بالوں کی پیوندکاری اور اس کی پیچیدگیاں


ان دنوں سوشل میڈیا پر معروف سینئر اداکار ساجد حسن صاحب کی ایک ویڈیو شیئر کی جار ہی ہے۔ ان کےایک پرانے ڈاکٹر دوست، ان کو بالوں کی پیوندکاری کا کئی سال سے مشورہ دے رہے تھے اور دو ماہ قبل ساجد حسن صاحب نے بالآخر حامی بھر لی اور پروسیجر کرا لیا۔ اس کے بعد ان کو کافی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑا۔ اس سلسلے میں چند گذارشات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

ہیئرٹرانسپلانٹ یعنی بالوں کی پیوندکاری ایک انتہائی محفوظ سرجری ہے۔ ایک باقاعدہ تربیت یافتہ سرجن کے ہاتھوں اس سرجری کی پیچیدگیوں کا تناسب انتہائی کم ہے، لیکن یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کوئی بھی سرجیکل ٹریٹمنٹ نہیں جس میں سو فیصد کوئی بھی پیچیدگی کا امکان نہ ہو۔ سرجری کی پیچیدگیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ پہلی، ایسی پیچیدگیاں جن کا میڈیکل لٹریچر میں ذکر اور قابل قبول تناسب واضح موجود ہے۔ مثال کے طور پر آپریشن کے بعد سوجن، درد، خارش عام پیچیدگیاں ہیں اور لٹریچر میں ان کا ذکر موجود ہے۔ دوسری، ایسی پیچیدگیاں جن میڈیکل سائنس لٹریچر میں ذکر تو موجود ہے، لیکن انہیں عام اور بکثرت اکثر مریضوں میں نہیں دیکھا جاتا، مثال کے طور پر ہیئر ٹرانسپلانٹ کے بعد انفیکشن۔

گزشتہ دہائی میں، بالوں کی پیوندکاری ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ قانون سازی کا فقدان ہے۔ ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن، سب سے پہلے ایم بی بی ایس میں میڈیکل سائنس کی پانچ سال تعلیم حاصل کرتے ہیں، پھر ایک سال انٹرن شپ، پھر پانچ سال پلاسٹک سرجری کی اعلی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ، اور پھر اس کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اعلی اور مخصوص اسپیشلایزڈ ہیئر ٹرانسپلانٹ ادارے میں اندرون ملک یا بیرون ملک، تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پلاسٹک سرجن، بین الاقوامی اور قومی پلاسٹک سرجری ایسوسیشن کی میمبر شپ کے اہل بنتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ پھر ہر سال بلکہ سال میں کئی بار، اندرون ملک اور بیرون ملک ہیئر ٹرانسپلانٹ کانفرنس اور ورک شاپس میں شامل ہوکر اپنی مہارت اور جدید ترین ٹیکنالوجی میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں۔ یقیناً اس تمام تر پروسس سے گزرنے والے سرجن اپنی ماہرانہ خدمات کی اچھی خاصی فیس وصول کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ پلاسٹک سرجری یا کاسمیٹک سرجری ایک اختیاری یا شوقیہ سرجری ہے۔ لہذا یہ انشورنس سے کور نہیں ہوتی اور سرکاری اسپتال میں بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، حادثہ جیسے کہ آگ سے جھلسنا، بیماری یا پیدائشی نقائص کی پلاسٹک سرجری تمام بڑے سرکاری اسپتالوں میں مفت دستیاب ہوتی ہے اور پرائیوٹ اسپتالوں میں بھی پلاسٹک سرجرنز اس کی مناسب فیس لیتے ہیں لیکن یہ سہولت شوقیہ افراد کو دنیا میں کہیں بھی نہیں دی جاتی۔

جب بھی آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں تو سب سے پہلے یہ تسلی کرلیں کہ وہ ڈاکٹر باقاعدہ طور پر کوالیفائڈ ہے، اور پاکستان میں اپنی فیلڈ کی ایسوسی ایشن کا باقاعدہ میمبر ہے۔ ایک ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن جو کہ پاکستان ایسوسی ایشن آف پلاسٹک سرجرنز کا ممبر ہے، وہ باقاعدہ کوالیفائڈ ہوتا ہے، اسی طرح ہر اسپشلٹی کی ایسوسی ایشن موجود ہوتی ہیں اور ان کی ویب سائیٹس سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
محض کسی دوست، رشتہ دار کا کسی ڈاکٹر سے مطمئن ہونا کافی نہیں۔

اس وقت پاکستان کے اکثر شہروں میں ڈاکٹر حضرات جنہوں نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل نہیں کی، اور اسیسٹنٹ ٹیکنیشن، اپنی اپنی ہئیر ٹرانسپلانٹ دکان کھول کر بیٹھے ہیں۔ ایک پلاسٹک سرجن ایک لاکھ سے تین لاکھ تک فیس وصول کرتے ہیں، ٹیکنیشن اور نان کوالیفائڈ ڈاکٹر یہی کام پچاس ہزار میں کر دیتے ہیں، لیکن ان کی سرجری میں وہ کوالٹی نہیں ہوتی جو ایک پلاسٹک سرجن دیتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو پیچیدگیوں سے نمٹنے کی ٹریننگ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ساجد حسن صاحب کے کیس میں انفیکشن کی نشانیاں بہت جلد ظاہر ہوگئیں تھیں لیکن ان کا بروقت سدباب نہیں کیا گیا۔ یہ نان کوالیفائڈ ڈاکٹر اور ٹیکنیشن حضرات خاص طور پر اداکاروں اور کھلاڑیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں، تاکہ ان کی تصاویر کو اپنے اشتہارات میں استعمال کر سکیں۔

یاد رکھیں، ڈاکٹر سے سوال کرنا آپ کا حق ہے، اور آپ کے بنا سوال کیے بھی، سرجری سے متعلق تمام معاملات کی تفصیلات فراہم کرنا ڈاکٹر کا بنیادی اخلاقی فریضہ ہے۔

ڈاکٹر بلال فضل شیخ
کنسلٹنٹ پلاسٹک سرجن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).