میں رشتہ ڈھونڈ رہا ہوں


ہم سب کی ایک اچھی لکھاری نے کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا کہ کس طرح‌ سارے مرد کنواری خواتین سے شادی کرنا چاہتے ہیں‌ اور انہوں نے ایک نوجوان ماں کی دکھی داستان لکھی جن کو شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد طلاق ہوگئی تھی اور اب ان کے لیے دوسرا رشتہ ملنا مشکل ہے جو ایک اچھا شوہر اور باپ ہو۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد میں‌ ان مسائل کے بارے میں‌ لکھنا چاہتا تھا جو مردوں کو پیش آتے ہیں۔ دوسرے لکھاری کے مقابلے میں‌ میری کہانی کچھ ذاتی ہے جس میں‌ میں‌ نے مس پرفیکٹ تلاش کرنے کے لیے دھکے کھائے۔ میں‌ خود ہی کئی سال سے اپنے لیے رشتہ تلاش کررہا ہوں جو کہ میرے لیے بھی کچھ آسان نہیں ہے۔

چونکہ یہاں بہت سارے مقامی دیسی لوگ نہیں‌ ہیں، اگر کسی کو اپنے پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کا رشتہ ڈھونڈنا ہو تو ان کو کسی ویب سائٹ پر جانا ہوگا۔ آج کل ایک نئی ایپ نکلی ہے جس کا نام مائنڈر ہے جس کے ذریعے آپ دوسرے لوگوں‌ سے مل سکتے ہیں۔ عموماً یہ کسی سے ملنے کے لیے ایک مشکل اور غیر عملی طریقہ ہے جس میں‌ دعا سلام کے بعد کچھ زیادہ بات چیت کرنے کے لیے نہیں‌ رہ جاتا اور تیسری یا چوتھی گفتگو موسم کی خبریں بتانے تک رہ جاتی ہے۔ میرے خیال میں‌ یہ بہت ضروری ہے کہ جب آپ کسی سے ملیں تو بات چیت کرسکیں، ساتھ میں‌ کھانے پر جائیں اور چند مہینے میں‌ ایک دوسرے کی اچھی بری عادات جاننے لگیں۔ یہ پرانے طریقوں سے کہیں بہتر ہے جو ہم دیسی فلموں میں‌ دیکھتے ہیں جن میں‌ لڈو کی میز پر رشتہ دیکھا جا رہا ہو جہاں‌ لڑکی چائے اور وہ ڈشیں پیش کررہی ہو جو اس نے پکائی ہوں۔ آج کل زیادہ لڑکے اور لڑکیاں‌ خودمختار ہیں، کالج جانے والے اسٹوڈنٹس آپس میں‌ بات چیت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو جاننے لگتے ہیں اور ایک دوسرے میں‌ دلچسپی لینے لگتے ہیں یا پھر وہ دوستوں یا خاندان کے توسط سے کسی سے ملتے ہیں جس کو وہ پسند کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ ایک لڑکا جاننا چاہتا ہے کہ لڑکی کی عمر کتنی ہے؟ وہ کتنی پڑھی لکھی ہے؟ وہ کون سی جاب کرتی ہے؟ یا دیکھنے میں‌ کیسی ہے بالکل ویسے ہی کوئی بھی لڑکی بھی یہی سب کچھ جاننا چاہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی چھوٹی یا بڑی وجہ سے ایک دوسرے کو شریک حیات بنانے کے طور پر پسند نہ کریں۔ لڑکی پسند نہ آنے کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے، تعلیم، مستقبل کے منصوبے، دانشوری یا اس کا نہ ہونا یا پھر اس کے سامنے کے دانتوں‌ کے بیچ کا خلا۔ شائد کوئی لڑکی کسی لڑکے کو اس لیے پسند نہ کرے کہ وہ میلا اور بدبودار ہے یا وہ بے ڈھنگے طریقے سے ہنستا ہے یا اس کی آواز بری ہے یا جسم بے ڈول ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جذباتی تعلق استوار نہ کرسکیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ بھی ایسا غلط نظر نہیں‌ آتا لیکن آپ ایسا محسوس نہیں کرتے کہ اس شخص کے ساتھ تمام زندگی گذاری جا سکتی ہے۔

میرے پاس ٹھکراؤ کی کئی کہانیاں‌ ہیں، کچھ میری طرف سے اور کچھ خواتین کی طرف سے۔ ایک مرتبہ مجھے کسی نے رشتہ بتایا۔ میں‌ نے اس لڑکی کو فون کیا، اس نے صرف ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے بعد پاکستان سے فیشن ڈیزائن کا کورس کیا تھا جس کے بعد وہ تین سال تک گھر پر بیٹھی رہی تھی۔ دوسرے لوگوں‌ کے بارے میں‌ میں‌ نہیں جانتا ہوں‌ لیکن امریکہ میں‌ کوئی نارمل انسان تین سال تک گھر بیٹھا رہے اور کچھ نہ کرے، یہ ایک لال جھنڈی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں‌ بات ختم کردیتا، اس نے اپنی تصویریں‌ بھیجیں۔ اگر خوبصورتی کا اسکیل ہو جو ایک سے دس تک ہو تو وہ آٹھ یا نو تھیں، یعنی بہت خوبصورت۔ اتنی خوبصورت کہ کسی کے بھی دل سے آواز نکلے کہ “بن جا تو میری رانی، تینوں‌ محل دواں دوں گا!” لیکن میرے جیسی معمولی شکل وصورت والے کی تصویر دیکھتے ہی انہوں نے فوراً مجھے اپنی امی کی طرف روانہ کر دیا کہ میری امی آپ سے بات کریں‌ گی۔ یہ اس معاملے کا اختتام تھا۔

ایک اسلام آباد سے آنے والی ڈاکٹر تھیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو شروع میں‌ ہی بات چیت سے فوراً پسند کیا۔ کچھ مرتبہ بات کرنے کے بعد میں‌ نے ان کو دعوت دی کہ فیس بک فرینڈ بن جاتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ اگلے دن انہوں‌ نےمجھے میسج بھیجا کہ میرا جسم بہت اچھا ہے۔ ظاہر ہے کہ میں‌ کوئی سلو نہیں‌ لیکن بہت گھنٹے خرچ کرکے محنت سے میں‌ نے وہ آٹھ پیک والا جسم بنایا تھا جس کو آئینے میں‌ دیکھ کر میں‌ پوچھتا تھا کہ “سب سے زیادہ سیکسی کون؟” لیکن وہ بہت ناراض تھیں‌ کہ میں‌ نے یہ فوٹو فیس بک پر لگا دیا اور ان کے خیال میں‌ پبلک میں‌ ایسا کرنے سے میری عزت لٹ چکی تھی۔ میں‌ نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں اور وہ مجھ پر اناٹومی پڑھ سکتی ہیں لیکن انہوں‌ نے کچھ نہ سنی اور اس بات پر مجھ سے تعلق توڑ لیا۔

کچھ عرصہ ہوا میرا ایک اور اسلام آباد کی 30 سالہ خاتون کے ساتھ آن لائن میچ ہوا۔ جب میں‌ نے ان کو اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے میسج بھیجا تو انہوں‌ نے ایک لائن کا جواب دیا کہ میرا وقت ضائع مت کرو! معاف کیجئیے گا خاتون! میرا وقت بھی آپ کے وقت کی طرح‌ ہی قیمتی ہے اور زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے جتنا بھی وقت لینا پڑے وہ لینا چاہئیے۔ یہی میرے لیے بھی بہتر ہے اور ان کے لیے بھی۔ شوہر تلاش کرنے میں‌ یہ کیسا پہلا جملہ ہے کہ میرا وقت ضایع مت کرو! یہ اس مختصر تعلق کا اختتام تھا۔

ایک اور پیاری لڑکی جو مسجد میں‌ کافی انوالوڈ تھی، اس سے ایک شادی والی ویب سائٹ کے ذریعے بات ہوئی۔ اس نے پہلا میسج مجھے یہ بھیجا کہ آپ کس عالم کو سنتے ہیں؟ ایک ملی سیکنڈ میں‌ میرا فیوز اڑ گیا۔ میرا فیوز تو پہلے سے ہی امریکی ملٹری آدمی ہونے کی وجہ سے چھوٹا ہے۔ میں‌ نے ان کو صاف صاف بتایا کہ مجھے کسی عالم کو سننے کی ضرورت نہیں‌ ہے۔ ہم خود تعلیم یافتہ ہیں۔ کسی بھی دن ہماری اپنی اخلاقیات ان عالموں‌ سے کئی درجہ بہتر ہیں۔ یہ لوگ انسانی حقوق کی پامالی پر کچھ آواز نہیں‌ اٹھاتے اور عوام کو پیچھے رکھنے میں‌ مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بدحالی اور پس ماندگی میں‌ ان ملا ٹولوں‌ کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میں‌ نے ان خاتون سے کہا کہ اگر آپ ایک شوہر تلاش کررہی ہیں‌ تو کیا یہ مزید مناسب سوالات نہیں‌ کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟ آپ کی کتنی آمدن ہے؟ یا آپ اپنے پارٹنر میں‌ کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ بجائے اس کے کہ آپ اس سوال سے شروع کریں‌ کہ کون سا ملا آپ کا بیسٹ فرینڈ ہے؟

ایک مرتبہ ایک لوکل انکل میرے آفس میں‌ کسی کام سے آئے جن کی ایک مکینک شاپ ہے جہاں‌ وہ اور ان کا بیٹا ساتھ میں‌ کام کرتے ہیں۔ انہوں‌ نے مجھے اپنی بیٹی کے لیے بتایا۔ وہ لڑکی بہت خوبصورت بھی تھی اور بہت تعلیم یافتہ بھی۔ وہ کارپوریٹ میں سی پی اے کے طور پر کام کررہی تھی۔ میں‌ تو اس کی تصویر دیکھ کر ہی لٹو ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اگر ہماری ایک دوسرے سے شادی ہوگئی تو بس پھر یہی ہوگا کہ”دل دیاں گلاں نال نال بے کے!” لیکن دشمن زمانہ! ان انکل نے مجھ سے کہا کہ اپنی ڈگریاں‌ دکھاؤ اور اپنے بزنس کے بارے میں‌ بتاؤ۔ میں‌ نے ان کو اپنا بزنس دکھایا جو ان کے سر کے اوپر سے گذر گیا۔ ان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ ای کامرس کیا بلا ہے؟ میں‌ نے ان کو اپنا بینک اکاؤنٹ اور اپنے بزنس کی انکم سب کچھ دکھایا بھی لیکن ان کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں‌ کرتا کیا ہوں؟ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد وہ میرے چھوٹے بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ ان کو بتائے کہ میں‌ کیا کرتا ہوں اور یہ کہ میرا اگلے پانچ سال کا کیا پلان ہے؟ میرا چھوٹا بھائی تو سات سال کا تھا جب ہم امریکہ آئے، وہ پورا امریکی ہے اور اس کو نہیں معلوم کہ دیسی لوگوں سے کیسے بات کرنی ہے۔ اس نے ایسے ہی اپنے طریقے سےالٹے سیدھے جواب دے دئیے۔ اب میں‌ یہ واقعہ یاد کرکے ہنستا ہوں اور اب جو بھی رشتہ آئے تو ان خواتین سے یہی کہتا ہوں‌ کہ وہ خود ہی اپنے والدین کو سمجھا دیں‌ ۔

یہ زندگی کے سارے واقعات اور باتیں‌ کتنی مزاحیہ نہیں‌ ہیں؟ یہ ہی اصلی زندگی کے حقائق ہیں۔ ایک اور دن آئے گا، آپ کسی اور سے بات کریں‌ گے۔ کیا معلوم کہاں‌ پر منزل ٹھہر جائے اور کیا معلوم کس بچاری کی قسمت میرے ساتھ پھوٹ جائے۔ روز پاکستان اور انڈیا سے خوفناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کہیں‌ انکار پر قتل ہوتے ہیں‌ کہیں‌ تیزاب کے حملے! ان تمام ٹھوکروں سے گذرنے کے بعد بھی میں‌ نے کبھی اپنی تذلیل محسوس نہیں‌ کی، نہ ہی کبھی میرے زہن میں‌ یہ خیال آیا کہ کسی پر تیزاب پھینکوں اور ان کو ان کی جگہ بتا دوں۔ وہ خود کو کیا سمجھتی ہیں؟

میں‌ کبھی کبھار سنتا ہوں جب میری امی اپنی کسی کزن وغیرہ سے بات کرتی ہیں۔ میں‌ دیکھتا ہوں‌ کہ لوگ کس طرح‌ سخت ناراض ہوجاتے ہیں‌ کہ ان کا رشتہ ریجکٹ ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں‌ کہ یہ خود کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ان میں‌ کوئی ہیرے جڑے ہیں؟ کیا وہ آسمان سے اترے ہیں؟ ان باتوں‌ پر پرانی دوستیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں‌ زیادہ تر شادیاں‌ جب ہوتی ہیں تو ابھی یہ نوجوان افراد اپنے ماں‌ باپ پر ہی انحصار کررہے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی رہ رہے ہوتے ہیں۔ کافی لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں‌ رہتے ہیں جہاں‌ سارا خاندان اپنی زلت محسوس کرتا ہے۔ ایک رشتہ کیا ٹھکرا دیا گیا، سب کے سامنے ناک کٹ گئی۔ یہ لوگ اس قدر طیش میں‌ آجاتے ہیں‌ کہ بندوق اٹھا کر قتل کرنے نکل پڑتے ہیں۔ کچھ کو سزا ملتی ہے، کچھ کو معاف کردیا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی بہت قیمتی ہے۔ ہم بس ایک بار ہی جیتے ہیں۔ خواتین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ جسے پسند نہ کریں‌، اس کے رشتے سے انکار کردیں اور جس کو بھی پسند کریں‌، اسی کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔ اگر آپ کو ٹھکرا دیا گیا ہے تو بندوق اور تیزاب کی طرف ہاتھ بڑھانے سے بہتر ہے کہ کہیں اور قسمت آزمائیں۔ دنیا بہت بڑی ہے اور سمندر میں‌ بہت مچھلیاں‌ ہیں۔ بقول اقبال،

ستاروں‌ سے آگے جہاں‌ اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں‌ اور بھی ہیں

 انگریزی سے ترجمہ: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).