ایران کو دشمن نہ بنائیں


\"wisiکہانی پرانی ہے۔ کئی ماہ پہلے مکران میں سیکیورٹی اداروں پر ایک حملہ ہوا ۔ کافی جانی نقصان ہوا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک فون کال پکڑی گئی ۔ جس میں کام ہو گیا ہے اب ادائیگی کریں کا مطالبہ تھا۔ تفتیشی اداروں نے اپنے زور بازو سے جان لیا کہ کال کرنے والے تو حملہ آور ہی تھے۔ کال جس کو کی گئی تھی وہ خلیجی ملک کا ایک شہزادہ تھا۔

جب سعودیہ فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا اسی خلیجی ملک کے وزیر نے پاکستان کے خلاف بیان بھی دیا۔ اس بیان کا جواب چوھدری نثار علی نے دے کر حساب برابر کر دیا تھا۔ خلیج کے اس شہزادے اور اس کے ابا جی کو سمجھ میں آ جانے والی زبان میں سمجھا دیا گیا تھا۔ آج کل وہ شہزادے پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے اظہار کے لئے بہت بے تاب ہیں۔

اگر یہ کہانی درست ہے تو اس حکمت عملی کی تعریف کرنا بنتی ہے۔ تعلقات خراب نہیں کئے گئے واضح ریاستی پیغام دے دیا گیا۔ میڈیا میں بات کھول کر برادر ملک کے ساتھ تعلقات ک داؤ پر نہیں لگایا گیا۔

پاکستانی اداروں نے ایک شاندار آپریشن کرتے ہوئے بھارت کا ایک جاسوسی نیٹ ورک توڑا ہے۔ جب ہم ہر وقت اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کو سوتن والے کوسنے دیتے ہیں تو یہاں ان کی کھل کر تعریف بھی کرنی بنتی ہے۔ کئی مہینے طویل ایک مشکل بہت ہی حساس انٹیلی جنس آپریشن کیا گیا۔ ایک معرکہ مارا گیا بلوچستان میں عسکریت پسندی شاید فوری طور پر ختم نہ ہو سکے لیکن انہیں ایک فیصلہ کن ضرب ضرور لگ گئی ہے۔

کلبھشن یادیو کے معاملے پر نواز حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھارتی سفارتکار کو بلا کر احتجاج کیا اس ایک کارروائی کے علاوہ حکومت کی جانب سے خاموشی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایرانی صدر کے ساتھ اس معاملے کو اٹھانے کے حوالے سے ٹویٹ کی۔ ایرانی صدر نے سوال پوچھے جانے پر اس کی تردید کر دی۔ جنرل باجوہ نے تردید سن کر دوبارہ ٹویٹ کر دی۔

اس کے بعد کلبھشن یادیو کے حوالے سے ہونے والی پریس کانفرنس میں دوبارہ جنرل باجوہ نے اپنی ٹویٹ  میں بیان کئے گئے اپنے موقف پر اصرار کیا ۔ ایرانی سفیر نے اس معاملے کو میڈیا میں بار بار لائے جانے پر اظہار ناپسندیدگی تو کیا ہی۔ سفارتی حوالے سے سخت لہجے میں یہ بھی کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ تعلقات خراب کر سکتا ہے۔ ایرانی سفیر کے بیان کے ساتھ ہی چوھدری نثار کے دفتر سے ایک بیان آ گیا ہے کہ ایران اس معاملے پر وضاحت کرے۔

جاسوس نیٹ ورک ہم نے بھارت کا توڑا ہے۔ تعلقات ہم ایران کے ساتھ داؤ پر لگانے جا رہے ہیں۔ جیسے خلیجی ملک کے ساتھ معاملات کو خاموشی سے طے کر لیا گیا تھا، اپنے مقاصد حاصل کر لئے گئے تھے، وہی اعتماد وہی دھیما پن اسی رازداری کے ساتھ معاملات ایران کے ساتھ بھی طے کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہوتی۔

نواز حکومت کی دھیمی پالیسی نے اگر فرسٹریشن بڑھائی ہے تو بھی یہ معاملہ ہمارا اندرونی ہے۔ ایک حساس معاملے کو ہم لوگ بلاضرورت میڈیا میں لے آئے ہیں۔ غیر ضروری طور پر ایران کے ساتھ سرکاری سطح پر بیان بازی میں ملوث ہو گئے ہیں۔

اس وقت افغان طالبان کے وفود بھی بار بار ایران کے دورے کر رہے ہیں۔ ان کے اہم لوگ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو نارمل کر رہے ہیں۔ طالبان ایران کی مذہبی سوچ کے مخالف ہی نہیں، متحارب بھی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بہتر ہوتے تعلقاات ایک خوشگوار پیش رفت ہے۔

پاکستان کو تسلیم کرنے والا ایران پہلا ملک تھا۔ ہمارے آپس کے تعلقات برے وقتوں میں بھی کبھی تصادم کی حد تک نہیں پہنچے۔ یادیو کے معاملے پر ایران کو پاکستان کے زیادہ قریب لانے کی ضرورت تھی۔ جبکہ ہم شاید اسے دور دھکیل رہے ہیں۔
یادیو معاملے نے پاکستان کو ایک بہت اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی سفارتی مہارت کے ساتھ اس معاملے کو اگر ڈیل کیا جائے تو انٹیلی جنس اداروں کی یہ کامیابی ہمارے خطے میں دیرپا امن کی نوید بن سکتی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments