وارثانِ شہرِ حکمتؐ، بوجہل کیوں بن گئے


6 فروری 2018 کو ڈاکٹر خالد سہیل کے شائع ہونے والے کالم ” جب تبلیغی جماعت میرے گھر آئی ”کے چند نکات پر تبصرہ:

ہمیں اگرچہ روزانہ ہی سوشل میڈیا پر لبرلزم کے حامیوں اور ملائیت کے حامیوں کی باہمی چپقلش پڑھنے کو ملتی ہے تاہم گذشتہ کل 6 فروری کو تبلیغی جماعت والوں سے متعلق ڈاکٹر خالد سہیل کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ بہت دلچسپ تحریر اور بہت سے عنوانات اس ایک تحریر میں سمٹے ہوئے ہیں۔ تاہم اس جوابی کالم کے وسیلے سے فقط چار نکات بیان کرنا چاہوں گی ۔

1 ۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے مذہب پسند تبلیغی طبقے کو اس دنیا میں تیسری دنیا کے مسلمان ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے اپنی اس زندگی کے معاشی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ دینے کی بجائے ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کی آخرت کی اتنی فکر کیوں ہے؟ انہیں کیوں نہیں محسوس ہوتا کہ وہ تیسری دنیا کے ایک ایسے اسلامی ملک کے تبلیغی مولوی ہیں جو ملک پہلے متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا اور وہاں 900 سال تک مسلمان حکمرانوں نے بادشاہت کی پھر وہاں دو سو سال تک انگریز راج رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں انگریز سے آزادی پانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیئے الگ وطن حاصل کر لینے کے باوجود نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا ہنوز اس ملک میں کارو کاری، قرآن سے شادی، جہیز ، گداگری، کم سن بچوں کی بیرونِ ملک فروخت، منشیات ان سب معاشرتی برائیوں کے تدارک میں لا اینڈ آرڈر کا استعمال ایک خواب ہے۔ اس غیر ترقی یافتہ ملک کے مولوی جو کبھی پولیو مہم میں رکاوٹ بنتے ہیں تو کبھی انہیں ٹیلی وژن اور تصاویر سے متعلق تمام ایجادات حرام محسوس ہوتی ہیں۔ جہاں کے مولویوں کی اکثریت نے انیسویں اور بیسویں صدی ہی کے نامور علمائے دین سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ راشد الخیری، مرزا قلیچ بیگ،مولانا عبید اللہ سندھی، علامہ عنایت اللہ مشرقی کو پڑھنے کی معرفت تو کجا شاید ان وسیع الفکر علما کے نام بھی نہ سنے ہوں۔ پھر بھی ان مڈل پاس مولوی صاحبان کو اپنی فقط دو اسناد(یعنی عربی زبان پر مکمل عبور حاصل کیئے بغیر ہی قرآن کو عربی میں حفظ کر لینے، اور فقہ کو بھی فقط رٹا لگا کر یاد کر لینے)کی بنیاد پر امریکہ اور یورپ جیسے ان ترقی یافتہ ممالک میں اسلام کی تبلیغ کا شوق امڈ امڈ کر آتا ہے کہ جو ممالک مدت ہوئی اپنے ملکی نظم و نسق کو پادریوں اور یہودی اسقف کے بیان کردہ دینی قوانین کے تابع رکھنے کے بجائے قدیم علوم کی جدید ترین ارتقائی شکل کے نفاذ کو ریاست کی کامیابی کا ضامن مانتے ہیں۔لہذا انہوں نے مذہب کو ہر شخص کی ذاتی زندگی کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ اسے حکومت سازی کے لیئے لازم نہیں بنایا۔

لہذا ان تبلیغی مولوی صاحبان سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے ملک اس مذہب کی مکمل روشنی عام کریں اور مذکورہ معاشرتی برائیوں کا مکمل انسداد کریں تب جا کر ان معاشروں کو اسلام کی خوش خبری سنائیں جو کہ اسلام سے تو محروم ہیں لیکن انسان اور انسانی زندگی کو محفوظ اور باسہولت بنانے کے لیئے نت نئی ایجادات میں مشغول ہیں۔ اور جہاں صرف ان دو صدیوں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سریع ارتقا کی بدولت زرعی و معاشی انقلاب برپا ہونے سے ہی ایسا ممکن ہوپایا ہے کہ اب وہاں کے غریب ترین شہری بھی بھوکے نہیں سوتے۔ان کی یہ کامیابی خود ان کے اپنے ھدف اور مشن سے دیانتداری کا ثبوت ہے۔ بلاشبہ اپنی قوم سے مخلص ہونا ہی سب سے بڑی دیانتداری ہے۔

سعودی امداد سے پروان چڑھنے والے پاکستان اور افغانستان کے ان تبلیغی مولوی صاحبان کواگر تبلیغ ہی کرنی ہے تو جائیں اور یہی سعودی ریال ایتھوپیا کے افلاس زدہ عوام کا پیٹ بھرنے میں صرف کریں تاکہ وہ بھی اہلِ اسلام کا احسان مانتے ہوئے شکر گزاری میں اسلام کو سچا دین جانیں۔ خوشحال قوموں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ مڈل فیل مولویوں کی تقاریر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا سوچیں۔

2 ۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تخمینہ بیان کیا ہے کہ ”اس دنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسان ایسے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہے”۔۔۔۔ یہ بالکل سچ ہے لیکن اس وقت دنیا میں مسلمان بھی ایک ارب سے زیادہ ہیں۔ بلکہ وکی پیڈیا پر موجود شماریاتی رپورٹ کچھ اس طرح سے ہے۔

      مسیحیت  31.2 ٪

      اسلام  24.1%

      ہندو ازم 15.1%

  مادہ پرست/ملحد/ لادینیت / سیکولر 16%

      بدھ مت 6.9%

       روحانیت 4.19%

     افریقی قبائلی مذاہب 1.40%

     سکھ ازم   0.32%

     بہائیت   0.21%

     یہودیت  0.20%

ان کے علاوہ باقی ادیان زرتشت، جین مذہب، بدھ مت وغیرہ یہودیت سے بھی کم تناسب رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور اہلِ مسیحیت کو تو اپنے اپنے صحیفوں سے یہ تقویت ملی ہوئی ہے کہ قیامت سے قبل ہی ایک دن آئے گا کہ تمام دنیا پر صرف ان کے مذہب کا بول بالا ہو گا۔ اسی دھن میں یہ دونوں مذاہب صدیوں سے مذہبی تبلیغ میں سرکرداں دکھائی دیتے ہیں۔ ہندو ازم اور یہودیت میں غیر اقوام میں تبلیغ کے بارے میں ایسا تصور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اہل ہند اور اہلِ یہود نے کبھی دوسرے ممالک میں اپنے مذہب کے تبلیغی مراکز نہیں کھولے۔ محض عبادت خانے بنائے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ پچھلی چند دھائیوں میں لادینیت کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ ان کی تبلیغ دنیا کے تمام ادیان کو کھوکھلا اور جھوٹا ثابت کر کے بہت جلد لادینیت کا نفاذ تمام اذھان میں کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔حالانکہ ایسا جنون بالکل انہی جنونیوں جیسا ہے جو اسلام اور مسیحیت کے نام پر تبلیغ کرنے کو لگے ہیں۔ ہم کیوں نہیں اس بات کو تسلیم کر لیتے کہ دین کسی کمپنی کی پراڈکٹ نہیں ہوتی جسے جھوٹی سچی خوبیوں کا لیبل لگا کر مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ خریدار پیدا کیئے جا سکیں۔ دین کا تعلق روح سے ہوتا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جس کی روح عیسائیت کے سانچے میں مطمئین ہے اسے اسی سانچے میں رہنے دیا جائے اور جس کی روح اسلام کے لبادے میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے اسے اسی لبادے میں رہنے دیا جائے۔ ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے آبا کے دین پر رہے یا کوئی اور دین اختیار کرے یہ اس کی ذاتی فکر اور ذاتی فیصلہ ہے۔ لادینیت ہی اگردنیا میں اقوام کے ترقی و خوشحالی کا اصل سبب ہوتی تو افریقہ کے ایسے قدیم جنگلی قبائل بہت خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتے کہ جن کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

