کیا ہمارا معاشرہ سیکس کی آگ میں جل رہا ہے؟


ٍگزشتہ دنوں جو واقعات پاکستان میں بچوں اور لڑکیوں کے حوالے سے منظر عام پہ آ رہے ہیں۔ بلکہ اگر اس کو بین الاقوامی رجحان کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کیونکہ ابھی ڈاکٹر لیری اور ویت نام کی کم عمر بچیوں کے اغوا والے واقعات بھی منظر عام پہ آئے ہیں۔  یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف ایک ہی آگ لگی ہوئی ہے۔ جسم و جنس کی آگ۔  جس میں ”معاشرتی حیوان” صرف ”حیوان” رہ گیا ہے۔ اور اس حیوان کو بھی بس ایک ہی بھوک بے قابو کئے رکھتی ہے۔ اس میں اخلاقیات کا لفظی بخار بھی اتر جاتا ہے۔ اور اس بخار کی گرمی سے نجانے کیا کیا اتر جاتا ہے۔ جس میں سب خاص و عام شامل ہیں۔

کو ئی طبقہ، کو ئی شعبہ، کوئی عہدہ، کوئی عمر، کوئی جنس کچھ بھی تو نہیں بچا ہوا۔ ایسے حالات میں نارمل لو گوں کی تلاش کہاں کی جا سکتی ہے۔ کو ئی کیونکر نارمل رہ سکتا ہے۔

کچھ سوالات مجھے بار بار تنگ کرتے ہیں۔ جن کا جواب کوئی مرد ہی دے سکتا ہے۔ مگر وہ کیوں دے گا۔

مان لیا یہ ذہنی مرض ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ لیکن یہ بیچارے ذہنی مریض تو سامنے آ گئے مگر بہت سے شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی ظالمانہ سلوک کرتے ہیں۔ جو کبھی منظر عام پہ نہیں آتا۔ اپنی سے بیویوں کی ویڈیوز بناتے ہیں۔ اپنی ہی بیویوں کو دوسروں سے ملواتے ہیں۔ اپنی ہی بیویوں کی اپنے ہی ملازموں کے ساتھ سیکس کروا کے خوش ہوتے ہیں۔ ان کو کیمرے میں قید کر لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ گرل فرینڈز کے ساتھ، یا لڑکیوں کو دھوکے فریب سے، خرید کے کسی بھی طرح حاصل کر کے یہ حسین محبت کا کھیل رچاتے ہیں۔ آخر کسی بچی کو جسمانی تکلیف دے کر ایک مرد کو کیا لطف آتا ہے؟ کونسی خوشی حاصل ہو تی ہے؟ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا۔

مجھے یقین تھا کہ اب انصاف، انصاف کی سیاست ہو گی اور کوئی نیا کھیل شروع ہو جائے گا۔ زینب کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوا واقعات در واقعات سے کیس کا رخ ہی بدل گیا۔ مرنے والی مر گئی، رونے والے روتے رہیں گے۔ نعش پر سیاست کرنے والوں نے سیاست کر لی۔ وقت کا چورن بیچنے والوں نے اپنے حصے کا چورن بیچ لیا۔ کچھ حساس لوگ خود فریبی کی آس میں آج بھی ہیں کہ انصاف ہو گا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ہم کسی ان دیکھے خونی انقلاب کی طرف اندھوں کی طرح بڑھے جا رہے ہیں۔ سرخ بتی کے پیچھے اپنی سوچ کی گاڑی لگا دیتے ہیں۔ اور اپنے دماغ کی بتی بند کر دیتے ہیں۔

معاشرہ سر تا پا نجاست زدہ ہو چکا ہے۔ کس کس ادارے اور کس کس شعبے سے، کس کس شہر، کس کس گاﺅں سے ہم اس کو ختم کریں گے ؟ کیونکہ ہمارا انصاف تو زمانہ جہالت والا ہے۔ جس میں ہم مظلوم کو انصاف کا تاج پہنا کر بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ وہ اسی خوشی میں مر جاتا ہے۔ اور معاملہ بخوشی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ اور سب اگلے واقعے تک ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

ان ہیجانی کیفیات میں خبر کا رنگ بدل جاتا ہے ”دونوں فریقین میں معافی کا کھیل کھیلا گیا” یا ”بچی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی، سکول کے چوکیدار نے صرف غلط جگہ ہاتھ واتھ لگا دیا تھا”

ان سب واقعات سے ایک بحث چل نکلی کہ ”سیکس پہ بات ہونی چاہئے” ہونی چاہئے مگر کہاں؟

جو سیکس کی آگ میں جل رہے ہیں وہاں۔ وہاں نہیں جہاں آگ کا سامان ہی موجود نہیں۔ ہم ایندھن کی سپلائی روکنے کی بات نہیں کر رہے۔ ہم چاہ رہے ہیں۔ ایندھن سپلائی ہوتا رہے۔ ساز و سامان بھی موجود رہے۔ مگر آگ نا لگے۔

لڑکی شادی سے انکار کر دے تو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ لڑکی شادی کے لئے ہاں کر دے تو انّا کا مسلہ بنا لیا۔ لڑکی پسند سے شادی کر لے تو کاری کر دیا۔ لیکن لڑکی کا سب سے احسن فعل مرد کی نظر میں یہ ہے کہ لڑکی اس کے آدھے اشارے سے، اپنی مرضی کے ساتھ اس کی ہوس کو شانت کر دے۔ تو کار ثواب ہے۔ اس کو مردانہ معاشرہ عورت کی آزادی کا نام دیتا ہے۔ مگر یہ آزادی اس کی اپنے گھر کی عورت کے لئے نہیں ہوتی۔ دوسروں کی عورت کے لئے ہوتی ہے۔

لڑکی کی رضا کی اہمیت میں نے تو خلع سے سمجھی ہے۔ خلع کی شرائط پڑھ لیجئے۔ سمجھ آ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں پسند ناپسند کا مسئلہ نہیں ہے۔ مردانہ جھوٹی انا کا مسئلہ ہے۔ جو گھروں میں بے سکونی کا بھی سبب ہے۔ اور گھروں سے سفر کرتی یہ بے سکونی معاشرے کی بے سکونی میں بدل جاتی ہے۔

مرد خود کو انسان نہیں سمجھتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ خود کو ابلیس سمجھتا ہے۔ وہ ابلیس جس کو اللہ نے سجدہ کرنے کو کہا تو اس نے اللہ کو بھی انکار کر دیا۔ بہت معذرت کے ساتھ معاشرے میں مردانہ رویہ ایسا ہی ہے۔

مرد کو یہ احساس ہی نہیں کہ تعلقات میں جہاں سے جبر شروع ہو تا ہے۔ وہی سے مرد عورت کے دل سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے بعد واپسی کا کوئی رستہ باقی نہیں رہتا۔

ان سب واقعات کو دیکھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو تا ہے کہ جو سب کچھ مرد اپنی عورت (” ماں، بہن، بیوی بیٹی، بہت معذرت کہ مجھے یہ رشتے لکھنے پڑ رہے ہیں) کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ وہ سب کچھ کرنے کے لئے اس کو ایک عورت چاہئے ہوتی ہے۔ جس کا درد اس کو محسوس نا ہو۔ جس کا جسم اس کے لئے کوئی معنی نا رکھتا ہو۔ جس کی نزاکت اس کے لئے کھلونا ہو۔ مگر اس لمحے وہ یہ بھول جاتا ہے۔ یہ اس کی اپنی ہی بیٹی، بہن، بیوی ہے۔ جس کو کسی نا کسی صورت اس درد کو لوٹانا ہے۔

مرد کو دو ہی عورتوں کا درد محسوس ہو تا ہے ایک جِس نے اسے پیدا کیا ہو تا ہے۔ دوسری جس کے پیدا ہونے کا سبب وہ خود ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کے لئے آزادی کا فارمولا بدل جاتا ہے۔ اور وہ ان کا رکھوالا بن جاتا ہے اور۔ اس کی غیرت کا جھنڈا بلند ہو جاتا ہے۔

نجانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے”اب کے جو آگ لگی تو دوزخ بھی رو پڑے گی”

درد میں درد ہی تخلیق ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).