امامة جمیدہ اور نذیر ناجی


نذیر ناجی کا مضمون پہلے “دنیا” میں پڑھا، پھر “ہم سب” میں دیکھا۔ چند باتیں عرض کرنے کا دل چاہتا ہے، سو پیش کرتا ہوں۔

اول یہ کہ اگر پاکستان کی جمہوری حکومت مسلمانوں میں طلاق کے متعلق کوئی قانون بنا سکتی ہے تو ہندوستان کی پارلیمنٹ بھی اس مسئلہ سے متعلق قانون بنانے کا حق رکھتی ہے۔ البتہ مودی حکومت نے فی الوقت جو قانون بنانے کی کوشش کی ہے وہ قانون ضرور ناقص اور ناکافی کہا جاسکتا ہے، اور اگر وہ قانون بنا تو اس سے مسلمان عورتوں کو نقصان ہی پہونچےگا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کسی مذہبی عقیدے میں تبدیلی نہیں لا رہی، اور نہ لا سکتی ہے۔ خود اس کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جس طرح نکاح یا ازدواج کا تعلق عقیدہ سے نہیں اسی طرح طلاق بھی ایک شرعی یعنی قانونی مسئلہ ہے۔

نذیر ناجی لکھتے ہیں کہ پاکستان میں علماٴ نے فیصلہ کیا کہ ایک ایک ماہ کے وقفے سے طلاق دہرانے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ اس پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ پاکستانی علماٴ نے ابھی تک عورتوں، مردوں اور بچوں کو غلام بنانے کے خلاف کوئی متفقہ اعلان نہیں کیا ہے، اور نہ یہ اعلان کرنے کے کے لئے تیار ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی عورت کو کسی طرح اپنی باندی بنائے اور اسکے ساتھ ہم بستری کرے تو یہ فعل زنا بالجبر قرار دیا جاےگا۔ برصغیر میں غلام بنانا جرم قرار پایا تو انگریزوں کی وجہ سے۔ ورنہ جناب شیخ کا نقش قدم آج بھی یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ ستم یہ کہ آج بھی جہاں “خلافت” قائم ہوتی ہے سب سے پہلے غلامی بھی قائم کی جاتی ہے۔ اگر برصغیر کے مسلمان غلامی پر قانونی پابندی لگانے کے خلاف نہیں ہوئے تو طلاق پر قانونی پابندی لگانے پر بھی راضی ہو جائیں گے۔ آج نہیں تو کل، جب کوئی مناسب سوچا سمجھا قانون پارلیمنٹ میں آئےگا۔ علماٴ تو اسی پر مصر رہیں گے کہ غلام بنانا جائز ہے اور کوئی غلام مسلمانوں کی نماز میں امامت نہیں کرسکتا۔

نذیر ناجی کو اپنا کالم لکھنے کی تحریک یہ خبر پڑھ کر ہوئی کہ کیرالہ میں ایک مسلمان خاتون، امامة جمیدہ نے جمعہ کی نماز کی امامت کی۔ (ناجی نے ہر جگہ ان کا نام غلط لکھا ہے) واضح رہے کہ یہ نماز اس شہر کی جامع مسجد میں نہیں بلکہ ایک مسلم سوسائٹی کے دفتر میں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں نذیر ناجی کے بہت سے ارشادات ہیں۔ میں صرف مندرجہ ذیل تین کے حوالے سے کچھ عرض کرون گا۔ (1) امامة جمیدہ نے قرآن اور سنّت کی غلط ترجمانی کی۔ (2) قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مرد عورتوں پر “حاکم” ہیں۔ اور (3) “رسول اکرمﷺ کے زمانے میں بھی کسی عورت نے جمعہ یا معمول کی نماز کی امامت نہیں کرائی (کذا)۔”

ممکن ہے یہ میرا گمان ہی ہو، لیکن بظاہرنذیرناجی کے مقابلے میں امامة جمیدہ کے پاس قرآن، حدیث اور فقہ جاننے کے باقاعدہ سرٹیفکٹ اور دیگر ثبوت وافر ہیں۔ اب رہی بات ترجمانی کی۔ اگر کچھ لوگوں کی رائے میں موخرالذکر کا علم “حقیقی” نہیں، تو یہ ثبوت تو نہیں ہوا، ان لوگوں کی تائید کرنا ایک ہلکی سی غیبت ضرور ہوئی۔ آخر اس کا کیا ثبوت کہ کہ معترضین کا علم “حقیقی” ہے۔ نذیرناجی کی تائید کو کیا اہمیت دی جا سکتی ہے، انھیں تو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن میں مردوں کو عورتوں کا “حاکم” بنایا گیا ہے۔ جبکہ اصلیت یہ ہے کہ قرآن میں جو لفظ واقعی استعمال ہوا ہے اس کے معنی اب بھی زیرِبحث رہتے ہیں، اور خاص اس آیة کی متعدد اور مختلف تفسیریں کی گئی ہیں، اور ساتھ ہی مختلف شرائط بھی مذکور ہیں۔ کسی ایک ترجمانی کو “حقیقی” قرار دینا محتاط رویہ نہیں۔ حقیقت جاننے کا دعویٰ منصور کو بھی نہیں جچتا۔

اب آئیے اصل بات کی طرف: کیا حضورﷺ کے زمانے میں بھی کسی عورت نے جمعہ یا معمول کی نماز کی امامت کی تھی؟ اس کا جواب ہمیں ڈاکٹرحمیدالله مرحوم کی اانتہای اہم اور وقیع کتاب “خطبات بہاولپور” میں مل جاتا ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی تعریف میں کچھ بھی کہنا بےادبی ہوگی۔ مرحوم 1980 میں، یعنی ڈکٹیٹر ضیا کے زمانے میں اسلامیہ یونیورسٹی کی دعوت پربہاولپور تشریف لائے تھے اور 12 خطبات سے سامعین کو نوازا تھا۔ پروفیسر عبدالقیوم قریشی، وائس چانسلر، کی بصیرت اور جراٴت کی داد دینا لازم آتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف ان خطبات کا اہتمام کیا بلکہ انھیں احتیاط سے رکارڈ کروایا اور پھر اتنی ہی احتیاط سے مرتب کرکے کتابی شکل میں شائع بھی کردیا۔ ہر خطبے کے اختمام پر حاضرین کی طرف سے سوالات بھی ہوتے تھے اور ڈاکٹر صاحب سوال کرنے والے کی تشفی کردیتے تھے۔ چنانچہ آخری خطبہ کے اختمام پر جو سوال پوچھے گئے ان میں سے ایک نیچے درج کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ڈاکٹرصاحب مرحوم کا جواب بھی۔

“سوال: حضرت امّ ورقہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو آپﷺ نے گھر کی عورتوں کا امام بنایا تھا۔ کیا عورت صرف عورتوں کی امامت کرسکتی ہے، مردوں کی نہیں؟

“جواب: میں اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ صرف عورتوں کے لئے امام بنایا گیا تھا۔ حدیث میں یہ الفاظ ہیں، “اہل خاندان کے لئے”۔ “اہل” کے معنی صرف عورتوں کے نہیں ہوتے۔ پھر اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ان کا ایک موذن تھا جو ایک مرد تھا۔ اور پھر مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں ہی نماز پڑھتے ہوں گے۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لئے نہیں تھی بلکہ مردوں کے لئے بھی تھی۔”

(خطبات بہاولپور، اشاعت اول، 1981، ص: 315 تا 316۔ جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سنن ابودائود میں محفوظ ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).