3 ۔ تیسرا نکتہ جس کو زیرِ بحث لانا ہے وہ ان دو سطور میں لکھا ہے کہ ۔”آپ پشاور کے ہیں، میں بھی پشاور میں رہا ہوں۔ میں پٹھانوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ میں نے ان سے مہمان نوازی سیکھی ہے۔ یہ اسی مہمان نوازی کا تحفہ ہے۔ میں انسان دوست ہوں۔ میرا آپ سے انسانیت کا رشتہ ہے اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں”۔۔۔۔۔۔۔ یقیناًیہ دو سطور ایک بہت بڑی حقیقت کی جانب اشارہ کر رہی ہیں اور اس حقیقت کا نام ہے ”تہذیب”۔روئے زمین پر چاہے شرق ہو یا غرب یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ علاقے جو کہ سرسبز و شاداب ہوتے ہیں وہاں کی تہذیب میں خوش اخلاقی اور مہمان نوازی ہوتی ہے۔ جارج ایلیٹ کے ناول آدم بیڈ میں بھی دو دیہاتوں کی کہانی ہے جس میں سے ایک دیہات کے باشندے خوش مزاج بتائے گئے کیونکہ وہ شاداب علاقہ پر مشتمل تھا اور غربت کم تھی جبکہ دوسرے دیہات کے لوگوں کے مزاج میں خشکی اور سرد مہری تھی کیونکہ وہ نسبتا بنجر اور غریب دیہات تھا۔ لہذا انسانیت، محبت اور خوش گواری وہیں دکھائی دے سکتی ہے جہاں بھوک و افلاس ابھی اس حد تک نہ پہنچی ہو کہ اس کے نتیجے میں منفی سوچ اور جرائم عام ہو جائیں۔اور یقیناًانسانوں کے اس رویئے کا تعلق مذہب سے ہر گز نہیں۔

4 ۔ چوتھا اور آخری اہم نکتہ یہ ہے کہ جب ڈاکٹر خالد سہیل نے ان مولوی صاحبان کے تبلیغی ہونے کے باوجود ان کو اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کی کسی بھی مذہبی سرگرمی میں مداخلت نہیں کی تو پھر اگلے دن جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا اعتراف کیا کہ وہ کسی دین کے مقلد نہیں ہیں گویا ان تبلیغیوں کی نگاہ میں کافر ہیں۔ تو وہی مولوی صاحبان جو کہ پاکستان میں فوراََٹھک سے یہ فتوی لگانے میں دیر نہیں کرتے ہیں کہ کافر واجب القتل ہوتا ہے۔ حتی کہ مدرسے کے ننھے بچوں کو بھی یہی خود ساختہ تعلیم دے کر پروان چڑھاتے ہیں کہ کافر موذی ہوتا ہے لہذا واجب القتل ہوتا ہے اسے جہاں دیکھو وہیں مار دو۔اب وہی مولوی صاحبان کنیڈا جیسے ملک میں اس فتوے پر خود عمل پیرا ہونے سے گھبرائے کیونکہ وہاں لا اینڈ آرڈر کا معاملہ پاکستان کی راشی پولیس کا مرہونِ منت نہیں جہاں رشوت دے کر قاتل اور تخریب کار کی مذہبی پشت پناہی کی سبیل بن سکے۔ لہذا ان تبلیغی حضرات نے فوراََحضرت موسی ؑ کی والے واقعے کو سنا کر، فتوی بازی سے پرھیز رکھنے کو ہی غنیمت جانا۔ ان مولوی صاحبان کی دائیں جیب میں اگر غریب عوام کو الجھانے کے لیئے ہر وقت خود ساختہ شرعی فتوے موجود ہوتے ہیں تو بائیں جیب اپنی گلو خلاصی کے لیئے بھی ایسے سینکڑوں واقعات تیار ملیں گے جو تصوف، درگزر اور بردباری کا ابلاغ کرتے ہوئے ان کو کسی مشکل میں مبتلا ہونے سے بچا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).