ایک نعرے کی مار


\"ahsan

راستہ نیا تھا اس لئے پوچھتے پاچھتے اورنگی پہنچنے میں مجھے کچھ تاخیر ہوئی لیکن یہ دیکھ کر اطمینان بھی کہ شفیق نے میزوں پر چادریں بچھا کر بیشتر ڈبوں سے کتابیں باہر نکال لیں تھیں۔ سلام دعا کے بعد ہم دونوں تیزی سے سیکشنز بنانے لگے۔ کوشش یہی تھی کہ موٹا موٹا کام خطبہ شروع ہونے سے پہلے ہوجائے۔ جمعے کے دن عموما بچے بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ باہر ہمارا اسٹال دیکھ کر سمجھے کہ کچھ مفت بانٹا جارہا ہے۔ پہلے پہل تو دو ایک، پھر دیکھتے ہی دیکھتے درجن بھر ہوگئے۔ پچکارنے سے نا مانے تو ہاتھ قابو کرانے کے لئے ڈانٹنا پڑا۔ کھی کھی کھو کھو کرتے مسجد میں دوڑ گئے۔ ایک تو اِن شریروں کی پھیلائی ہوئی بے چینی کہ جس سے کام میں خلل پڑا۔ لیکن اس دوران لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے خطیب صاحب کے منہ سے نکل کر کان میں پڑنے والے بعض جملے چونکا رہے تھے۔ ایک آیت پر تو شفیق میری جانب باقاعدہ مڑا۔ \”یار اعظم بھائی دیکھ لو۔۔ مروا مت دینا۔۔ ایک یہی مسجد ملی تھی اسٹال کے لئے؟\”، حالانکہ اندر ہی اندر اس انتخاب پر میں بھی پچھتایا لیکن اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ معمول کی تنظیمی سرگرمی ہے۔ جو ہدایات دی گئیں۔ مان لیں۔ یار بڑوں کا فیصلہ ہے یقیناََ کوئی مصلحت ہوگی۔ \”گھبراؤ نہیں میں ساتھ ہوں۔ شاہد بھائی بھی آرہے ہیں\”، میں نے شفیق کو تسلی دی۔

تقریر تھمتے ہی ہم نے کتابوں پر چادریں ڈالیں اور مسجد میں داخل ہوگئے۔ وضو کر کے خطبہ سننے پچھلی صفوں ہی میں بیٹھے تاکہ سلام پھرنے کے بعد اور دعا ختم ہونے سے پہلے باہر نکلتے ہوئے کاندھے نا پھلانگنا پڑیں۔ سلام پھیرا، اسٹال پر پہنچتے اور چادریں ہٹانے تک خطیب صاحب دعا کا مختصر سا عربی گئیر اردو والے بڑے گئیر میں ڈال چکے تھے۔ صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ، نیک صالح اولاد، مناسب رشتوں، اساتذہ، والدین کی بخشش اور مسجد کی بالائی منزل کی تعمیر کے لئے غیب سے مدد کی دعاوں پر اوروں کی طرح میں بھی زیر لب آمین، آمین کہتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ایک شخصیت کے تزکرے کے ساتھ کچھ افراد اور گروہوں کے لئے وہ کچھ مانگا گیا جو ہم عموماََ یہود و نصاری کے لئے ہی مانگتے یا منگواتے آئے ہیں۔ شفیق پھر میری طرف مڑا۔ اس بار میں بھی اُسے تکتا رہ گیا۔ خیر یہ رسمی کارروائی بھی ختم ہوئی اور دروازے سے ہجوم باہر نکلا۔ اسٹال تک پہچنے والے کئی ایک کتابیں دیکھنے ٹٹولنے لگے۔ کچھ نے قیمتیں پوچھیں۔ ایک نے یوں بڑی حیرت کا اظہار کیا۔۔ \”اچھا ! یہ فری نہیں ہیں کیا؟ اب دینی کتابوں سے بھی کمائی ہوگی۔ لاحول ولا\”۔ شکوے، وضاحتیں اور سوال جواب جاری تھے کہ مخصوص رنگ کے عمامے باندھے دو نوجوان اونچی آواز میں لوگوں کے ہٹاتے ہماری ٹیبلز تک پہنچے۔ کس نے اجازت دی ہے تمیں یہاں یہ سب کرنے کی؟ ان میں سے ایک دھمکانے والے انداز میں بولا۔ کیا کرنے کی؟ دوست کتابیں ہیں یہ دینی۔ آپ دیکھ لیں۔۔ میں نرمی سے سمجھانے ہوئے ایک کتاب پیش کی۔ \”او بھائی ہمیں مت دکھا کیا ہے ان میں،۔ سب پتہ ہے۔ یہاں یہ سب نہیں چلے گا۔ بیوقوف مت بناو لوگوں کو سمجھے نا۔۔ چلو اٹھاؤ یہ یہاں سے\”۔ دوسرے نوجوان نے اپنے سامنے رکھی ایک کتاب اٹھا کر میری جانب اچھا لی۔ \”بھیاّ آرام سے، ہاتھ سنبھال کر، منہ سے بات کرو۔۔\” مجھے بھی غصہ آگیا۔ اب مجمع کی توجہ بھی ہماری تکرار کی جانب ہونے لگی۔ \”ہاں ورنہ۔۔ ورنہ کیا کرے گا؟ بے غیرت، جہاں مرضی آئے ٹھیا لگا کر اپنا منجن پیچنے لگ پڑتے ہو تم لوگ!۔۔ چلو دفع ہو یہاں سے\”۔

اب ان دونوں کے ساتھ ساتھ پیچھے سے وہی مخصوص عمامے والے ایک دو اور آگےآئے اور کتابیں اٹھا اٹھا کر قریب پڑے ڈبوں میں اچھالنے لگے گستاخِ رسول؟ یوں لگا جیسے کسی نے ہائی وولٹیج کرنٹ کا جھٹکا دیا ہو! اناّ للہ  و انا علیہ راجعون۔ \”تمہارا دماغ صحیح ہے، پاگل ہوگئے ہو کیا؟\” میرے ہونٹ کپکپانے لگے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ فوری طور پر اور کیا کہوں۔ اتنے میں مخصوص رنگ کی ٹوپی والا ایک چھوٹے قد کا مگر مضبوط دکھنے والا شخص تیزی سے آگے بڑھا اور یہ کہتے ہوئے کہ۔۔۔ ہمارے حضور کی شان میں گستاخی! میرے چہرے پر کھینچ کر تھپڑ رسید کیا۔ بہت زوردار ضرب تھی۔ درد کی ٹیسیں پوری کھوپڑی میں محسوس ہونے لگیں۔ اسٹال کے پچھلے حصے سے اندر داخل ہوکر دو ایک نے شفیق کو بھی پکڑ لیا۔ وہ بے چارہ عمر میں ویسے ہی چھوٹا تھا۔ خوف کی وجہ سے کانپنے لگا۔ ہم دونوں اسٹال کے اندر ہی زمین پر بٹھا دئیے گئے۔ ہاتھوں سے چہرے چھپا لئے لیکن کمر۔ گدی اور سر پر مسلسل ضربیں لگ رہی تھیں۔حالانکہ جسمانی درد عارضی طور پر باقی سب کچھ بھلا دیتا ہے لیکن گستاخ رسول کا اس ٹوپی والے کے منہ سے نکلا لفظ، درد کے احساس کو بھی دھوکا دے رہا تھا۔

اچانک شاہد بھائی کی آواز گونجی، \”اعظم بیٹا۔۔ شفیق۔۔ کیا ہورہا ہے یہ۔۔ ہٹو یہاں سے کیوں مار رہے ہو ان کو؟\”، دراز قد اور نسبتاً ڈیل ڈول والے شاہد بھائی نے مجھے کاندھے سے پکڑ کر اسٹال سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن اسی دوران چھوٹے قد والے کی ایک اور ضرب سیدھی میری ناک پر لگی۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ اورنگی کے اس علاقے میں لوہاروں کے کئی چھوٹے بڑے کارخانے ہیں۔ یہ ہاتھ جتنی طاقت سے چہرے پر لگا ایک لمحے کے لئے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے سریا کاٹنے والا گھن پوری طاقت سے دے مارا ہو۔۔ ناک سے خون کا نلکا کھل گیا۔ اس مرتبہ شاہد بھائی نے بھی مجھے پکڑے پکڑے ہاتھ پیر چلائے اور چند لوگ معمول کے مطابق بیچ بچاؤ کرانے آگے بڑھے۔ ایک بزرگ نے شاہد بھائی کی تھوڑی میں ہاتھ ڈالا۔۔ \”بیٹا آپ سمجھ دار ہو۔ ہٹا لو یہ کتابیں یہاں سے۔۔\” یہ آخری منظر تھا اس مقام پر جو مجھے یاد رہا۔۔

بے ہوشی کی بریک کے بعد واپس لوٹا تو سوجے ہوئے چہرے پر ادھ کھلی آنکھوں نے اپنے کمرے کا پنکھا گھومتا پایا۔ قصہ مختصر۔۔ ٹھیک ایک روز بعد مخصوص رنگ کی ٹوپی اور ہتھوڑے کی طاقت جیسے ہاتھوں والا شخص مخصوص رنگ کے عمامے والے بعض نئے اور معتبر چہروں کے ساتھ ہمارے ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا۔۔ ابو اور چچا جان بھی آگئے۔ شاہد بھائی نے بات شروع کی۔۔ \”بیٹا یہ تم سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ کچھ غلط فہمی ہوگئی تھی۔ یہ سمجھے آپ کسی اور تنظیم سے ہو۔ بعد میں پتہ چلا اِنہیں۔۔\”، اب ٹوپی والا مخاطب ہوا، \”سُوری بھیا۔۔ معاف کرنا۔ آپ کو جانتے نہیں تھے اس لئے یہ ہوگیا۔ تکلیف کی معذرت۔۔\”، اس مرتبہ لہجے نے ثابت کر دیا کہ وہ لوہار نہیں تو کنڈکٹر، کارپنٹر یا مکینک ہوگا۔ اگلی آواز معتبر چہروں میں سے ایک کی آئی۔۔ بیٹا یہاں کم پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ کتاب تو دور اپنا نام نہیں پڑھ سکتے۔ آپ مسجد کمیٹی سے مل لیتے تو ایک بندہ آپ کے ساتھ کردیتے۔ دیکھو کتنی بری بات ہوگئی اللہ کے گھر کے باہر\”، ان کے بعد باقیوں نے بعد اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ چند منٹ ہمدردی دلاسے معافیاں تلافیاں چلیں۔ چائے آگئی، بسکٹ بھیگے، موضوعات تبدیل ہوئے اور شاہد بھائی کی طرح ابوّ اور چچا جان بھی سننے سنانے میں لگ گئے۔ \”آپ نے مجھے گستاخ رسول کیوں کہا؟\” میں نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں اچانک سوال داغا۔ کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی۔۔ چند لمحے ٹوپی والے اور معتبر مہمانوں کی آنکھیں چار رہیں۔ ٹوپی والا پھر مخاطب ہوا۔ \”بھائی جان سُوری بول رہا ہوں۔ ہوگئی غلطی۔ میرے کہنے سے آپ ہو تو نہیں نا گئے گستاخ\”، اِدھر اُدھر دیکھتے اسکے چہرے پر اس بار عجیب کراہیت آمیز مسکراہٹ تھی۔ \”جانے دو بیٹا۔ ہوجاتا ہے ایسا۔۔ گھر پر چل کر آئے ہیں۔۔ معاف کرنے والا بڑا ہوتا ہے\”۔ ابوّ کا یہ جملہ نشست کا آخری جملہ تھا۔ اس کے بعد رسمی الوداعی سلام دعا کے ساتھ ہی دروازے کھل بند ہوئے اور ڈرائینگ روم کے پنکھے لائیٹیں آف کر دی گئیں۔

یہ واقعہ چند سال پرانا ہے۔ لیکن آج بھی ذہن میں آجائے تو منہ کڑوا ہوجاتا ہے۔ لوہاری تھپڑوں کی تکلیف تو یاد نہیں البتہ نبیؐ کے نام پر لگائی گئی تہمت دل چھلنی کر دیتی ہے۔ الفاظ تھے کہ تلوار، دل کے آر پار ہوگئے اور جب جب یاد آتے ہیں بڑے کرب کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے جیسے پر جوش اور کچھ کر دکھانے کی جستجو رکھنے والے نوجوان اب ہوش کے ناخن لیں۔ مجھے مثال بنائیں۔ جب تک اس معاشرے کا حصہ ہیں ہر اُس کام سے گریز کریں جس کا واسطہ کسی بھی طرح ہمارے خود ساختہ دینی ٹھیکے داروں سے پڑنے کا امکان ہو۔ جو کہا جارہا ہے۔ سنتے رہیں، عمل کرتے رہیں، اچھا لگے یا برا۔۔ زندگی جینی ہے تو کسی قسم کی ہیرو گیری دکھانے کی ضرورت نہیں۔ سڑک پر کہیں روکیں تو بالکل انکے جیسے خیالات رکھنے والے بن جائیں۔ ہاں میں ہاں ملائیں۔ کوئی جلوس یا ریلی راستے میں پڑ جائے تو آواز سے آواز ملا کر نعرے بلند کرتے چلے جائیں۔ چوں چرا، اگر مگر، لیکن ویکن کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ یاد رکھیں آپ صرف ایک نعرے کی مار ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لئے آپ میں سے کوئی بھی ایک، کسی بھی وقت، کسی کے لئے جنت کا فری انٹری پاس بن سکتا ہے۔ مجھ گستاخ کے مرنے سے پہلے تو شاہد بھائی آگئے تھے لیکن ہر گستاخ میری طرح خوش قسمتی نہیں ہوسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments