نفرت سے فتویٰ گری تک


\"NASIR-SHABBIR-PIC\"

ممتاز قادری کے چہلم پر اکٹھے ہونے والی مذہبی جماعتوں کے باریش اور معتبر قائدین و علما کرام اور ان کے ہزاروں کارکنان نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے خلاف جس قسم کی بدزبانی اور گالی گلوچ اور غلیظ ترین زبان استعما ل کی ہے وہ انتہائی شرمناک اور گھٹیا تھی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو بدتہذیبی کی گئی اوردوسرے فرقوں کے خلاف جو خرافات اورواہیات بکی گئیں ان کو لکھنا تو درکنار سوچ کر ہی کراہت اور گھن محسوس ہوتی ہے۔باریش چہرےکی زبانوں نےجو خرافات و مغلظات اُگلے، رنگ برنگے عماموں نے جس طرح ادب و احترام اور شائستگی و تہذیب کاجنازہ نکالا۔ پاک آرمی کے ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر جس طرح جوتے اچھالے گئے ہیں صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمارے وطن کی گلی کوچوں، محلوں میں گونجنے والے لاؤڈ اسپیکرز لوگوں کے ذہنوں میں کونسا زہر انڈیل رہے ہیں؟ مدارس کے حجروں اور صحنوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ ایسی انتہاپسند انہ سوچ کا منبع کہاں ہے اورکون ہے جوان شرپسند طبقے کو اجازت دیتا ہے کہ وہ یوں سرعام لوگوں میں نفرت اور تعصب کی تعلیم عام کرتا پھرے؟ حکومت کی رٹ کو یوں سرعام للکارتے پھریں؟ اس کا واضح جواب ہے کہ ریاست ہی اصل میں ایسے افسوس ناک واقعات اور تقاریر کا محرک بنتی ہے ۔ریاست کی مذہب میں مداخلت اورپیشہ ور مولویوں کی منبر ومحراب سے فتویٰ گری نے عوام الناس کے دماغوں میں مدمقابل فرقہ کے خلاف قانون شکنی اور تعصب کو رواج دیا ہے ۔ وہ رواداری جو کبھی مذہبی منافرت او رفرقہ بازی سے مبرا تھی وہ ریاست کی مذہبی معاملا ت میں مداخلت کی وجہ سے اب انتہاپسندی کی طرف جا چکی ہے جوگھروں ، خاندانوں ، محلوں گلی کوچوں تک سرایت کرگئی ہے ۔ ریاست میں مذہبی مداخلت سے ایک عام شہری کی نفسیات میں کیا کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور کیا کیا بھیانک اثرات پیدا ہو ئے اس کا اندازہ ریاستی اداروں کو ہر گز نہیں تھا ۔قانون سازی اور آئین کی بالادستی صرف اُسی صورت ممکن ہے جب انصاف کا خون نہ ہو۔پاکستان میں دین کے نام پر زندگی گذارنے کی بجائے زندگی دی جاتی ہے ۔برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے بعدجسد ِ پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت کی پہلی اینٹ اس وقت لگائی گئی جب خداد مملکت پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئینی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ۔گویا یہ ریاست ہی ہے جس نے مسند ِ اقتدار پر متمکن ہو کردین کی کلید بھی اپنے ہاتھ میں لے کر فتوی ٰ کفر کی پہلی فیکٹری تعمیر کی جس کے ضعیف اور جوان مزدور آج بھی ہمارے اردگرد گلی کوچوں میں رہائش پذیر ہیں ۔

کئی اہل علم اور قانونی ماہرین کے مطابق 1974ءکے فیصلے کے دوران قرآن مجید فرقان ِ حمید اور احادیث مبارکہ کی فہم وفراست کی بجائے انسانوں کے خیال ، رائے ، فہم و ادراک ، سوچ ، اندازوں ، قیافوںکو اہمیت دی گئی تھی۔ گویا اگر اسمبلی میں بیٹھا ایک شخص کسی کے عقیدے کو دیگر اراکین کی طرح غلط کہتا ہے اور حریف فرقے کے خلاف ووٹنگ کرتا ہے تو گلی کوچے میں رہنے والا ایک عام شہری کسی دوسرے کو کافر و ملحد یا جہنمی کہنے کے حق سے کس طرح محروم رہ سکتا ہے ؟جب ایک ریاست اپنے تمام شہریوں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ بزور طاقت دوسرے شخص کے عقیدے یا مسلک کو غلط اور گمراہ قرار دے سکتاہے توپھر انجام بخیر کس طرح ہوسکتا ہے ۔؟

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ریاسست کی مذہب میں بے جامداخلت اور امتیازی سلوک سے ہمیشہ منفی اور الٹ نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔اگر مذہب کی بنیادیں مضبوط اور دیرپا ڈھانچےپر کھڑی ہیں تو کوئی بھی طنز و تنقید کی تند وتیز ہوا اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی ۔ سیاسی قوتوں نے دین اور مذہب کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی جو بھی کوششیں کی ہیں ان کے نتائج ریت پر لکھے الفاظ کی طرح عارضی ثابت ہوئے ہیں ۔ دیگر مذاہب کی توہین ، عقائد وتشریحات پر لاحاصل بحثوں و جھگڑوں سے کبھی بھی مثبت ومفید نتائج برآمد نہیں ہوئے۔غور کا مقام ہےکہ احمدیوں کے خلاف 1953ء میں فسادات ہوئےچونکہ حکومت اس فرقہ وارانہ معاملے میں غیر جانبدار تھی لہذا فسادات 1953ءکو کچلنے میں کامیاب رہی۔1974ء سے قبل پاک فوج کے اعلیٰ و کلیدی عہدوں پر تمام فرقوں و مسالک کے لوگ فائز تھے جن میں احمدی و مسیحی بھی شامل تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں جوگندر ناتھ منڈل ، جنرل گریسی اور سر ظفراللہ خان جیسی قدآور نابغہ روزگار شخصیات شامل تھیں ۔لیکن بھٹو کابینہ کے 74ءکے فیصلے کے بعد سماج میں کئی تبدیلیاں آئیں اور سماجی گھٹن اور جنونی حبس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔سائنس اور علم دشمنی کی وجہ سے اختلاف ِ رائے کی گنجائش محدود ہوکر ختم ہوگئی ۔ دلیل اور روشن خیالی کو سیکولر کا طعنہ ، الحاد اور کفر کہا جانے لگا ہے ۔متنوع نقطہ ہائے نظر کی وسعت کے آگے جہالت اور تکفیر کا بند باندھ دیا گیا۔پھراس کے آگے مضبوطی کی خاطر مزید اشتعال انگیزی ، فرقہ واریت ، انتہاپسندی ، نفرت اور تعصب کا زہریلا بیج بویا گیا جو جلد ہی امدادوں ، وظیفوں کی بدولت ایک تنا آور درخت بن گیاجس کی مزید شاخیں مردمومن مرد حق ضیاء الحق کے سنہرے جہادی عہد میں اینٹی قادیانیت آرڈنینس کی صورت میں پھوٹیں ۔پھر یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا گیا ۔شاخیں بھاری اور توانا ہوگئیں ۔یہ پودا خوب پروان چڑھتا گیا۔ آج اُسی زہریلے درخت کی بلنداور گھنی شاخوں پر فرقہ واریت اور قتل و غارت گری ، عدم برداشت کے بھاری شگوفے لدے ہوئے ہیں جوسرکار کی توجہ ودیکھ بھال سے زمین تک خوب جھکے ہوئے ہیں ۔ان زہریلے خوشوں میں دوسروں کے خون کی بو رچی بسی ہے۔ اب صورتحال یہ ہےاب انہی کی باقیات نے ضیائی شجر کے زیر سایہ فتویٰ فیکٹری کا بڑا کشادہ پھاٹک اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول دیا ہے۔اب ہر کوئی اسی فتویٰ کفر کے کارخانے سے اپنے مطلب کی چھوٹے بڑے فتویٰ کفر کی نقلیں حاصل کرکے گلی کوچوں میں بانٹ رہاہے ۔گھر گھر فتویٰ کفر کی تعویزیں پہنے عوام کے درمیان محبت و اخوت ، برداشت اور تحمل و رواداری اور قربانی کے جذبوں کو فرقہ واریت کی دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ جگمگاتے آرائشی رنگ برنگے پتھروں سے سجی مسجدوں کے طاقچوں میں فتویٰ کفر کے کتابچے دھرے ہیں لیکن منبر ومحراب پر امن سلامتی کے وعظ پورے جوش و خروش سے جاری ہیں۔ فرقوں کے درمیان بحثیں ، مناظرے ، کفربازی ، جھگڑےاسی74ء والے فیصلے کی پیداوار ہے جس کے بعد رنگ برنگ پگڑیاں پہنے ، منہ سے جھاگ اُڑاتے ملاں حضرات اپنی اپنی مسجدوں کی اینٹیں سیدھی کرتے رہتے ہیں ۔علم و شعور سے عاری طبقہ محض اپنے مرشدوں کی تحریرات کو

سچ کرنے کے جوش میں حریف مخالف پر ابلیسی لہجوں میں گرج اور برس رہاہے۔ایک دوسرے پر غلط اور انتہائی غلیظ الزامات کی بوچھاڑ کررہاہے۔ اس فیصلے کے تباہ کُن ثمرات ہیں کہ ماضی کے انہی سیاست دان کی طرح ممتاز قادری نے بھی اپنے ضمیرو مفاد کی خودساختہ اسمبلی سجا کر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو موت کا پروانہ تھما دیا ۔بالکل اسی طرح جیسے قومی اسمبلی کے اراکین نے احمدیوںکو کفر کی رسید تھمادی تھی یعنی یہ وہ کام ہے جو اسمبلی میں سیاست دانوں نے کیا تھااب اس کے گہرے اور انتہائی مہلک اثرات اب عوام تک پہنچ رہے ہیں اب ستم ظریفی یہ ہے کہ عدالتوں کے ججوں نے بھی گویا انصاف کے قلمدان ہی عدالتوں سے نکال کر عین بیچ چوک چوراہوں میں رکھ دیے جن میں دھرے قلم سےایک عام شہری دوسرے کی موت کے پروانے لکھ رہاہے انصاف کے رکھوالوں کے اس رویے کے بعد عوام کا مزاج بھی مزید جارحانہ ، جاہلانہ اور آزادانہ ہوگیاہے ۔قانون ہاتھ میں لینے کا رواج عام ہوگیاہے ۔ توہین مذہب کے اکثر مقدمات میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی میں 74ءکے سیاست دانوں کی طرح دوسرے کے عقیدے کا فیصلہ اپنے پاس رکھنے کی قانونی و سیاسی حیثیت کی وجہ سے ایک فرد واحد بھی وہی اختیار اپنے پاس رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اسی فخر اور انتہا پسند سوچ کی وجہ سے حریف فرقے کے پیروکاروں کو نہایت آسانی اور سفاکی سے نذر آتش کر دیتا ہے ۔

مزید صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف عوام اسی نشے میں مخمورہوکر مرد مومن مرد حق جنرل ضیا ء الحق کے فرقہ وارانہ خرافات اور فیکٹری 74ء کےفتووں کی مزید نقلیں تیار کرکے گلی محلوں میں آوازیں لگا کر بانٹ اور خرید رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملکی و عالمی افق پر شدت پسندی اور مذہبی جنونیت کی تیسری قسط انتہائی منظم انداز میں نشر ہورہی ہے۔القاعدہ کے بعد طالبان اور پھر آج کل داعش قسط سوم چل رہی ہے لیکن پھر اُسی سوچ اور فکر کے خول نے عوام کے شعوری ارتقاءکو محدود کر رکھا ہے ۔دولے شاہی چوہے سبز چولوں میں خوب ناچ رہے ہیں ۔ کسی کو کوئی فکر نہیں کہ انتہاپسندی او رجنونیت کی زہریلی فصل جوہم کاٹ رہے ہیں اس کے بیج خواندگی یا ناخواندگی میں نہیں ہیں بلکہ یہ وہ مہلک اور فتنہ پروربیج ہیں جو 1974ءکوریاست کے قانونی و آئینی سینے میں بوئے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments