فاٹا کے پشتون 2018 میں جینے کا حق مانگتے ہیں



2012 سے سیاست نہیں ریاست کے نام پر دھرنوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے پاکستانی ریاست بری طرح مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ طاقتور اشرافیہ کی ایما پر کوئی بھی چند ہزار افراد کا مجمع لے کر اسلام آباد وارد ہوجاتا ہے۔ مجمع کے افراد کے مطالبات اگرچہ سیاسی ہی ہوتے ہیں۔ ان پے در پے دھرنوں سے جمہوری حکومتوں کو گرانے کی ناکام کوششیں کی گئیں لیکن ان سے نظام حکومت بری طرح متاثر ہوا اور حکومتوں کی ساکھ بری طرح خراب ہوئی۔ نومبر کے اواخر میں خادم حسین رضوی کے دھرنے کے آگے گویا حکومت نے گھٹنے ٹیک دئے اور برابری کی سطح پر فوج کی ثالثی میں معاہدہ کیا گیا جس کے ذریعے غیر منتخب قوتوں کو امور حکومت میں مزید جگہ فراہم کی گئی۔

ان دھرنوں کے بعد معلوم تو یوں ہوتا تھا کہ فاٹا کے پشتونوں کی جانب سے دیئے گئے دھرنے سے اسلام آباد کے ایوان لرز جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ اس دھرنے کو کافی حد تک میڈیا بلیک آوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ناحق ریاستی قتل کے بعد محسود قبائل اور فاٹا کے پشتون عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پہلے پورا سوشل میڈیا اس خون ناحق ہر بلبلا اٹھا اور پھر پشتون عوام اپنے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر آگئے۔

اگرچہ عوامی غم و غصہ کی وجہ سے ریاستی مشینری حرکت میں آئی اور تفتیش کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ راو انوار کے دعوے غلط تھے اور یہ کہ معصوم نقیب کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اس کے بعد راو انوار کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا اور اب وہ مفرور ہے۔ سپریم کورٹ کا بھی پولیس اور ایجنسیوں پر دباو ہے مگر نقیب کا قتل اس مسئلے کی وجہ نہیں بلکہ اس کا نتیجہ ہے۔

پچھلے چالیس برس میں پاکستانی ریاست کی جانب سے افغانستان کی جنگ میں شمولیت اور اس کے بعد مسلسل افغان معاملات میں مداخلت کی وجہ سے فاٹا کے عوام ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں مسلسل پس رہے ہیں۔ افغان جنگ کے لئے جن علاقوں کو افرادی قوت کے لئے بیس بنایا گیا وہاں کی نسلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے ہیں اور جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں غربت، سستی مزدوری اور بیروزگاری کے علاوہ نسلی تعصب کے ساتھ ساتھ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پورے ملک میں کہیں دھماکہ ہوجائے وہاں کی پشتون آبادی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور محسود قبائل تو سب سے زیادہ پولیس گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ نقیب کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

اسی مسلسل ظلم کے خلاف فاٹا کے عوام نے اسلام آباد میں 31 جنوری سے آل پشتون مارچ شروع کیا ہے جو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں پر علاقے سے پشتون عوام شرکت کر رہے ہیں۔ اس مارچ میں فاٹا کے تمام ایم این ایز، سینیٹر، مقامی ملک، سماجی ایکٹوسٹس حصہ لے رہے ہیں مگر شرکا کے مطابق ابھی تک کسی بھی چینل نے انہیں پانچ منٹ کی بھی میڈیا کوریج نہیں دی۔ آج اطلاعات ہیں کہ عمران خان اور محمود خان اچکزئی بھی اس مارچ میں شرکت کریں گے۔ اس مارچ میں موجود پشتون عوام کا کہنا ہے کہ ریاست ان کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو ماضی میں اس نے بنگالیوں کے ساتھ کیا تھا۔

اس پشتون لانگ مارچ کے مطالبات نہایت حیران کن ہیں۔ جہاں دوسرے صوبوں کے عوام میعشت میں حصہ مانگتے ہیں، اپنی زندگیوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، کرپشن اور سیاسی اقربا پروری کے خلاف سیاسی تحریکیں چلاتے ہیں وہی اس ملک خدا داد کے یہ لاچار شہری محض جینے کا حق مانگتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق میں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ اس دھرنے یا لانگ مارچ کے مطالبات کچھ یوں ہیں۔

1۔ راو انوار کو سزا دی جائے۔

2۔ کراچی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ماورائے عدالت قتل بند کیا جائے۔

3۔ فاٹا میں لینڈ مائینز ختم کی جائیں۔

4۔ پشتون لاپتہ افراد کو بازیافت کیا جائے اور انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جو بے گناہ ہیں انہیں رہا کیا جائے۔

ہماری پاکستانی ریاست سے التجا ہے کہ ان ستم زدہ شہریوں کی آواز دبانے کی بجائے ان کے موقف کو آزادی کے ساتھ میڈیا میں پیش کرنے دیا جائے اور اس میڈیا بلیک آوٹ کے پیچھے جو قوتیں بھی ہیں انہیں روکا جائے۔ عوامی غم و غصہ اگر احتجاج کی صورت نکلے تو اس سے ریاستیں کمزور نہیں ہوتیں بلکہ جائز مطالبات کے ماننے سے شہری کو ریاست کا حصہ ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر ان کا گلا گھونٹا گیا تو اس سے فساد پیدا ہوگا۔ جو لوگ جینے کا حق مانگتے ہیں انہیں اس سے محروم نہ کیا جائے۔ فاٹا کے عوام کے مطالبات مانے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).