مولانا فضل الرحمن کا خواب —- اور عمران خان


خواب کیا چیز ہے؟ اس موضوع پر سائنس ہنوز کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچی ہے- تگ ودو البتہ جاری ہے جو علامتِ بیداری ہے-

بحیثیت ایک سیکولر مسلمان، میرے لئے خواب اور اس کی تعبیر ایک “نان ایشو” ہے- اس لئے کہ “احلام” اور” رؤیا” میں کون فرق کرے؟ کرے تو کیوں کرے کہ خواب، خود دیکھنے والے کیلئے کوئی شرعی حجت نہیں تو کسی دوسرے کے لئے کیوںکر؟ اور اگر کسی نے کوئی خواب دیکھ بھی لیا ہو تو ابن یعقوب یا ابن سیرین جیسے معبرین کہاں سے آئیں؟ اور اگر کوئی ویسا مل بھی جائے تو اس کی بتائی تعبیر کی شرعی حیثیت کیا ہو؟

ہر دور میں ، خواب دیکھے جاتے رہے ہیں- میں جاگتی آنکھوں والے، دن کو دیکھے جانے والے یا بلؔی کے خوابوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ نیند میں دیکھے جانے والے خواب کی بابت عرض کر رہا ہوں جو کافر و مسلمان، خواندہ و ناخواندہ، سب دیکھا کرتے ہیں- اسلام، “رؤیائے صادقہ” کو وحی کا ایک حصہ سمجھتا ہے جس کی تشریح کرنا، کارِ طویل و خارج از موضوع ہے-

سیرت رسول پاک میں آتا ہے کہ سرکار، کبھی کبھار خواب دیکھا کرتے- (پس خواب دیکھنا گویا سنت ہوا)- آپ بھرے مجمع میں خواب بیان کیا کرتے- (پس یہ بھی گویا سنت ہوا)- آپ اپنے خواب کی تعبیر بھی بیان کرتے- (گویا ایک عالم کے لئے یہ بھی سنت ہوا)-

 تنبیہ: یہاں “سنت” کا لفظ خیال ِ خاطر احباب کے لئے ہے-

شاید یہی وجہ ہے جب میں علمائے دیوبند میں کسی کی سوانح عمری پڑھتا ہوں تو کہیں نہ کہیں، وہ بھی اپنا کوئی خواب و تعبیر بیان کیا کرتے ہیں- مولانا فضل الرحمان، اس لسٹ میں رہ گئے تھے، پس پچھلے دنوں ، انہوں نے بھی ایک محفل میں اپنا خواب بیان کردیا-

ایک خواب مولانا نے دیکھا، اس کی تعبیر سمجھی، اور پھر اسی ضمن میں علماء سے ایک استفسار بھی کیا ہے-

اسی طرح، پانچ برس قبل، ایک خواب اس خاکسار نے دیکھا تھا، اپنی تئیں ایک تعبیر بھی سمجھی اور اسی پر خود مولانا سے ایک سوال بھی اٹھایا ہے- فرق صرف یہ ہے کہ مولانا نے یہ پرانا خواب ابھی بیان کیا ہے جبکہ خاکسار نے یہ خواب دوسرے ہی دن اپنی فیس بک ٹائم لائن پہ لگا دیا تھا جو تاریخ میں محفوظ پڑاہے-

پہلے مولانا کا خواب سنیں-ایک تقریب میں انہوں نے بتایا کہ :

“پانچ چھ سال پہلے غالباً میں بنوں میں تھا اور رات کو سویا ہوا تھا ۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ حضرت آدم علیہ سلام سے فون پر بات کر رہا ہوں، وہ مجھ سے فرماتے ہیں کہ تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ امن چاہتا ہوں۔ اس کے بعد لائن کٹی نہیں لیکن خاموشی کا ایک وقفہ آ گیا، میں سوچتا ہوں کہ میں کچھ کہوں تو بے ادبی ہے، مسلسل خاموش رہوں تو لائن کٹ جائے گی، تو میں نے سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، انتظار نہیں کر سکتے؟”-

یہاں تک خواب بیان کرنے کے بعد، مولانا نے اپنے خواب کی تعبیر دیتے ہوئے، اپنی راہ عمل بتائی اور کہا:

” تو انتظار تو کر رہے ہیں ہم، ابا نے کہہ دیا ہے کہ انتظار کرو، تو اس انتظار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے، اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہے، ہمارے اندر کی روح امن مانگتی ہے۔ اسی لئے جب ریاست نے امن کے قیام کے لئے فوج کو میدان میں اتارا، اداروں کو میدان میں اتارا تو ہم نے حمایت کی کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں۔ حکمت عملی پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ریاست مقدم ہے، اس نے فیصلہ کیا ہم نے پیروی کی”-

اس کے بعد، مولانا نے علماء کے سامنے ایک سوال رکھ دیا ہے کہ:

” لہٰذا علماءکرام اس بات پر بھی غور کریں کہ ریاست کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے؟”-

اس سوال کا جواب علمائے پاکستان کے ہر طبقہ کے ذمہ ہے-

اب خاکسار کے خواب کی تفصیل سنیئے جو اپریل 2013ء میں دیکھا تھا- دراصل، جب مئی 2013 الکشن کا اعلان ہو گیا تو دو ماہ قبل سے ہی میں نے ایک معمول بنا لیا تھا کہ ہر ہفتے حرم پاک کے طواف کو جایا کرتا جس میں یہ دعا مانگا کرتا کہ خدا پاکستان کو بہترین قیادت نصیب فرمائے- اپریل کے ایک دن بعد ظہر، سخت گرمی میں طواف کیا اورجدہ واپس آکر، گھر میں قیلولہ کیا- خواب دیکھا کہ ایک بہت اونچی کرسی ہے جس پر عمران خان صاحب، ایک سفیدلباس زیب تن کئے بیٹھے ہیں-

آپ ہی فرمایئے کہ عمران خان کے ایک کٹر مخالف کو طواف کے بعد، ایسا خواب نظر آئے تو کیا وہ متذبذب نہیں ہو گا؟  مگر مسلم سیکولرز، ہمیشہ ” مشورہ” کو “استخارہ” پر، اور “دلیل” کو “مکاشفات” پر ترجیح دیا کرتے ہیں- لہذا، پوری دیانتداری سے میں نے اس خواب کی تفصیل فیس بک پہ لکھی مگر اپنے لئے یہ راہ عمل تجویز کی کہ میں مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں عمران خان کو لیڈر تو کجا، ایک کارکن کی حیثیت بھی دینے کو تیار نہیں-

اگرچہ تحریک انصاف کے دوستوں نے میری مذکورہ پوسٹ کو روحانی تجربہ کہہ کر جوش وخروش سےشیئر کیا مگر خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے خواب سے متاثر نہیں ہوا ورنہ آج، اس خالی الذہن آدمی کو لیڈر مانا ہوتا جو اپنی وزارت عظمی کیلئے نجومیوں کی پیشگوئی کو، اور سرحد اسمبلی توڑنے بارے، اپنی پیرنی کے زائچے کو قابل اعتماد سمجھتا ہے-

تاہم، ان دنوں خاکسار نے بھی ایک سوال، علماء کے سامنے رکھا تھا(بلکہ خود مولانا کے سامنے رکھا تھا)- میرا اعتراض تھا کہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ نہ کہا جائے-(بحیثیت ایک سیکولر کے، مجھے کسی لیڈر کی ذاتی زندگی سے غرض نہیں کہ وہ زانی ہے یا متقی ہے، تاہم اگر وہ لیڈر، کسی دشمن ملک کا ایجنٹ ہے تو یہ ایک قومی مسئلہ ہے)-

میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے اور اس کا جواب بھی مولانا کے ذمہ ہے-

میں اس سوال کے جواب پہ کیوں مصر ہوں؟ اس لئے کہ مولانا کی جماعت، اسلامی سیکولرزم کی علامت ہے جس نے ایک صدی تک، انسانی روداری، ملکی امن اور حقیقی جمہوریت کیلئے کام کیا ہے- مجھے مولانا کے خواب سے غرض نہیں- (اگر ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے تو کوئی کیوں جھٹلائے گا؟) لیکن مجھے مولانا کی اس اسٹیٹمنٹ نے حوصلہ دیا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ ہماری اندر کی روح امن مانگتی ہے- مولانا کی 35 سالہ سیاسی زندگی کا مشاہدہ ان کی اس طلب کی دلیل ہے- مگر مولانا خوب جانتے ہیں کہ معاشرے میں امن، سوائے رواداری، جمہوریت اور معاشی فلاح کے نہیں آ سکتا- اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں اور اس میں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پہ بلیک میل نہیں کیا جاتا- مولانا کے بزرگوں نے جس فراخ دلی سے گاندھی جی کو سیاسی سٹیج پہ ساتھ بٹھایا، اس سے کہیں زیادہ وسیع القلبی سے مولانا نے صد سالہ جشن میں ہندو، سکھ عیسائ رہمناؤں کا ساتھ بٹھایا- مولانا نے ہر طعنہ سہا لیکن بے نظیر جیسی عوامی لیڈر کو سہارا دیا- اب میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر عمران خان کو ہی مذہبی سانگ پہ کیوں رکھ دیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).