فیملی پارک: کہانی سے دھماکے تک


\"erum

صابر حسین پارک اُن کے محلّے کا ہی نہیں بلکہ شہر کے چند بہترین پارکوں میں سے ایک تھا جہاں لوگ اپنے خاندان کے ساتھ تفریح اور تازگی کی خواہش لئیے آتے اور کبھی سرشار تو کبھی بے زار واپس لوٹ جاتے تھے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا یہ پارک گو شہر کی ایک نمایاں سیاسی تنظیم کے زیر نگرانی تھا تاہم یہاں پر ہر رنگ، نسل، اعتقاد اور سیاسی وابستگی کے افراد آتے تھے۔

وجہ پارک کا حُسنِ انتظام، رنگارنگ پھولوں کی بہار، انواع واقسام کے چرند پرند، جھولے، کھیل تماشے اور لذّتِ کام و دہن کے سامان تھے۔

ندا پہلی مرتبہ پارک میں اپنی ایک سہیلی کے مشورے پر آئی تھی اور پھر توگویا پارک آنا اُس کے ہفتہ وار معمول کا حصّہ بن گیا۔ پارک کے بیچ و بیچ بنا جاکنگ ٹریک ندا کی توجہّ کا مرکز تھا۔ جبکہ اُس کے بچےّ وہاں موجود اسکیٹنگ گراﺅنڈ، جھولوں اور رنگا رنگ مچھلیوں کے دیوانے تھے۔ نِدا کی دلچسپی کا ایک سبب پارک میں بکھری وہ ان گنت کہانیاں تھیں جو اُسے ہر ہفتے زندگی کے ایک نئے رُخ سے روشناس کرتی تھیں۔ یوں تو ندا کو بچپن ہی سے ادیب اور افسانہ نگار بننے کا شوق تھا، تاہم کبھی وقت نے مہلت نہ دی تو کبھی اُس کی سیماب صفّت طبیعت آڑے آئی۔ لیکن پارک میں آنے کے بعد تو گویا اُس کے پاس موضوعات کی کوئی کمی نہ رہی اور اُس کا کہانیا ں لکھنے کا شوق ایک بار پھر جاگ اُٹھا۔ ہر ہفتے یا اتوار کی شام جب وہ پارک کا رُخ کرتی تو ایک نئی کہانی کو اپنا منتظر پاتی تھی۔ ابتدا میں آس پاس سے گزرنے والے افراد کے فقروں نے اُسے متوجہ کیا اور پھر رفتہ رفتہ وہ خود بھی اُن کہانیوں اور اِن کے کرداروں کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔

\"APP33-20

جیسا کہ پارک میں آنے والا وہ نو آموز جوڑا جو بظاہر میاں بیوی بننے کی ایکٹنگ کر رہے تھے لیکن در حقیقت والدین سے چُھپ کر بقول لڑکے کے ” ڈیٹ مارنے“ آئے تھے۔ لڑکی کا فق چہرہ، جھینپا انداز، اُس پر لڑکے کی شوخیاں اور چلتے چلتے نظر بچا کر ہاتھ پکڑنے کی کو شش اُن کے تعلّق کی چغلی کھا رہی تھی۔ لڑکا، لڑکی کو مُتاثر کرنے کے لیے ہر طرح کے پینترے آزما رہا تھا۔۔۔۔

”چاٹ کھاﺅ گی ؟ یہاں کا برگر بہت زبردست ہوتا ہے۔ وہ سُرخ پھول کتنے خوبصورت ہیں بالکل تمہارے لباس کے ہم رنگ ، توڑ کر دوں! دیکھو میں نے نیا موبائل لیا ہے اچّھا ہے نا !“

لڑکی کبھی کھلکھلا کر تو کبھی شرما کر سرگوشی میں جواب دیتی اور کبھی خاموش ہو جاتی۔ ندا جاکنگ ٹریک کے ایک نسبتاً ویران حصّے میں اُن کی گفتگو سُن کر متوجہ ضرور ہوئی تھی لیکن پھر ایک نگاہ غلط انداز ڈال کر آگے بڑھ گئی یہ سوچتے ہوئے کہ نہ جانے کیا بہانہ بنا کر یہ دونوں نوجوان اپنے گھر سے اس وقت پارک آئے ہیں اور آگے کیا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد اُس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب بد قسمتی سے لڑکی کا ایک آشنا خاندان پارک میں آگیا اور وہ اُن کی نظروں سے بچنے کے لئیے پودوں میں چُھپتے چھپاتے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ اتنے میں گارڈ نے بھی انہیں بھانپ لیا اور آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پارک سے چلتا کیا۔ یہ ابتدا تھی اُن جیتی جاگتی کہانیوں کے کرداروں کی جنہیں ندا نے چلتے پھر تے اپنے اردگرد محسوس کیااور الفاظ کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔

مثلاً وہ لڑتا جھگڑتا جوڑا جو اپنے دل کا غُبار نکالنے پارک میں آیا تھا۔ بیوی مُسلسل شوہر سے سسرال والوں کے دُکھڑے رو رہی تھی کہ کس طرح اُس کی غیر موجودگی میں ساس اور نندیں اُس کے ہر کام میں سو سو کیڑے نکالتی ہیں جبکہ شوہر ہر ممکن بیوی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کا ایک ہی اصرار تھا ”تم آج فیصلہ کر لو“ مجھے الگ گھر لے کے دو یا بھول جاﺅ۔ میں اس چھوٹے سے سے ڈربے میں اتنے بڑے کُنبے کے ساتھ مزید گزارا نہیں کر سکتی‘۔ خاوند عاجزی سے بیوی کو مناتے ہوئے بولا ”زارا کچھ تو سوچو، خُدا کو مانو، اچھا بھلا اپارٹمنٹ ہے ہمارا اور سب سے بڑا کمرا ہمارے پاس ہے۔ پھر جوائنٹ فیملی کے کتنے فائدے ہیں۔ جھٹ پٹ کام ہو جاتا ہے۔ تنہائی بھی نہیں ہوتی اور کل کو ہمارے بچے ہوں گے تو اُن کی دیکھ بھال کتنی آسان ہوجائے گی“۔

\"12900078_10154069504061667_1041040240_n\"بیوی نے فوراً شوہر کو ٹوکا ” اس ڈربے کے ایک کمرے میں بّچے! بھول ہے تمہاری میں اس گُھٹے ماحول میں خاندان بڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی“۔ شوہر نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔’ ’فلیٹ کی قیمت کا اندازا ہے تمھیں‘ میری تنخواہ میں کیسے ممکن ہوگا؟ ’تم فکر نہ کرو میں ڈیڈی سے بات کرتی ہوں لیکن تم اپنا وعدہ یاد رکھنا‘۔ بیوی نے گویا فیصلہ سُنا دیا۔ پارک میں چلتے چلتے ایک شام ندا تھک ہار کر کوئی خالی بینچ تلاش کرنے لگی تاکہ کچھ دیر سُستا لے۔ باغ کی کہانیاں اُس کے کردار اور اُن کی کشمکش اُسے اکثر ذہنی طور پر نڈھال کر دیتی تھی۔ اِسی اثنا میں ندا کی نظر ایک ادھیڑ عمر سُرخ و سفید رنگت اور مضبوط نقوش کی حامل خاتون پر پڑی ۔ کالے فریم کی عینک آنکھوں پر جمائے، ہلکے میک اپ اور جیولری سے لیس وہ ندا کو نسبتاً ایک مطمئن عورت نظرآئیں۔ سو وہ سستانے کے لئے اجازت لے کر اُن کے برابر بیٹھ گئی۔

ابھی اُسے بیٹھے کچھ دیر ہوئی ہوگی کہ خاتون نے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔ ازراہ تکلف ندا نے بھی اپنا تعارف کرایا۔ بس پھر کیا تھا جہاں آرا بیگم کو گویا ایک سامع مل گیا۔ ’بیٹی میں بہت دُکھی ہوں۔ ایک بیٹا ہے وہ بھی ناخلف۔ شوہر پچھلے سال انتقال کر گئے۔ اکلوتی بیٹی پردیس بیٹھی ہے۔ بیٹا شادی کے بعد بیوی کے کہنے میں یوں آیا کہ میری شکل سے نفرت کرنے لگا۔ آج یہاں کونسلر کے انتظار میں بیٹھی ہوں کہ آکر مجھے میرے ہی گھر لے کر چلے جہاں سے اپنا سامان لے کر مجھے کسی رشتے دار کے گھر کُوچ کرنا ہے۔ میری قسمت خراب کہ میں نے اپنا گھر بیٹے کے نام کردیا تھا اور بہو ایسی ملی جس نے مجھے اپنا جانی دشمن سمجھ لیا ہے۔ اَب تو میرا اﷲ ہی حافظ ہے۔“ خاتون نے کہتے کہتے چشمہ اوپر کر کے نادیدہ آنسوﺅں کو انگلیوں کی پوروں سے پونچھا۔ ندا اُن کے ساتھ ہمدردی کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں اُن کے محلّے کی ایک عورت چلی آئی اور وہ ندا کو بھول کر اُس سے اپنے بیٹے اور بہو کا دُکھڑا رونے بیٹھ گئی۔ ندا نے فرار میں عافیت جانی اور یہ سوچتے ہوئے اُٹھ گئی کہ یہ پارک ہے یا جنگل۔ اور اس کے اندر بکھرے یہ سینکڑوں چہرے۔ بظاہر مطمئن و متمّول افراد، کیسے کیسے کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

غرض یہ کہ صابر حسین پارک کے ہر گام، ہر کونے پر ایک نئی کہانی بکھری نظر آتی تھی، کہیں ریٹاٹرڈ حضرات ٹولیوں میں اپنی تنہائی بانٹتے ملتے تو کہیں نوجوان زندگی کی گہما گہمی اور مُصروفیت سے نالاں، فرصت کے چند لمحوں کی خواہش کرتے پائے جاتے۔ کہیں بچوں کی کلکاریاں اور ہنسی تھی تو کہیں جوانوں کی اٹکھیلیاں۔ رنگ برساتا آسمان، مہکتے پھول، ناچتی تتلیاں، اُڑتے پرند اور اُس پر زندگی کی تلاش میں سرگرداں بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد سب ہی گویا فیملی پارک کی رونق تھے۔

وہ ہفتے کی شام تھی۔ آج ندا کی طبیعت ناساز تھی۔ دفتر سے بھی دیر سے واپسی ہوئی تھی سو دل ٹی وی کے سامنے سے اُٹھنے کو نہیں چاہ رہا تھا لہذا اُس نے پارک جانے کا ارادہ ترک کردیا اور نیوز چینل لگا کر آنکھیں موندلی۔ اچانک ٹی وی پر نیوز کاسٹر کی آواز نے اُسے گویا خوابوں کی دُنیا سے حقیقت کی دُنیا میں لا کھڑا کیا ۔ نیوز کاسٹر سنسنی خیز انداز میں خبر دے رہ تھی۔ ”صابر حسین پارک میں بم دھماکہ! ہمارے نمائندے نے خبر دی ہے کہ ابھی ابھی پارک کے قریب دھماکہ سُنا گیا ہے۔ ہم اپنے نمائندے سے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ صابر حسین پارک شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں واقع ہے اور یہاں ہفتے اور اتوار کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد تفریح کے لئے آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر دھماکہ پارک میں ہوا ہے تو بہت زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ ہے“۔

ندا کو یوں لگا کہ یہ دھماکہ صابر حسین پارک میں نہیں اُس کی کہانیوں کی دنیا میں ہوا ہو۔ سب کچھ ایک خواب، ایک سراب لگنے لگا۔ اُس کی آنکھوں کے آگے اسکرین پر تارے ناچنے لگے اور ایک ایک کر کے پارک کے ان گنت مانوس کردار اسے خون میں لت پت سبزے پربکھرے نظّر آئے۔ وہ پارک جو کبھی زندگی کی گہما گہمی سے معمور تھا جہاں ہر طرف بہار، زندگی اور رونق تھی۔ تمام تر انسانی مسائل اور سراسیمگی لیے اس وقت موت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سبزہ سُرخ ہو چکا تھا۔ خواب، اندیشے، شکوے، محبتیں، عداوتیں ہر سُو بکھرے پڑے تھے۔ اور آسمان شفق رنگ کے بجائے سُرخ دکھائی دیتا تھا۔ ندا یہ سوچ رہی تھی کہ اب وہ لکھے گی تو کس موضوع پر۔ کہ صابر حسین پارک کے باسیوں کے ساتھ ساتھ۔ اُس کے تمام کردار اور تمام کہانیاں ہمیشہ کے لئے مر چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments