منکہ ایک مولوی ہوں…


 \"ramish-fatima\"میں ایک مولوی ہوں، میرا نام۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیں نام میں کیا رکھا ہے آپ میرے کام پہ توجہ دیں۔ ایسا میرا گمان نہیں یقین ہے کہ مذہب پہ مجھے مکمل دسترس حاصل ہے، لوگ اپنے مسائل لے کر میرے پاس آتے اور مجھ سے مشورہ طلب کرتے رہتے ہیں۔ ہوتا تو مشورہ ہی ہے لیکن میرا کہا حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ وہ مجھے عقلِ کُل تسلیم کرتے ہیں۔ میرے پاس ہر مسئلے کا حل جنت جہنم، گناہ ثواب، ایمان اور کفر کی صورت موجود ہے۔

میں نے سائنس نہیں پڑھی، مجھے ایسے کافرانہ علوم کا قطعاً کوئی علم نہیں ہے۔ لیکن ایک کیڑا ہے میرے اندر۔ چاہے مجھے معاملے کی سمجھ ہو یا نا ہو، جب بھی کوئی معاملہ میری نظر سے گزرے تو اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا میری توہین ہے۔ لوگ مجھے سمجھدار مانتے ہیں اور مجھے یہ بہروپ بھرنا پڑتا ہے۔ آپ داد دیں کہ میں کسی کی دل آزاری نہیں کرتا، کسی کو تشنہ نہیں لوٹاتا۔

آج سے چھ ماہ پہلے ایک عورت آئی، چار بچے ہیں اس کے، ڈاکٹر نے سائنس یعنی الٹراساؤنڈ جیسی مکروہات کا سہارا لے کر اسے بتایا تھا کہ یہ حمل ضائع کروا دے کیونکہ یہ بچہ نارمل نہیں ہے، یا تو یہ پیدائش کے مقررہ وقت سے پہلے ہی مر جائے گا اور اگر اس دنیا میں آ ہی گیا تو دو چار روز سے زیادہ نہیں جی سکتا، دماغ کی نشونما مکمل نہیں ہے۔ نو ماہ کی تکلیف، زچگی کے مشکل مراحل سے گزرنے کے بعد بھی حاصل کچھ نہیں تو بہتر ہے آپ اسے ابھی ضائع کروا دیں۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ اس عورت نے جب یہ مسئلہ بتایا تو میرے سر کے چار فٹ اوپر سے گزر گیا۔ یعنی ایسا بھی کیا ہو سکتا ہے کہ دماغ کی نشونما مکمل نہ ہو؟ وہ پریشان تھی کہ کیا کرنا چاہیئے۔ میں نے تسبیح زور سے گھمائی اور بس پھر ایک نکتہ ذہن میں آیا۔ میں نے اسے کہا کہ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں، کوئی ڈاکٹر اس کے کام میں دخل اندازی نہیں کر سکتا، بچہ ضائع کرنا گناہ کبیرہ ہے، یہ قتل ہے۔ اور ایک ماں قاتل کیسے ہو سکتی ہے۔ روزِ محشر تمہاری اولاد تم سے سوال کرے گی اور اس عدالت میں تم قصور وار ٹھہرائی جاو گی۔ میں نے قاتل قاتل کی گردان کی اور وہ ڈر گئی۔ ایک بار پھر گناہ ثواب، جنت جہنم جھگڑے نے میری عزت بچا لی اور میری لاعلمی کا بھرم رہ گیا۔

اب اس بات کو چھ ماہ گزر چکے، میں کیونکہ عورت نہیں ہوں تو نو ماہ ایک بچے کوکھ میں پالنا کیسا ہے مجھے اس بات کا علم نہیں، یہ کام خدا نے عورتوں کو سونپا ہے تو انہیں چپ چاپ کرنا چاہیئے، اگر وہ اس تکلیف سے نہیں گزرے گی تو جنت کیسے آئی گی اس کے پیروں تلے، یہ اور بات ہے کہ پھر بھی اس کی جنت جہنم کا فیصلہ میرے ہاتھ ہے۔

وہ عورت ابھی آپریشن تھیٹر سے باہر نکلی ہے، نیم بےہوش درد سے کراہ رہی ہے لیکن جنت کما لی ہے اس نے، اب وہ قاتل نہیں ہے۔ وہ بچہ نرسری میں پڑا ہے اور ڈاکٹر اس کی آخری سانس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب اس کے جینے مرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر کی ہے۔ ڈاکٹر خود کو قاتل سمجھے کہ میڈیکل سائنس کچھ بول نہیں رہی کہ جس بچے کا دماغ مکمل طور پہ نہیں بنا اس بچے کو کیسے بچایا جائے۔ نرسری کی ایک ڈاکٹر غصے اور تکلیف میں مجھے ڈھونڈ رہی ہے کہ وہ مجھ سے پوچھ سکے میں آخر اپنی زبان پہ قابو کیوں نہیں رکھ سکتا، میں اپنی نمازوں تک محدود کیوں نہیں رہتا۔ میں ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا کیوں فرض سمجھتا ہوں۔ وہ ڈاکٹر مجھے وہی کرامتوں بھرے جوتے مارنا چاہتی ہے جو میرے بھائیوں نے ہیلی کاپٹر کو مارے۔ اسی لیے میں نے نام نہیں بتایا کہ وہ مجھ تک پہنچ گئی تو؟

میں خوش ہوں کہ اس پاگل ڈاکٹر کی پہنچ سے دور ہوں، دل شاد ہوا کہ سائنس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں (اور سائنس خود سر پکڑے بیٹھی ہے ایک طرف کہ یہ ہوا کیا اس کے ساتھ) میں خوش ہوں میری لاعلمی کا بھرم رہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
21 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments