پیار کا دن منانے پر پابندی



پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی نے تمام میڈیا چنیلز، ریڈیو اور اخبارات کو خبردار کیا ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کےعالمی دن کے حوالے سے کچھ بھی نشر نہیں کریں گے۔ جس میڈیا ادارے نے حکم کی خلاف ورزی کی یقینی طور پر اُس ادارے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ نوٹیفیکیشن ہائیکورٹ میں دائر ہونے والے رٹ پیٹشن کے بعد کیا گیا ہے۔ جوکہ عبدالوحید نامی شخص نے دائر کیا ہے کہ کچھ عرصہ سے ملک بھر میں ویلنٹائن ڈے منانے کی روایت بن رہی ہے جس میں میڈیا کا بڑا کردار ہے اور اسی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ اور لوگ اس دن کو تہوار کی طرح منا رہے ہیں۔ ہائیکورٹ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اب میڈیا پر محبت کے عالمی دن کی کوئی تشہیر نہیں ہوگی۔

اس فیصلے کے بعد میڈیا کی جو دکانداری ہونی تھی وہ بند ہوگئی۔ رپورٹرز نے جو اس دن کے لئے منصوبہ بندیاں کی تھیں کہ اس دن کے حوالے سے اس اینگل پر پیکیج بنایا جائے گا۔ اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اب کوئی بھی نیوز اس حوالے سے نہیں چلےگی۔ اخبارات اس دن کے حوالے سے جو سپلیمنٹ شائع کرتے تھے وہ اب شائع نہیں ہوں گے۔ سب سے زیادہ نقصان اشتہارات کی دنیا کے سیٹھوں کا ہوا۔ کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس حوالے سے اشتہار بازی کرتی تھی۔ اب کسی چینل پر کوئی اشتہار نہیں چلے گا۔ جس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا آوٹ لیٹ کو بھی نقصان پہنچ گیا ہےاور یہ کوئی لاکھوں کا نہیں ہر ادارے کے لئے کروڑوں کا نقصان ہے۔ جس پر ایک شخص نے سوچا اور دیگر کا کروڑوں کا نقصان کر ڈالا۔

دیکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں میڈیا کی پروموشن کے باعث ویلنٹائن ڈے کو اب ہر کوئی جاننے لگا ہے۔ جب مشرف نے میڈیا کو بے لگام آزادی دی تو اس کے منفی اثرات میں یہ عنصر بھی نمایاں ہوا کہ میڈیا کی پروجیکشن کے باعث ہمارا کلچر غیر ملکی ثقافت کے سامنے ڈھے گیا۔ ہم نے مغربی ثقافت اور انڈین ثقافت کو اپنی ثقافت میں مدغم کر لیا۔ نئی میڈیا کی جہتوں نے ثقافت کا ستیا ناس کردیا۔ وہ سب کچھ ہمارے کلچر میں اگیا جو ہمارا حصہ نہیں تھا۔ شلوار قمیص کی جگہ جینز اور پینٹ شرٹ نے لے لی۔ لڑکوں میں اس کا استعمال تو پہلے سے تھوڑا بہت تھا مگر اب ہر اردگرد نظر دوڑائیں لڑکیوں نے بھی جینز کا استعمال شروع کردیا ہے حالانکہ آج سے دو دہائی قبل اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب لڑکیاں کالجز اور یونیورسٹیوں میں قیمص کے ساتھ جینز پہننے لگی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے تعلیمی اداروں میں منانے کی روایت بنادی گئی ہے۔ اور جواز یہ بنایا جاتا ہے کہ محبت تو کسی سے بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ والی محبت نہیں جو سینٹ ویلنٹائن نے کی تھی۔

اس دفعہ ویلنٹائن ڈے پر سرکاری کوئی پروگرام نہیں ہوگا نہ ہی پبلک مقام پر کوئی ایونٹ ہوگا۔ مگر پھر بھی یہ دن ملک بھر میں چپکے سے منایا جائے گا۔ منچلوں نے اس دن کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیے ہوں گے۔ پریمی جوڑوں نے ڈنر اور لنچ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے منصوبہ بندی کی ہوگی۔ مری، اسلام آباد، نتھیاگلی، سی ویو اور دوسرے پکنک اسپاٹ پر پریمی جوڑے دنیا ومافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم ہوں گے۔ محکمہ موسمیات نے بھی انہی دنوں بارش کی نوید سنادی ہے جس سے مزہ دوبالا ہوجائے گا تو پریمیوں کو پھر ہائیکورٹ کے فیصلے سے کیا لینا دینا۔ جب موسم بھی ظالمانہ ہو اور پھر جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ جب ہمارے بڑے بڑے لیڈر ہائیکورٹ اور قانون کو نہیں مانتے۔ اربوں کی کرپشن پر دندناتے پھرتے ہیں۔ پھر ویلنٹائن ڈے منانے پر گرفتاری اگر عمل میں لائی جاتی ہے تو پریمیوں کے ساتھ زیادتی ہی گردانی جائے گی۔ میرے خیال میں تو میڈیا پر اس سال پروموشن پر پابندی لگ گئی ہے مگر اس دن کی اتنی تشہیر گزشتہ برسوں میں ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اب یہ دن ہمارے تہواروں کی طرح یاد ہو گیا ہے جس کا وہ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ اس سال بغیر پروموشن کے چھپ چھپ کر یہ دن منایا جائے گا۔ کیونکہ پاکستانی قوم کو جس چیز سے منع کیا جاتا ہے وہ وہی کام کرتی ہے۔ اب پیمرا کے احکامات پر اور ہائیکورٹ کے فیصلے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کے لئے چودہ فروری تک انتظار کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).