زینب قتل کیس، انصاف اب ایسے ملتا ہے!


ننھی معصوم کلی زینب کا قاتل گرفتار ہو چکا ہے لیکن قاتل کی گرفتاری کے باوجود میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے، کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر میں تالیاں بجا سکوں یا کارنامہ سرانجام دینے والوں کو مبارکباد دے سکوں۔ 23 جنوری 2018 بروز منگل، جیسے ہی خبر آئی کہ زینب کا قاتل گرفتار کر لیا گیا ہے تو واہ واہ اور مبارکباد کی صدائیں بلند ہوئیں۔ فخریہ کامیابی کی خبر عوام تک پہنچانے کے لئے حاکم وقت کی سرکاری پریس کانفرنس کا بھی بندوبست ہوا۔ سوشل میڈیا پر پولیس کے اعلیٰ افسران ایک دوسرے کو شاباش دے رہے ہیں۔ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ جیسے قاتل گرفتار کر کے پولیس، ایجنسیوں اور حکومت نے عوام پر احسان کیا ہے جبکہ میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب ایک سوال میں ہے۔ کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمارا معاشرہ، ہمارا نظام، ہمارے ادارے اور ہمارے طرم خان اب مکمل بانجھ ہیں؟

میں نے یہ سوال کیوں پوچھا ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لئے زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور زینب کو ملنے والے انصاف کی مکمل کہانی پڑھیں۔ کیا اس معاشرے میں اب انصاف ایسے ملے گا؟ 4 جنوری 2018 کو قصور میں زینب اغواء ہوئی۔ سوشل میڈیا اور اخباروں میں خبر آئی لیکن دوسری تمام خبروں کی طرح نظر انداز ہو گئی۔ 9 جنوری 2018 کو معصوم بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر یکایک صدائے احتجاج بلند ہوئی، ٹیلی وژن چینلز نے بریکنگ نیوز دی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگلے دن پورا ضلع قصور جلاؤ گھیراؤ کی زد میں تھا۔ سینکڑوں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ موٹر سائیکل جلائے گئے اور پھر زیادتی کا شکار بچی کو انصاف دلانے کے لئے مزیددو لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پورے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان بچی کے گھر آئے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ پھر صوبے کا سربراہ بھی متوجہ ہوا اور معصوم مقتولہ کے گھر پہنچ کر انصاف کی یقین دہائی کرائی۔ وزیر اعلیٰ نے سخت نوٹس لیا۔ پھر پورے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا۔ ایک قتل کی جانکاری کے لئے پورے صوبے کی پولیس کے سربراہ آئی جی اور فورینزک ایجنسی کے سربراہ کو کہا گیا کہ ملزم ڈھونڈنے کے بغیر قصور سے مت نکلیں۔ 1150 افراد کے ڈی این اےکیے گئے، سارے وسائل کا رخ زینب قتل کیس کی طرف موڑا گیا۔ پھر کہیں جا کر قاتل تک رسائی ہوئی اور ایک معصوم بچی کو انصاف ملا۔

اب آپ مجھے بتائیں کیا انصاف ایسے حاصل کیا جاتا ہے؟ اس علاقے کا کوئی SHO بھی ہو گا، کوئی سب ڈویژنل پولیس آفیسر بھی ہوگا، پھر کوئی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بھی ہو گا، پھر کوئی ریجنل پولیس آفیسر بھی ہوگا، کیا فائدہ ان سب کا؟ کیا یہ ہے ان کی کارکردگی؟ کیا یہ ہے نظام تحفظ؟ کیا یہاں کسی کو بھی اس وقت تک انصاف نہیں ملے گا جب تک وہ پورے ضلع میں آگ نہ لگا دے؟

مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ کیونکہ عمران نامی شخص نے یہ کوئی پہلا قتل تو نہیں کیاتھا۔ 23 جون 2015 کو عاصمہ نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیاگیا۔ جی جناب! 23 جون 2015، اس وقت یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوا؟ کیا 2015 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیس کا نظام تشکیل نہیں پایا تھا؟ کیا تب فورنزک ایجنسی وجود میں نہیں آئی تھی؟

پھر 4مئی 2016 کو تہمینہ قتل ہوئی، پھر 8 جنوری 2017 کو عائشہ کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پھر 24 فروری 2017 کو ایمان فاطمہ، پھر 11 اپریل 2017 کو نور فاطمہ، پھر 8 جولائی 2017 کو لائبہ اور پھر 12 نومبر 2017 کو معصوم کائنات کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ بھیانک داستان ہے ہمارے پولیس سسٹم اور انصاف کے نظام کی۔ اور صرف یہ بچیاں نہیں ہیں، اس ملک میں صبح و شام ایسا ہوتا ہے۔ لیکن سوائے انکوائری کمیٹیاں، پھرتیاں، الٹی میٹم کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان سب کے والدین خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ فورینزک ایجنسی جس نے دو ہفتوں میں 1150 لوگوں کے DNA ٹیسٹ کر لئے، یہاں لوگ رپورٹ حاصل کرنے کے لئے سارا سار ا سال دھکے کھاتے رہتے ہیں۔

یہ سب ہونے کے بعد اگر کوئی قاتل پکڑا جائے تو بتائیں میں مبارکباد دوں؟ تالیاں بجاؤں؟ اگر یہ ہماری کارکردگی ہے تو پھر تو سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اگر انصاف لینے کے لئے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے تو پھر ایک عام آدمی انصاف کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دے۔ کیونکہ جب تک وہ پورے ضلع میں آگ نہیں لگائے گا تب تک کوئی اسے انصاف دلانے کے لئے متوجہ بھی نہیں ہو گا۔ خدا کا واسطہ ہے ادارے بنائیں ادارے۔ وہ ادارے جو جلاؤ گھیراؤ سے پہلے ڈیلیور کریں۔ پھر میں تالیاں بھی بجاؤں گا اور آپ کو مبارکباد بھی دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).