاحیتیں ان کے پاس موجود ہیں ۔ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں اور تمام تر پابندیوں کے باوجود کہہ بھی جاتے ہیں۔ ہم نے اور ہم سے پہلے کی نسل نے اپنی بہت سی رائیگانیاں اپنے بعد والی نسل کے سپرد کر دیں۔ اس امید پر اور اس آس پر کہ ہمارے خوابوں کی تعبیر ان نوجوانوں کے حصے میں ضرور آ جائے گی۔ ہماری رائیگانیاں اور خواب اس نسل نے بہت محبت کے ساتھ تھام لیے۔ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ۔ افسوس کہ ہمارے بعد والوں کو ہم سے بھی زیادہ برا وقت دیکھنے کو ملا۔ تقدیر لکھنے والوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تقدیر کو ہمارے لیے تعزیر میں تبدیل کردیا گیا۔ اوراب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم سب مندروالی گلی سے کسی بند گلی میں آ گئے ہیں۔ قاتلوں کا ایک ہجوم مقدس نعرے لگاتا ہوا ہمارے تعاقب میں ہے اور مندروں، مسجدوں اور گرجاگھروں کی راکھ ہمارے چہروں کو سیاہ  کیے ہوئے ہے۔ شدید مایوسی کے عالم میں بھی ہم تین نسلوں کی رائیگانی اپنے اپنے دامن میں لیے ڈور کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مکالمہ کررہے ہیں ۔ تدبیر کر رہے ہیں کہ شاید ڈور سلجھ جائے اور ہم بند گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments