ویلنٹائن اور یوم حیا کی جنگ


صرف ایک ہفتہ۔ اس کے بعد سوشل میڈیا سمیت شہر کے در و دیوار رنگ دیے جائیں گے۔ حیا ڈے، حجاب ڈے، پردہ واجب ہے اور اس طرح کی ہزاروں باتیں آپ کی نظروں سے گزریں گی۔ اس کی وجہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے؛ جی ہاں! کیوں کہ چودہ فروری یعنی ’ویلنٹائن ڈے‘ آرہا ہے۔ اس موقع پر وہ تمام منجن فروش جن کا منجن کہیں نہیں بکتا، ان کے فعال ہونے کی مثال نہیں ملتی۔

وہ ’مفتی‘ جو ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو دین سے خارج قرار دیتے ہیں، وہ خود چودہ فروری آنے سے پہلے اور چودہ فروری گزر جانے کے بعد، دوشیزاؤں کےجھرمٹ میں دکھائی دیتے ہیں؛ ایسے تمام کام انجام دیتے نظر آتے ہیں، جنھیں ویلنٹائن ڈے پر حرام یا مخرب الاخلاق قرار دیا جاتا ہے۔ جن کے پیچھے ہاتھ، ڈنڈے، گولی سب چل جاتے ہیں، سرخ لباس زیب تن کیے، سُرخ گلاب، چاکلیٹ اور ٹیڈی بیئر لانے والے خود خون سے سرخ ہوئے جاتے ہیں، لیکن کیا وہ اپنی یہ حسرت یا خواہش کسی اور دن پوری کریں تو تشدد کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟

محض ایک دن ہی پر پابندی کیوں؟ کیا شرم حیا ویلنٹائن ڈے پر یاد دلانا ضروری ہے؟ باقی 364 دن بے حیائی کی آزادی ہے؟

ہم یہ بات تسلیم کرنے کو کیوں تیار نہیں ہیں کہ جو کام حسن اخلاق اور بہتر رویوں سے انجام پاسکتا ہے، وہ نفرت انگیز نعروں اور زہر اگلتی باتوں کے باعث اپنی اہمیت اور وقعت کھو دیتا ہے۔ وہ مذہب جس کی اساس ’’لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّینِ‘‘ ہو، اس کے ماننے والے جب ڈنڈے، لاتوں اور گھونسوں پر آجائیں تو پھر کس طرح پیغام کی موثر ترسیل ممکن ہوسکتی ہے؟

ویلنٹائن ڈے کیوں منایا جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، سب سے پہلے یہ دن کس نے منایا یہ تمام باتیں ہر سال کی جاتی ہیں، مگر یہ بات مشاہدے میں ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والے بڑھ رہے ہیں، کم نہیں ہورہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

سائنس کا اصول ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اور جس شے یا بات کو بزور طاقت دبایا جائے، وہ ردعمل کی شدت سے پھٹتی ہے، باہر آتی ہے یا پھلتی پھولتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ تمام ’چیمپئن‘ زبانی جمع خرچ کی حد تک اعتدال پسندی دکھاتے ہیں، عملاً شدت پسند ہیں۔

’الراشی والمرتشی فی النار‘، کی گردان تو کرتے ہیں لیکن جیسے ہی مٹھی گرم کی جائے، چائے کے پیسے دیے جائیں یا ’انڈر دی ٹیبل‘ معاملات حل ہونے کی بات آئے تو کہتے ہیں، چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!

ہر وہ شخص جو ویلنٹائن ڈے کا سخت مخالف ہے اس کے لیے بہت عام سا فارمولا ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے پہلے اپنے گریبان میں جھانکے، گھر میں نظر دوڑائے، وسیع القلب ہوجائے یا وسیع المشرب۔

ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو خوشیاں اور محبتیں بانٹنے دیں، جیسا کہ وہ چودہ فروری کے علاوہ، دوسرے دنوں میں کرتے ہیں، اور جو خود کرتے ہیں وہ گھروالوں اور دُنیا والوں کو بھی کرنے دیں؛ آخر ویلنٹائن ڈے منانے میں حرج ہی کیا ہے!

غصہ، گالم گلوچ، مار پیٹ اور پابندی لگانے والے بھی اس دن کو منائیں؛ زرا مختلف انداز سے؛ گر اعتراض ہے بھی، تو پیار محبت ہی کی زبان میں، پیار کے لیے مخصوص دن منانے والوں کو روکیں۔ اس سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی نفرتیں کم ہوجائیں گی۔ ذاتی، دُنیاوی اور دینی معاملات خوش اسلوبی سے بہتر ہوسکیں گے۔

مجھے کامل امید ہے کہ اس پیغام کو عام کر دیا جائے، تو ویلنٹائن ڈے چھپ چھپا کر منانے والے مردوں کی مردانگی بھی عیاں ہو جائے گی اور تنقید کرنے والے بھی اپنی زبان تھکانے سے بچ جائیں گے۔

سید عون عباس
جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کیا ہے۔ گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ ریڈیو براڈ کاسٹر یاور مہدی صاحب کی فن و شخصیت پر ’’ہم کا استعارہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ سیاست، حالات حاضرہ، تعلیمی مسائل سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).