’میلوڈی کوِئین‘ شمشاد بیگم


1951ء میں جب میں پہلی باران سے ملا تومیری عمر پچیس برس تھی اور میں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے سترہ برس بڑی ہیں اور ان کی عمر بیالیس کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ان کے چہرے مہرے سے ان کی عمر کا اندازہ لگانا اس لیے مشکل تھا کہ وہ بیک وقت 42 برس کی بھی لگتی تھیں اور 25 برس کی بھی۔ یعنی وہ جو ایک کہاوت ہے کہ ہر عورت خود کو اپنی اصلی عمر سے چھوٹا ثابت کر کے خوش ہوتی ہے، ان پر لاگو نہیں ہوتی تھی ۔ اس کی ظاہری وجہ تو عیاں تھی، یعنی ان کا چہرا میک اپ سے بے نیاز تھا، آنکھوں کے گرد کچھ جھُریاں اس وقت بھی ابھری ہوئی تھیں اور ہونٹ مصنوعی سرخی کے مرہونِ منت نہیں تھے۔اس کے علاوہ جاذبِ نظر شخصیت کا ہونا بات چیت کے انداز ، چہرے کے اتار چڑھاؤ اور بدن بولی کی حرکات پر منحصر ہے، اور لگتا یہ تھا کہ یہ فن انہوں نے جان بوجھ کر سیکھا نہیں ہے۔وہ سیدھے سادے چہرے کی ایک گھریلو خاتون لگتی تھیں جو ایک سادہ ہلکے نیلے بلاؤز اور اس سے مطابقت رکھتی ہوئی سوتی ساڑھی میں ملبوس تھیں۔ نائلون اور دیگر مصنوعی پارچہ جات کا وقت ابھی نہیں آیا تھا اور ریشم شاید انہیں مرغوب نہیں تھا، چہ آنکہ ’’شو بِز‘‘ سے تعلق رکھنے والی خواتین تو ایک سے ایک بڑھ کر ریشمی ساڑھیاں پہنتی ہیں، اور کئی تو اپنے وارڈ روب میں ایک سو سے کم کی تعداد میں ساڑھیاں رکھنے کی قائل ہی نہیں ہیں۔

میں اپنے مرحوم دوست ساحر لدھیانوی کے گھر گرمیوں کی تعطیلات میں لدھیانہ سے بمبئی جا کر ایک ماہ کے لیے ٹھہرا ہوا تھا اور جہاں بھی وہ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے، تیار ہونے کے لیے کہہ دیتے تھے، ورنہ میں بسوں پر اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے خود ہی بھٹکتا پھرتا رہتا تھا۔ اس لیے جب انہوں نے ایک دن مجھے کہا کہ ہمیں ITTP نیوی ہال میں شمشاد بیگم کو سننے کے لیے جانا ہے تو میں اپنی بہترین بُش شرٹ اور پینٹ پہن کر تیار ہو گیا۔ ہم لوگ کار سے گئے۔ ہال میں فلمی شخصیتوں کے لیے مخصوص اگلی قطار میں رکھے ہوئے صوفوں پر بیٹھے۔ جب وہ اسٹیج پر آئیں تو انہوں نے بیٹھنے سے پہلے سب کو جھک کر آداب کہا، پھر ہاتھ جوڑے اور تب گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھ گئیں، سازندے پہلے ہی بیٹھ چکے تھے۔ یہ شو شاید نیوی اسکول کے لیے fund raising function تھا۔  چونکہ سامعین میں زیادہ تر نیوی کے افسر اوران کی بیویاں تھیں اور اگلی قطاروں میں فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ، اس لیے زیادہ زور ان فلمی گانوں پر ہی رہا جو شمشاد بیگم نے گائے تھے۔فلم ’’ زمیندار‘‘ کا گیت ’’دنیا میں غریبوں کو آرام نہیں ملتا‘‘ ان سے دو بار سنا گیا۔ اسی طرح فلم ’’خزانچی‘‘ کا گیت ’’ ایک کالی، نازوں سے پالی‘‘ چیف آف دی نیوی اسٹاف کی فرمائش پر انہوں نے دو بار گایا۔ لیکن جس گیت نے سب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا وہ ’’مدر انڈیا‘‘ کا گیت تھا جو انہی دنوں ریلیز ہوئی تھی۔ ’’چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر، آج جانا پڑا‘‘۔

چونکہ میں ساحر کے ساتھ تھا اور مجھے وہاں میرے دوستوں میں سے کرشن چندر کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ ، ناول نگار عادل رشید اور ’ہر جگہ مفتود مگر موقعے پر موجود‘ کی زندہ مثال صابر دت بھی مل گئے تھے، اس لیے شو کے بعد چائے پارٹی پر بھی ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے، لیکن جب ساحر اس ٹیبل پر جا بیٹھے جہاں شمشاد کے ساتھ نیوی چیف اور ان کی پتنی بیٹھی تھیں تو میں اپنے دوستوں کی نظر بچا کر ساحر کے ساتھ جا بیٹھا۔

مجھے علم نہیں کہ شمشاد بیگم صاحبہ کو میری شخصیت میں کیا دکھائی دیا کہ باتیں کرتے کرتے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پاس آ کر دوسری کرسی پر ایسے ہی بیٹھنے کے لیے کہا جیسے کسی بچے کو اپنے پاس بلایا جاتا ہے۔ساحر کے یہ بتانے پر کہ میں اس کے آبائی شہر لدھیانہ میں رہتا ہوں، اور افسانے لکھتا ہوں ، انہوں نے پوچھا۔ ’’شعر بھی آپ کہتے ہیں صاحبزادے؟‘‘ جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا، ’’کچھ سنائیے!‘‘ میں نے ایک مختصر غزل کے چار پانچ شعر تحت اللفظ پڑھے۔ وہ داد دیتی رہیں لیکن جب میں مقطع پڑھ چکا تو انہوں نے ارشاد کیا، ’’شاعر کو ترنم سے پڑھنا چاہیے۔ نظم تو خیر روانی سے تحت بھی پڑھی جاتی ہے، لیکن غزل!…نا ، بابا ، نا….غزل تو گانے کی محتاج ہے، اسے ترنم سے ہی پڑھنا چاہیے !‘‘

میں یہاں یہ عرض کر دوں کہ ان دنوں غزل کا جادو میرے سر پر ایسے ہی چڑھا ہوا تھا جیسے میری ہی عمرکے کچھ شاعروں پر آج تک ہے، لیکن کچھ برس بعد ہی میں اس صنفِ شعر سے منحرف ہو گیا۔لیکن یہ ایک دوسری کہانی ہے۔

اس برس جنوری میں مجھے جب یہ پتہ چلا کہ شمشاد بیگم کو ہندوستان کی حکومت سے پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا ہے تو مجھے دو باتوں کا خیال آیا ۔ ایک تو یہ کہ دیر آید، درست آید، لیکن یہ انعام انہیں کم از کم چوتھائی صدی کی تاخیر سے دیا گیا ہے، اور دوسرا یہ کہ پرتیبھا پاٹل صاحبہ سے یہ ایوارڈ لیتے وقت وہ کس قسم کی ساڑھی پہنے ہوئے تھیں۔ یہ خیال احمقانہ تھا لیکن اسے چیک کرنے کے لیے میں نے وہ کلپ کھوج کھوج کر انٹر نیٹ سے نکالا اور دیکھئے یہ حسنِ اتفاق کہ ان کی ساڑھی اور پرتیبھا پاٹل صاحبہ کی ساڑھی میں بالکل فرق نہیں تھا۔ وہ بھی سوتی تھی اور یہ بھی سوتی تھی۔ البتہ بارڈر کی پٹی کا رنگ مختلف تھا۔

شمشاد امرتسر میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا آبائی مکان گولڈن ٹیمپل سے (جو سکھوں کا قبلہ و کعبہ ہے) زیادہ دور نہیں تھا۔ بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا، لیکن چوری چھپے ہی ایک سہیلی کے گھر باجے پر ریکارڈ چڑھا کر سہگل کے گیت سنا کرتی تھیں۔ سہگل ان کا مرغوب سِنگر تھا۔ انہوں نے ایک بار ایک انٹرویومیں کہا کہ سہگل کی فلم ’’دیو داس‘‘ انہوں نے چودہ بار دیکھی، اور پھر یہ بھی کہا کہ میری کچھ جاننے والیاں ایسی بھی تھیں جو جب تک یہ فلم لوکل سنیما گھر میں لگی رہی، اسے روزانہ دیکھنے جاتی رہیں۔

حالانکہ مردانہ اور نسوانی آوازوں کی گائیکی میں موازنہ ممکن نہیں ہے، تو بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ شمشاد بیگم کی گائیکی میں سہگل کی گائیکی کا ایک عنصر جو ملتا ہے، اسے انگریزی میں drawl کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ’لے کاری‘ ہے جس میں ایک لفظ کے انتم vowel یعنی ’آ آ ‘ یا ’اے ا ے ‘ یا ’ای ای ‘ کو لمبا کھینچ کر ’ لہریے ‘میں چھوڑ دیتے ہیں۔ سہگل تو اسے ’اروہی دروہی‘ تک آگے بڑھا دیتا تھا، لیکن شمشاد صرف اسے ایک hypnotic drawl تک ہی لے جاتی تھیں ۔
شمشاد (’بیگم‘ ان کے نام کے ساتھ بدیر جوڑا گیا)، اپنی پہلی ریڈیو اسٹیشن پوسٹنگ میں پشاور تعینات ہوئیں۔ کچھ دوسرے آل انڈیا ریڈیو  کے اسٹیشنوں میں، جن پر ان کی پوسٹنگ ہوئی، لاہور اور دہلی بھی شامل ہیں۔ ان دنوں کسی بھی براڈ کاسٹ کی رینج ایک ڈیڑھ سو میل سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس لیے ان کے گائے ہوئے گیت شہر اور نواحی قصبہ جات میں ہی سنے جا سکتے تھے۔

ان کی شادی گنپت لال بّٹو سے ہوئی جس سے ایک بیٹی اوشا ہوئی جس کا نام اب اوشا رترا ہے۔ بیگم شمشاد ممبئی میں رہتے ہوئے بھی خال خال ہی فلمی محفلوں میں جاتی تھیں ۔ سماجی تقریبوں میں انہیں اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ ہی دیکھا جا سکتا تھا۔

آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں جس کو افشا کرنے والے میرے مرحوم دوست ساحرہیں؟ شمشاد بیگم اپنی تصویر کھنچوانے سے حتےٰ الوسع پرہیز کرتی تھیں۔ کسی بھی تقریب میں فوٹو گرافر کو دیکھ کر منہ پھیر لیتی تھیں اور بعد میں تو پیشہ ور فوٹوگرافروں کو اس بات کا تجربہ ہو گیا تھا اور وہ انہیں پریشان نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا انہیں یہ احساس ہے کہ وہ نور جہاں جیسی گلو کارہ کی طرح خوبصورت نہیں ہیں؟ لیکن نہیں، ان کی جونیر گلو کارہ ، مثلاً منگیشکر بہنیں بھی حوریں نہیں تھیں ، تو بھی وہ اپنی تصویر کھنچوانے سے پرہیز نہیں کرتی تھیں ۔بہر حال شمشاد بیگم کی زیادہ تصویریں لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ جب میں فلمی رسالہ ’شمع‘ کا بے حد پسندیدہ قلمی معاون تھا اور مدیران یونس دہلوی، الیاس اور ادریس میرے دوستوں میں تھے تو میں نے ’شمع ‘ کے دفتر کی اوپر کی منزل میں، جہاں اندر جیت آرٹسٹ (بعد ازاں کل وہ امروزؔ کے نام سے پہچانے گئے) بیٹھتے تھے، بہت سی اداکاراؤں اور گلوکارہ خواتین کی تصویریں دیکھی تھیں۔ جہاں تک میری یاداشت کام کرتی ہے، شمشاد بیگم کی تصویر ان میں نہیں تھی۔

وہ شہرت کے بام پر کیسے پہنچیں؟ کہا جاتا ہے کہ ان کی شیشے کی طرح شفاف آواز نے(جس میں ہر لفظ صفائی کے ساتھ الگ سے سنائی پڑ جاتا ہے)،سارنگی نواز استاد حسین بخش والا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہوں نے شمشاد کو اپنے تلامذہ میں لے لیا۔ پہلے پہل لاہو ر کی فلم نگری سے ہی انہیں کام ملا اور اس میں بھی استاد حسین بخش والا کا ہی ہاتھ کار فرما تھا۔ غلام حیدر صاحب نے شمشاد کو فلم ’خزانچی‘ میں کام دلوایا،۔ ’خاندان‘ میں بھی کام دلوانے میں غلام حیدر صاحب کا ہی ہاتھ تھا۔ جب انہوں نے بمبئی ہجرت کی تو شمشاد بیگم بھی بمبئی آ گئیں۔ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اوشا منگیشکر کی طرح شمشاد بیگم نے بھی کوئی جدید قسم کا گانا گیا؟ جی، ہاں، ان کا ایک گانا بہت مشہور ہوا \"170677_14214397\"اور خود مجھے بھی بہت برسوں کے بعد پتہ چلا کہ یہ ان کا گایا ہوا ہے۔ یہ گانا تھا۔ ’’آنا میری جان، سنڈے کے سنڈے!‘‘

مجھے کچھ الفاظ اور لکھنے کی اجازت دیجئے۔ شمشاد کی آواز ایک قسم کے nasal twang کی طرف کھچاؤ رکھتی تھی ، لیکن الفاظ اس قدر صاف ادا ہوتے تھے کہ گئے وقتوں کے بھرے میلے میں ان کی آواز الگ سے شناخت کی جا سکتی تھی۔ یہ خدا داد حسنِ ادائیگی ان ناموں میں سے کس کے پاس اتنا بدرجۂ احسن موجود تھا ، جتنا ان کے پاس تھا۔ نام ہیں، امیر بائی کرناٹکی، گیتا دت، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور  نور جہاں۔

او ۔پی۔نیّر نے کہا تھا، شمشاد بیگم کی آواز صراحت اور خوش ادائیگی میں مندر کی گھنٹیوں کی مقدس آواز کی طرح ہے اور من کو موہ لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments