کل بھوشن گرفتاری: ہیجان اور الزام تراشی کی سیاست


\"phpThumb_ge\"مارچ کے شروع میں چمن کے علاقے سے گرفتار ہونے والے بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری صرف بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر ہی اثر انداز نہیں ہو رہی ، بلکہ ایران کے ساتھ معاملات پر بھی اس کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس بارے میں تفصیلات بتائی گئیں اور اسے ملکی معاملات میں ہمسایہ ملک کی مداخلت کے حوالے سے ایک بریک تھرو قرار دیا گیا۔ فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ ملک کے جس حصے اور علاقے میں بھی دہشت گردوں کے بارے میں پتہ چلے گا، فوج کارروائی کرے گی۔ اس موقع پر پرویز رشید نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ حالانکہ دن کے آغاز میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے ایک بار پھر پنجاب میں فوجی ایکشن کی موجودگی ، ضرورت یا اہمیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حالات پوری طرح پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔

اس دوران حکومت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے مستعد نظر آتی ہے۔ پولیس اور ایف سی کے دستے اعلیٰ سطح سے اشارے کے منتظر ہیں۔ جبکہ ملک میں شریعت کے نفاذ اور ممتاز قادری کو شہید ملت قرار دینے کا مطالبہ کرنے والے آخری خبریں آنے تک پرامن طریقے سے منتشر ہونے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ یہ ایک گنجلک اور مشکل صورتحال ہے لیکن ان میں اہم ترین معاملہ بھارتی نیوی افسر کل بھوشن یادو کی گرفتاری کا ہے۔

آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اس شخص کے اعترافی بیان پر مشتمل ایک ویڈیو صحافیوں کو دکھائی گئی۔ اس میں کل بھوشن یادو نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے۔ یہ عہدہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے برابر ہے۔ اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز کسی افسر کی ہمسایہ ملک میں گرفتاری سنسنی خیز واقعہ ہے اور اس کے پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کل بھوشن یادو نے بتایا کہ وہ 2003 سے انٹیلی جنس کے شعبہ سے منسلک ہے اور گرفتاری کے وقت بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے لئے کام کر رہا تھا۔ وہ ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں مقیم تھا اور اس کا مشن بلوچستان اور کراچی میں انتشار اور بدامنی پیدا کرنا تھا۔ جنرل عاصم باجوہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ کل بھوشن کے ساتھ تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ شخص گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے ”را“ کے تیس چالیس ایجنٹ بلوچستان پہنچانا چاہتا تھا تا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے دہشت گردی کی جائے۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس گرفتاری سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت کی ریاست پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ یہ اقدام پاکستانی قوانین اور مسلمہ عالمی قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

بھارت کی طرف سے یادو کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعتراف کیا جا چکا ہے کہ یہ شخص بھارتی نیوی میں ملازم تھا لیکن بھارت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس یادو کا کہنا ہے کہ وہ حاضر سروس ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ 2022 میں متوقع تھی۔ ویڈیو میں اس نے بتایا ہے کہ اس نے جس غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور خود اپنے لئے اور اپنے اہل خاندان کے لئے جو مشکل پیدا کی ہے، اس کی روشنی میں اس نے اب حکومت پاکستان سے تعاون کرنے اور سارے حقائق بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک بھارت کی اس درخواست کا جواب نہیں دیا کہ اس کے سفارت کاروں کو کل بھوشن یادو سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے۔ جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ ابھی تفتیش ہو رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان میں ”را“ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ایک افسر کی گرفتاری ایک سنگین اور مشکل معاملہ ہے۔ اس گرفتاری سے پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی کامیابی نصیب ہوئی ہے اور وہ عالمی طاقتوں کو ملک میں بھارت کی تخریبی کارروائیوں کے بارے میں ٹھوس شواہد فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑے گی اور وہ اس گرفتاری کے اثرات سے نکلنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کے لئے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لینے پر مجبور ہو گا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ملک اس ایک گرفتاری کے بعد ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ بند کر دیں گے۔ لیکن اب اس مقصد کے لئے نئے ہتھکنڈے ضرور اختیار کئے جائیں گے۔ بھارت میں فی الوقت اس سوال پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے کل بھوشن یادو کو اپنا شہری مان لینے کے علاوہ مزید کوئی تبصرہ کرنے یا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے بھی اس ڈرامائی گرفتاری پر بہت زیادہ سخت الفاظ کا استعمال سامنے نہیں آیا ہے۔ وزیراعظم نے کل قوم سے خطاب کیا لیکن اس اہم معاملہ پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ پاکستانی مبصرین اور حکومت کے سیاسی مخالفین اس طرز عمل کو سنگین کوتاہی قرار دیتے ہوئے یہ اندازہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ مفاہمانہ تعلقات کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ دشمن ملک کے اس تخریبی اقدام کا راز کھلنے کے بعد بھی تنقید کرنے اور بھارت اور عالمی لیڈروں کے ساتھ اس معاملہ کو اٹھانے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں۔

پاکستان میں سیاست کی طرح سفارت کاری میں بھی نعرے بازی کو ضروری اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے ملک کے وزیراعظم کی نیت پر شبہات اور حکومت کے ارادوں کو مشکوک سمجھا جا رہا ہے۔ حالانکہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کی محنت سے ہونے والی اس گرفتاری پر فوج اور سیاسی قیادت نے تفصیل سے غور کیا ہو گا اور ضرور یہ طے کیا ہو گا کہ اس حوالے سے کون سے حکمت عملی ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ یہ سمجھ لینا غلط ہو گا کہ اگر وزیراعظم قوم کے نام خطاب میں اس واقعہ کا ذکر نہیں کرتے اور سارے وزرا شدومد سے کل بھوشن کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر اگر تند و تیز بیان جاری نہیں کرتے تو حکومت اس معاملہ میں کسی سودے بازی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ بدنصیبی سے یہ عدم اعتمادی ملک کے سیاسی مزاج کا اہم حصہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اہم قومی مفادات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس وقت سفارتکاری کے حوالے سے پاکستان ایک بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس پیش رفت کو عقلمندی سے استعمال کرتے ہوئے ہی بھارت سے مراعات حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس حساس اور اہم معاملہ پر ہیجان اور سنسنی خیزی پیدا کرنے اور سیاسی مقاصد کے لئے الزام تراشی کا سلسلہ شروع کرنا کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ اس معاملہ کی پیچیدگی اور حساسیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے ملک کا دورہ کرنے والے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ اس معاملہ پر بات کی تھی لیکن اس کا یک طرفہ اعلان کرنے سے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے لئے مشکل صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ صدر روحانی نے پریس کانفرنس میں اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ دونوں ملک جب بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں تو افواہوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس پس منظر میں آج جنرل عاصم باجوہ کو پریس کانفرنس میں یہ کہنا پڑا کہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان میں ”را“ کی سرگرمیوں اور برادر ملکوں کی سرزمین کو استعمال کرنے کے حوالے سے بات کی تھی لیکن اس میں کل بھوشن یادو کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔

اس تجربہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ سفارتی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مناسب فورمز پر مناسب طریقے سے بات کرتے ہوئے ہی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کسی جاسوس کے پکڑے جانے پر الزام تراشی اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع کرنے سے جنگی حالات تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن ملکوں کے درمیان بداعتمادی کم کرنے اور تخریب کاری کے ہتھکنڈوں کو ختم کرنے کے لئے نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے اس معاملہ پر اہل پاکستان ، ماہرین اور مبصرین کو بے بنیاد قیاس آرائیوں سے گریز کرتے ہوئے حکومت اور فوج کی صلاحیت اور نیت پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ رائے بھی سامنے لائی گئی ہے کہ اتوار کو لاہور میں ہونے والی دہشت گردی دراصل کل بھوشن یادو کی گرفتاری پر بھارت کے ردعمل کا نتیجہ ہے تا کہ پاکستان کو اس سوال پر دباﺅ میں لایا جا سکے۔ اس قسم کے تبصرے صرف حکومت پر بداعتمادی اور واقعات اور حالات کے بارے میں ناقص قیاس آرائیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کا رویہ اختیار کرنے سے ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ذہن سازی کے کام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ عام آدمی یہ سمجھنے لگے گا کہ ہمارے سماج میں کوئی کمی یا غلطی نہیں ہے اور ملک میں ہونے والے دھماکے امریکہ کی سازشوں اور بھارت کی تخریب کاری کا نتیجہ ہیں۔ دنیا بھر میں ہر زمانے میں دوست دشمن ممالک یکساں طور سے ایک دوسرے کے ہاں جاسوسی کا نظام استوار کرتے ہیں۔ اس لئے بھارت کی طرف سے پاکستان میں مداخلت کا طریقہ کار انوکھا یا عجیب نہیں ہے۔ پاکستان بھی اپنے طور پر ایسے ہتھکنڈے اختیار کرتا رہا ہے۔ البتہ ایک اعلیٰ افسر کی گرفتاری ضرور عجیب اور ڈرامائی واقعہ ہے۔ پاکستان حوصلہ مندی اور سفارتی مہارت سے ہی اس انکشاف کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ صرف نعرے لگانے اور آپس میں دست و گریباں ہونے سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکے گا۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ بھارت کو عالمی سفارت کاری میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اعتبار اور اہمیت حاصل ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت دانشمندی اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عسکری ماہرین یہ واضح کرتے رہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لئے جنگ یا تصادم کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لئے کسی بھی معاملہ کو لے کر طبل جنگ بجانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے کسی طرح کسی بھی قومی مفاد کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ درپردہ مواصلت سے جو مراعات حاصل کی جا سکتی ہیں، ان کا امکان بھی کم ہو سکتا ہے۔

ادھر پنجاب میں فوج کی کارروائیوں کے حوالے سے بدستور غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ فوج کو بھی اپنے اقدامات کو ملک کی سیاسی قیادت کی مرضی و منشا کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج اور سیاسی قیادت کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ البتہ موجودہ ہنگامی اور مشکل حالات پر احسن طریقے سے قابو پانے کے بعد فوج کو سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ان حدود کا تعین کرنا ہو گا جو ملک کے انتظامی ، دفاعی اور سیاسی معاملات میں اس کے کردار کا تعین کر سکیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کو بھی سکیورٹی اور دفاع کے شعبوں میں اپنی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عسکری قیادت کو اندیشے لاحق نہ ہوں اور سیاسی و فوجی قائدین آسانی سے ایک دوسرے کی بات سمجھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments