ہم  کچھ بھی نہیں کہتے، شاد رہیے


\"bakht\"سن بلوغ سے قبل ہی مدرسے کی آغوش میں چلاگیا۔ دس گیارہ سال کیسے کٹے اب سوچتا ہوں تو چند لمحوں کی داستان لگتی ہے ۔ اساتذہ اور ساتھیوں کی محبت آج بھی سینے کے پہلو میں محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے  میں نے ہر بارجاتے جاتے ماں کے چہرے آنسووں کی لڑیاں بہتے دیکھیں ۔ آنسووں اور دعاوں کی برسات میں ماں ماتھا چوم کر سینے سے لگاتی اور رخصت کرتی ۔ والد صاحب بیگ کندھے پر اٹھائے بس اڈے تک ساتھ چلتے ۔ ماوں کو اظہار کا سلیقہ آتا ہے وہ اپنا سب کچھ دعاوں اور آنسووں کی زباں میں کہہ ڈالتی ہیں۔  باپ ایسے نہیں ہوتے ، ان میں مردانہ رکھ رکھاو کہیں نہ کہیں ہوتا ہے۔ خداکی قسم ہر ہربار ان کی آنکھوں کے کناروں میں نمی تیرتی نظر آئی مگر گاڑی چلنے تک کچھ گم سم سے ساتھ بیٹھتے ۔ گاڑیوں کی ٹائمنگ ، گاڑی کی کنڈیشن اور دیگر چیزوں پر بات کرتے ، گاڑی چلنے لگتی تو سینے سے لگاتے جیب خرچ کا پوچھتے کم تو نہیں دیا؟ جاتے ہی فون کردینا میں پڑوسی کے رستم خان سے کہہ دوں گا فون آئے تو ہمیں اطلاع کردے ۔ اور پھر گاڑی چلنے لگی ….

یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی محبتوں کے سندیسے بھیجنے کا دور ختم نہیں ہوا تھا ۔ چٹھی بھیجنے کا صدیوں پرانا نظام قائم تھا ۔ کاغذ پر پوروں کی لمس محسوس ہوتی تھی ۔ کاغذ کی ہر تہہ میں ماں کا پیار بھرا نظر آتا تھا۔ کتابوں میں خشک پھولوں کے ساتھ خطوں کے تہہ در تہہ لفافے اور ورقے بھی برآمد ہوتے تھے ۔ ایسے کچھ ساتھیوں کے خطوط آج بھی کسی یاد گار کی طرح میرے پاس محفوظ ہیں ۔ پرانی کتابوں کا انبار ادھیڑوں تو شاید اپنے ایک شیعہ دوست کے خطوط آج بھی مل جائیں جو کبھی ہمارے محلے میں ہوا کرتا تھا ، یہ خط مدرسہ جانے کے بعد انہوں نے مدرسے کے پتے پر پوسٹ کیے تھے ۔  برقی میسج کے دوروالے کیا جانیں جگجیت کی آواز میں \”چٹھی نہ کوئی سندیس ، جانے وہ کونسا دیس ، جہاں تم چلے گئے \”کا اصل سرور ۔ جدید دور کی سہولیات اور تیز رفتار دنیا کی اپنی ایک شان ہے مگر کلاسیکل محبتوں کا اپنا ایک ذوق ہوتاہے ۔

 …. خیر گاڑی چلتی رہی ، دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے رہے ۔ مہینوں سے سال بنے اور چند برس کا سفر دیکھتے دیکھتے ختم ہوگیا۔زمانہ طالب علمی کے دن بہت یاد گار ہوتے ہیں ۔ طرح طرح کی شرارتیں سوجھتی ہیں اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے ہیں ۔ ہم نصابی وغیر نصابی سرگرمیاں اور شرارتیں تقریبا ہر نوجوان کے من میں بھری ہوتی ہیں ۔ دوستیاں اور گروپ بندی ، ناراضگیاں اور پارٹیاں سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ مدرسے کے سالانہ پروگرام کا جیسے ہر طالب علم کو انتظار رہتا تھا ۔ تقریری اور تحریری مقابلے تو ہوتے ہی تھے مگر جب رات کو بزم ختم ہوتی ، انعامات کی تقسیم اور مہمانوں کی واپسی ہوجاتی تب کوئی ایک طلباء کا گروپ کسی جگہ کو ٹھکانہ بناکر مزاحیہ کھیل اور تماشوں کا پروگرام بناتا ۔ رات گئے تک ہنسیوں اور قہقہوں کے طوفان اٹھتے ۔ چند ایک باذوق طلبہ طرح طرح کے مزاحیہ ڈرامے پیش کرتے جب کہ باقی طلبہ ارد گرد بیٹھے لطف اندوز ہورہے ہوتے ۔ وہ ہمارے ابتدائی سال تھے جب بڑے طلبا  نے طرح طرح کے کھیلوں کے ساتھ فٹ بال میچوں کا بڑا انوکھا سیریز منعقد کیا تھا ۔ اس سیریز میں ایسے میچ بھی کھیلے گئے جو مدرسے کی دوایسی طلبا ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جس میں چن چن کر مدر سے کے موٹے پہلوان طلبا  کو لیا گیا، اس دن ہنسی قہقہوں کے تو عجیب دور چلے  ۔ ایک میچ انتہائی تیز طرار اور دبلے پتلے طلباء کے دو ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا ۔ اس دن کھیل کی دلچسپی دیکھنے کو ہوتی ۔ طلباء ٹیموں کے یہ انوکھے میچ اتنی دلچسپی کا باعث ہوتے کہ اس دن عصر کو لوگ گراونڈ میں اپنا کھیل چھوڑ کر طلبا  کے میچ سے محظوظ ہوتے ۔

ادبی سرگرمیوں کا اپنا مزا ہوتا تھا ۔ تین سال تک طلباء کی وال میگزین کی ادارت کی جس پر ہمیں اساتذہ کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ تحریری مقابلوں میں خود بھی حصہ لیا جس میں دو بار پوزیشن بھی لی اور ساتھیوں کے لیے الگ الگ تحریری مقابلے بھی منعقد کروائے ۔ آخری سال جب مادر علمی میں آخری ایام تھے وال میگزین کا آخری شمارہ ہم نے الوداعی نمبر نکالاتھا ۔ اس دور کے شوق بھی نرالے ہوتے تھے ۔ خوب اہتمام اور دلچسپی سے میگزین تیار کیا ، رات بھر ڈیزائنر اور دوسرے کام والے ساتھیوں کو کام پر لگائے رکھا ۔ پھر وہ تو جاکر سو گئے مگر میں نے جب  میگزین کو حتمی شکل دے کر آویزاں کیا تو صاحبو !فجر کی اذاں شروع ہوگئی ۔ فجر کی نماز تک کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹا اور پھر نماز کے بعد سالانہ بڑے انجمن کی تیاریوں کے کام میں جت گیا ۔ کھانے پینے کے معاملے میں تو کراچی کی نہاری اور بریانی کا ذائقہ کبھی بھلائے نہیں بھولتا، یہاں کوئٹہ میں بھی بریانی مل جاتی ہے اچھے اچھےپکوان چھان مارے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی ۔کبھی کبھی سڑکوں کی آوارہ گردی کو نکل جاتے تو ناظم آباد کی نہاری کھانے ضرور جاتے ، بارشوں میں قریبی شیعہ آبادی میں جاکر سموسے ، چاٹ اور پکوڑے کھاتے ، پٹھانوں کے ہوٹل میں چائے پیتے اور پھر واپس آجاتے  ۔ پشاور کا اپنا ایک ساتھی شعر شاعری کا خاص ذوق رکھتا تھا ۔ بھیگے موسم میں وہ ایک خاص ترنگ میں ہوتے ، چائے کا کپ ہاتھ میں لیے مجنونانہ سے قہقہے اٹھاتے ، غالب کے چیستان والے اشعار انہیں خاص پسند تھے ۔ ساتھ بیٹھنے والے دوستوں میں سبھی شعر وسخن سے دلچسپی رکھتے تھے ۔ اشعار پر اشعار کا دور چلتا ۔ ایک بار ان کی چائے کے کپ سے تھوڑی سی چائے گری تو ہم نے برجستہ کہا\” فل لارض من کاس الکرام نصیب\” ) عزت اور شرافت والے لوگوں کے جام میں سے زمین کا حصہ بھی ہوتا ہے (۔ یہ زمانہ جاہلیت کے عرب سرداروں کا مشہور مقولہ تھا جب وہ مے نوشی کے سرور میں جام الٹ کر زمین پر گراتے اور کہتے عزت دار لوگوں کے جام میں زمین کا بھی حصہ ہوتا ہے ۔ اس جملے پر تو محفل کشت زعفران بن گئی ۔

اس سنہرے دور کے یہ واقعات  ذرا تفصیل سے اور مزے لے کر لکھنے لگوں تو شاید درجن بھر قسطوں میں احاطہ نہ ہو۔ چند ایک واقعات کا اجمالی تذکرہ اس لیے آج نوک قلم پر آیا کہ گذشتہ دنوں ایک دوست  کا مدارس کے ماحول کے حوالے سے انتہائی  مایوس کن نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ۔ اور آخر ی الفاظ تو طبعیت صاف کرنے کے لیے کافی تھے .انہوں نے \”سالا مولوی\” کہا۔  ہم کچھ بھی نہیں کہتے، شاد رہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments