فلم ’پرچی‘ کا پرچہ


سب سے پہلے میں ایک دو باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ اوّل تو یہ کہ نئی فلم ‘پرچی’ کے پیچھے جو تخلیقی ٹیم ہے، یعنی ہدایت کار اظفر جعفری اور پروڈیوسر عمران رضا کاظمی، اداکارہ حریم فاروق وغیرہ، اُن کی پہلی دو فلمیں مجھے خاصی پسند آئی تھیں، اور اُن کی وجہ سے میری توقعات اس فلم کے حوالے سے اونچی تھیں۔

اُن کی پہلی فلم ‘سیاہ’ حالانکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر بجٹ پر بنائی گئی تھی، اُس میں ایک نیا پن تھا اور نظر آتا تھا کہ پیسوں کی شدید قلّت کے باوجود فلمسازوں کو فلم بنانے کا ڈھنگ آتا ہے۔

اُن کی دوسری فلم ‘جانان’ اپنی تھوڑی بہت تکنیکی کمزوریوں کے باوجود دیکھنے کے عین قابل تھی اور اس طرح کی فلم کے بارے میں توقعات سے کہیں بہتر فلم تھی۔ ‘پرچی’ کے ٹریلر میں فلم کی ‘لُک’ دیکھنے کے بعد میری توقعات اور اونچی ہو گئی تھیں۔ دیکھنے میں یہ ایک مزیدار فلم لگتی تھی۔

دوسری بات جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پچھلے سال کی فلمیں دیکھنے کے بعد یہ بات خاص طور پر صاف ہو چُکی ہے کہ جہاں پاکستانی فلمیں تکنیکی لحاظ سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں، اُن کے سکرپٹ بدستور کمزور ہیں اور فلم کی لکھائی پر سب سے کم توجہ دی جا رہی ہے۔

‘پرچی’ اِن دونوں مسئلوں، یعنی میری توقعات اور پاکسانی فلموں کی دیرینہ کمزوریوں کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک تو میری اُمید تھی کہ اپنی پہلی دو فلموں کے بعد ‘پرچی’ کے پیچھے تخلیقی ٹیم اور بھی بہتر اور نۓ طرز کی فلم بنائے گی۔ لیکن اس کے برعکس یہ فلم انتہائی کمزور سکرپٹ کا نتیجہ ہے جس سے لگتا ہے کہ فلمساز دو قدم پیچھے چلے گئے ہیں۔

سب سے عجیب بات یہ ہے کہ فلمسازوں نے دو بالکل مختلف یانرا (انواع) کی فلموں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ وہ کچھ کچھ کرائم فلم بنانے کا ارادہ لے کر نکلے تھے لیکن رستے میں اُن کے اعصاب پر انڈیا کے ہدایتکار ڈیوڈ دھون سوار ہو گئے۔ ڈیوڈ دھون کی فلموں کی خاصیت یہ ہے کہ اُن کی فلموں کا سر ہوتا ہے نہ پیر اور ہر طرح کی بیوقوفیاں اُن میں ٹھُسی ہوئی ہوتی ہیں محض سستی ہنسی کے لیے۔

‘پرچی’ کی کہانی کوشش میں تو ‘نامعلوم افراد’ کے طرز کی ہے۔ یعنی عام سے لوگ جن کا ایک خطرناک کرمنل سے پالا پڑ جاتا ہے اور جو اُس کے مقروض ہونے کی وجہ سے پیسے ہتھیانے کے لیے اپنا ایک منصوبہ بناتے ہیں۔ یہاں بیش (علی رحمان) جب زوڈیاک (شفقت چیمہ) کے ساتھ مشکل میں پڑتا ہے تو بیش کا بھائی بلال (عثمان مختار) اور اُن کے دوست سقی (احمد علی اکبر) اور بھولا (شفقت خان) اُس کی خاطر اِرم / میڈم صاحب (حریم فاروق) سے مدد کی التجا کرتے ہیں۔ اِرم ایک علاقے کی ڈون ہے اور اپنی چودھراہٹ بسکٹ (فیضان شیخ) کے ذریعے چلاتی ہے جو اس علاقے میں چائے کے کھوکے کا مالک ہے۔ اور پھر یہ سب مل کر پیسے جمع کرنے کے مختلف منصوبے بناتے ہیں۔

لیکن جہاں ‘نامعلوم افراد’ میں چالاکی بھی تھی اور سماجی تنقید کا پہلو بھی، ‘پرچی’ میں صرف بیوقوفیاں ہیں۔ اور جہاں ‘نامعلوم افراد’ کے کردار ٹھوس اور اصلی لگتے تھے، جن کی سوچ آپ سمجھ سکتے تھے، ‘پرچی’ کے کردار ہلکے اور حقیقت سے دور لگتے ہیں۔

خطرناک کرمنل زوڈیاک کبھی تو بہت خونخار اور ظالم لگتا ہے اور کبھی بالکل ہی مسخرہ ۔ اِرم جو اپنے علاقے کی ‘سٹرانگ مین’ ہے، اس کا کردار دلکش تو ہے لیکن کسی جانی پہچانی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور نہ ہی کبھی یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ اُس سے ڈرتے کیوں ہیں؟ بظاہر تو وہ صرف لوگوں کی حفاظت ہی کرتی ہے۔

شروع شروع میں اُس کو بہت سخت جان دکھایا گیا ہے لیکن یکدم وہ بغیر کسی وجہ کے پیار میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ دونوں بیش اور بلال اِرم کو دیکھتے ہی اُس کے عشق میں لٹّو ہو جاتے ہیں لیکن اُتنے ہی اچانک سے بلال اپنے بھائی کی خاطر پیچھے ہٹ جاتا ہے، جبکہ اُس کے اپنے بھائی سے اختلافات بھی ہیں۔ اور پھر ایک کردار ہےصائمہ خنجروالی (فائزہ سلیم) کا جو سقی کی گرل فرینڈ نتاشہ (ماہِ نور حیدر) کی ماں ہے اور جو مغربی ‘زومبی’ فلموں سے متاثر ہے لیکن جس سے آگے اس کردار کو سمجھنا اور سمجھانا میرے بس سے باہر ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ سکرپٹ لکھتے لکھتے فلمساز بھُول گئے کہ وہ بنانا کیا چاہتے تھے۔ افسوس کہ اُن کو کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ آپ کا سکرپٹ پٹری سے اُترا ہوا ہے۔

‘پرچی’ سے کچھ دن پہلے ‘چھُپن چھُپائی’ ریلیز ہوئی تھی۔ شروع شروع میں کئی لوگوں نے اس کے سکرپٹ اور عکس بندی کی تعریف کی، لیکن ایک دو روز میں ہی یہ بات سامنے آگئی کہ نہ صرف وہ فلم ایک تمل فلم کی کاپی ہے، بلکہ اتنی بری نقل ہے کہ اُس کا ہر ایک سین، ہر ایک ڈائیلاگ، ہر شاٹ کی فریمنگ تک اُس تمل فلم سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جو تعریف یا تنقید ‘چھُپن چھُپائی’ کے حصّے میں آ رہی تھی اُس کا اصل حقدار تو وہ تمل فلم تھی۔ پاکستانی فلم نے کیا تیر مارا؟

ایسا ہی کچھ حال ‘پرچی’ کے اداکاروں کے بارے میں بات کرتے لگتا ہے۔ حالانکہ حریم فاروق، شفقت چیمہ، علی رحمان اور عثمان مختار کوشش ضرور کرتے ہیں، اُن کے ہاتھ اتنا عجیب و غریب سکرپٹ لگا ہے کہ اُن کے کام پر تنقید اصل میں سکرپٹ کے کھاتے میں ہی جانی چاہیے۔ دو چار سین میں اچھا کام کرنے کے باوجود سارے کام پر پانی پھِر جاتا ہے کیونکہ باقی فلم میں اُن کے کرداروں کی ‘موٹیویشن’ سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔ فلم میں زبردستی ٹھونسا گیا شادی کا گانا بھی اِسی مسئلے کی ایک کڑی ہے۔

‘پرچی’ دیکھنے میں، یعنی عکس بندی کے حوالے سے، عموماً اچھی لگتی ہے۔ لیکن پاکستانی فلمسازوں کو اب یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ ڈھنگ کے سکرپٹ کے بغیر اچھی عکس بندی سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ویسے ‘پرچی’ کے فلمسازوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب آپ کرداروں کے ماتھوں میں کسی کو گولی مارتا دکھا رہے ہوں، تو اس کے ساتھ ہنسی مذاق نہایت ہی نامناسب لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp