جناب چیف جسٹس پاکستان- یہ قوم ہیرو بنا کر خاک میں ملا دیتی ہے


حضور والا، آپ کا اقبال مزید بلند ہو۔ کہنا ہے کہ جب آپ اپنے موجودہ عہدے پر فائز ہوئے تو خاکسار نے آپ کے لکھے دو ایک قانونی مقالوں کی بنیاد پر مسرت کا اظہار کیا تھا کہ ایک لیگل سکالر پاکستان میں عدلیہ کا سربراہ بن گیا ہے۔ اس وقت یہ گمان تک نہیں تھا کہ آج یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوں گا۔ آپ کی قانونی بصیرت کا مداح رہا ہوں سو اپنا حق سمجھتا ہوں کہ آپ سے کچھ شکوے کر لئے جائیں
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون ہے اور اس میں کیا شک کہ اس کا احترام ہر شہری پر واجب ہے لیکن اس احترام کی نوعیت طے کرنا ضروری ہے۔ جدید ریاست میں اس احترام کا مطلب عدالت کے سامنے ہر وقت عالم رکوع میں رہنا نہیں بلکہ عدالت کے فیصلوں پر بلا کم و کاست عمل کرنا ہے۔ ججوں پر اور ان کے فیصلوں پر تنقید کو توہین نہیں سمجھا جاتا۔ ہاں عدالت کے احکامات پر عمل نہ کرنا یا مقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنا توہین عدالت کا مرتکب ہونا گردانا جاتا ہے۔ ججوں پر جیسی تنقید راقم نے امریکہ میں دیکھی اس کا تصور بھی پاکستان میں ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس سکالیا کے عدالت میں ایک تبصرے کو نیو یارکرجریدے نے اپنی سرخی میں ”شرمناک“ لکھا۔ اور یہ تو ماضی قریب کی بات ہے کہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ جسٹس گنسبرگ کو میڈیا میں جعلی جج قرار دیا۔ ان ججوں کا جواب ایک با وقار خاموشی ہوا کرتا ہے، توہین عدالت کے نوٹس نہیں۔ توہین عدالت کا پاکستانی قانون سامراج کی نشانی ہے جسے برطانوی سامراج کے ساتھ ہی رخصت ہو جانا چاہیے تھا۔ درست کہ اس میں ترمیم حضور کا کام نہیں لیکن اس کا استعمال کرنا تو آپ ہی کا اختیار ہے۔ کاش آپ بھی ہر ایرے غیرے سیاست دان کی خرافات کا جواب ایک با وقار خاموشی سے دیا کریں

حضور، بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جج نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یہ بھی سنا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے سماجی رابطوں تک میں احتیاط برتتے ہیں۔ بزرگوں سے سنا کہ جسٹس کارنیلیس جیسے جج تو اخبار تک نہ پڑھتے تھے کہ کہیں کسی کالم نگار کی رائے کمرہ عدالت میں کسی ایسے کیس پر اثر اندازنہ ہو جائے جس کی وہ سماعت کر رہے ہوں۔ اگر کوئی جج کہیں خطاب بھی کرتا تو اپنی گفتگو کو قانونی نکات کی وضاحت تک محدود رکھتا۔ کمرہ عدالت میں معزز جج جرح کا کام وکلا کو کرنے دیتے اور اپنے ریمارکس کو اپنے فیصلوں کی زینت بناتے

کچھ عرصے سے کوئی ہی دن جاتا ہے کہ سرکار کے ارشادات اخباروں کی شہ سرخی نہیں بنتے۔ ہمیں یہ جواہرات چننے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اس طرح اپنا عوامی حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں تو پھر عوام کو اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں سرکار نے ارشاد فرمایا کہ آپ جمہوریت کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ آپ کا جذبہ انتہائی قابل تعریف ہے لیکن پھر مجھ جیسے نالائق طالب علم اگر یہ سوال اٹھائیں کہ کیا جمہوریت بچانا حضور کا کام ہے تو گستاخی ہو گی۔ کام تو ویسے جناب کا ہسپتالوں کے ہنگامی دورے بھی نہیں۔ وہ بھی نیکی ہی ہے لیکن میری کم فہمی کہ مجھے اس ادارے کے سربراہ سے ایسی توقع نہیں جس ادارے کا کام تمام ریاستی اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رکھنا ہے

میری اوقات تو نہیں لیکن لیکن میں جناب کو یاد دلاتا چلوں کہ بطور چیف جسٹس پاکستان آپ صرف منصف ہی نہیں ایک منتظم بھی ہیں۔ آپ جو درد پاکستان کا محسوس کرتے ہیں وہ ظاہر بھی ہے اور قابل تحسین بھی۔ حضور، آپ ایک ایسے ادارے کے سربراہ ہیں جو پھانسی پر جھول جانے والوں کو بعد از مرگ الزام سے بری کرتا ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں ناقابل شمار مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں شہری انصاف سے محروم ہیں۔ کاش آپ اپنی توجہ ان بیکار سے سیاستدانوں سے ہٹا کر پاکستانی عدالتی نظام پر مرکوز کریں۔ یقین کریں یہ نظام بہت دیر سے آپ جیسے مسیحا کے انتظار میں ہے۔

سرکار، میں قانون تو نہیں جانتا لیکن پاکستانی معاشرے اور اس کی حرکیات کا پرانا طالب علم ہوں۔ یہ بڑا موذی معاشرہ ہے جناب۔ یہ نہ خود ٹھیک ہونا چاہتا ہے نہ کسی اور کو یہ کام کرنے دینا چاہتا ہے۔ اس کی عادت ہے کہ جب بھی آپ جیسا کوئی ہیرا اسے نظر آئے جس میں کسی نظام کو درست کرنے کی جوہری صلاحیت ہو، یہ اسے ہیرو بنا کر بلی پر ٹانگ دیتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہیرو بنیادی درستگیاں کرنے کی بجائے تعریفیں سمیٹنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ ہیرو کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ وہ ہزاروں لوگوں کے سامنے ججوں کو گالیاں دینے والے کو بھلا کر پچیس تیس لوگوں کے سامنے دھمکیاں دینے والے سینیٹر کو توہین عدالت میں جیل بھیج دیتا ہے۔ وہ تارکین وطن کے ووٹ کے حق کا کیس سنتے ہوئے یکایک میموگیٹ کی فائل منگوا لیتا ہے۔ آپ کی ذہانت پر شک کرنا تو اپنی جہالت کا اظہار کرنا ہے لیکن آپ سادہ طبیعت معلوم ہوتے ہیں۔ یہ قوم کئی نابغوں کو آپ سے پہلے بھی اسی طرح بھٹکا چکی ہے۔ حضور کے پاس وقت کم ہے۔ اگر آپ جاتے جاتے اپنے ادارے میں بنیادی اصلاح کا کام شروع ہی کر جائیں تو یہ بہت بڑا احسان ہوگا۔ لیکن اگر آپ اس معاشرے کی دی ہوئی شہ پر ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے جیسے کاموں میں پڑے رہے تو یقین کیجیے ہماری قوم میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ کل کو کسی حکمران کو ہیرو بنا کر اس سے التوا میں پڑے ہزاروں مقدمات کے فیصلے کروانے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).