چیف جسٹس اور مطیع اللہ جان میں مکالمہ


صحافی مظہر اقبال نے عدالت میں کہا کہ یونین کا صدر ہوں، چیف جسٹس صاحب، آپ کے شکرگزا ر ہیں کہ اس معاملے (تنخواہوں) پر ایکشن لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ہمارا کام ہے، کسی کو شکرگزار ہونے کی ضرورت نہیں۔ صحافی مظہر نے کہاکہ ہم اس نوٹس کے لئے شکرگزار ہیں جو گزشتہ روز میڈیا اداروں سے تنخواہوں اور بقایاجات کے بارے میں لیاگیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تو شکرگزار ہیں، وحید مراد تو کچھ اور لکھتا رہتا ہے، کہاں ہے وحید مراد؟

چیف جسٹس کے سامنے لگے صحافیوں کے ہجوم سے دور بائیں طرف دیوار کے قریب کھڑے وحید مراد نے کہاکہ ’آئی ایم ہیئر سر‘۔ (میں اس طرف ہوں)
چیف جسٹس نے کہاکہ آجائیں، یہ کیا لکھتے رہتے ہیں؟ آپ نے لکھا ہے کہ ججوں کی پھرتیاں، کیا لکھنا ایسا ہوتاہے؟ مجھے تو اداکار وحید مراد کے نام سے یاد آیا۔
وحید مراد نے جواب دیاکہ سر، وہ سوشل میڈیا ہے، کوئی ٹوئٹ ہوگی، سوشل میڈیا پر تو لوگ لکھتے رہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیاپر کچھ بھی لکھ دیا جائے، ججوں کی بے عزتی کی بھی اجازت ہے؟ پریس ایسویسی ایشن والے کہاں ہیں؟ وحید مراد کی ٹوئٹ کو دیکھیں، کیا یہ لکھناجانا چاہیے؟ ہم تو عدالت میں داخلے پر پابندی بھی لگا سکتے ہیں، ابھی کچھ نہیں کہیں گے، صحافیوں کو یہ خود دیکھنا چاہیے۔ وحید مراد نے کہاکہ جناب، ٹھیک ہے دیکھ لیں، جیسے آپ سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ طیب بلوچ، آپ آجائیں۔ صحافی مظہراقبال نے کہاکہ ہم اس کے لئے معذرت کرتے ہیں۔

صحافی طیب بلوچ نے کہا کہ وحید مراد، نیوزون ٹی وی کے لئے کام کرتے ہیں، اور ان کی ویب سائٹ ہے پاکستان 24، اس پر یہ لکھتے ہیں، تبصرے، آرٹیکلز اور خبروں میں گزشتہ کافی عرصے سے تسلسل کے ساتھ عدلیہ کو تضحیک کانشانہ بنارہے ہیں۔ کچھ لوگ ایجنڈے پر ہیں، ان کا کام ہی عدلیہ پر تنقید کرنا ہے۔ ہم نے اس پر ایکشن لینے کے لئے بھی کہا ہے۔

اسی دوران صحافی مطیع اللہ جان روسٹرم پر آئے، اپنا تعارف کرایا اور بولنے کی اجازت چاہی۔ پھر انگریزی میں بولے کہ سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن صحافیوں کی نمائندہ تنظیم نہیں ہے، اس کے پاس کسی صحافی کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی اختیارنہیں، یہ کام یونین کا ہے۔ عدالت کو اگر کسی خبر سے مسئلہ ہے تو یونین کو کہے، یا پھر پیمرا، پریس کونسل پاکستان کوشکایت کی جاسکتی ہے، ہم صحافی ہیں کوئی پولیس کے اے ایس آئی نہیں، جس کو ابھی کچھ دیر قبل اس عدالت نے معطل کردیا، ہمیں اس طرح عدالت سے اٹھا کر باہر نہیں پھینکا جاسکتا۔ بائیس سال سے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہ آپ کس طرح، کس لہجے میں عدالت کو مخاطب کر رہے ہیں، میں ابھی آپ کو توہین کا نوٹس جاری کرتا ہوں۔ ہم نے کب کسی پر پابندی لگائی؟ کیا بات کررہے ہیں آپ۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ سر، آپ نے وحید مراد پر پابندی لگانے کی بات کی، یہ ہراسمنٹ ہے جو عدالت میں ابھی کی گئی، عدالت کسی صحافی کو اس طرح ڈرا نہیں سکتی، یہ دباؤ ڈالا گیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جو شخص بھی عدالت کا احترام نہیں کرے گا، ہم اس کو تھرون آؤٹ کرسکتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے کہاکہ اس طرح نہیں کرسکتے، عدالت کے پاس قانون ہے، کسی کو بھی نکالے تو قانون کے مطابق کرے۔ میں نے کوئی توہین عدالت نے کی، ہم صحافی ہیں اور عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، میرے کسی لفظ یا جملے میں کوئی توہین آمیز بات نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کسی پر کوئی پابندی نہیں لگائی، ہم تو یہاں آپ کی فلاح کا کام کررہے ہیں۔ اسی دوران طیب بلوچ دوبارہ آگے بڑھ بولے کہ مطیع اللہ جان کو گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کیاہے، یہ ان کا وطیرہ ہے، اس طرح کے لوگ ہیں۔ یہ ایک امریکی تنظیم (کوئی نام لیا) فنڈنگ کرتی ہے عدلیہ کے خلاف مہم کے لئے۔

مطیع اللہ جان نے کہاکہ یہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے اس پر تبصرہ نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ مطیع اللہ جان کا اس معاملے سے کیا تعلق؟ میں ابھی ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا ہوں، ابھی، اسی وقت۔ میں نے تو مراد صاحب سے بہت پیار سے پوچھا۔ ہنس کر بات کی۔ مطیع اللہ جان کو مجھ سے کوئی پرانا ایشو ہے، ان کو خود بلاکر پیار کیا ہے، سلیم شہزاد کمیشن میں چھوٹے بھائی کی طرح پیار دیا۔ ہمیشہ عزت دی ہے، انہوں نے مجھ پر الزام بھی لگایا، میرے بارے میں لکھا، میری فیملی پر لکھا، میری بیٹی کے بارے میں بھی لکھا، ہم نے اگر آپ لوگوں کو عزت دی ہے، اس طرح آپ لوگو ں سے عدالت کی بے عزتی نہیں کرائیں گے، صحافیوں کو بہت عزیز رکھتا ہوں۔

اسی دوران اینکر سمیع ابراہیم نے کہاکہ ہم اس پر معذرت چاہتے ہیں، اس سب کا تعلق پاکستان کی سیاسی صورتحال ہے، اس وقت عدلیہ کے بار ے میں اس طرح باتیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مطیع اللہ جان میرا چھوٹا بھائی ہے، اس کو عزیز سمجھتا ہوں۔ عدالت میں بول ٹی وی سے منسلک سینئر صحافی نذیرلغاری نے کہاکہ چیف جسٹس صاحب، آپ نے سب کو سن لیا، جس شخص کے خلاف حکم جاری کیا اس کو بھی سن لیں۔ ہمارے خلاف دیگر چینلز پروپیگنڈا کریں گے، دیگر میڈیا مالکان بول کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، عدالت کرم کرتے ہوئے ای سی ایل سے نام ہٹا لے۔ سمیع ابراہیم نے کہاکہ بول کا ڈائریکٹر نیوز ہوں، یقین دلاتاہوں کہ شعیب شیخ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ نام ای سی ایل سے نکالیں۔ ورنہ میڈیا ٹرائل ہوتا رہے گا۔

عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ عدالت اپنا لکھوایا ہوا حکم کیسے واپس لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے ابھی دستخط نہیں کیے، ہم نے خود سے شامل کرایا، واپس بھی لے سکتے ہیں۔ اینکر نے کہاکہ میڈیا ٹرائل سے بچنے کے لئے یہ ضرروی ہے، عاصمہ جہانگیر کو بھی معلوم ہے کہ میڈیا ٹرائل کیا ہوتا ہے، ان کا بھی ہوتارہاہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ میرا میڈیا ٹرائل ہوتا رہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر عدالت تو میڈیا ٹرائل نہ شروع کرے۔ میرا خیال ہے کہ یا تو رپورٹروں کو سن لیں یا پھر وکیلوں کو سن لیں۔ یہ تو اب عدالت میں میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ یہ سادہ کیس نہیں ہے، جس طرح کراچی میں ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر(سرکاری وکیل استغاثہ) مستعفی ہوتے رہے، جس طرح بیرسٹر جمیل کو دباؤ سے ہٹایا گیا، عدالت اس کو بھی دیکھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تمام چیزیں میرے علم میں ہیں۔ جو بھی بھاگے گا جائے گا کہاں۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کے رپورٹر عقیل افضل نے بولنے کی اجازت چاہی اور کہاکہ عمومی بات کروں گا، مطیع اللہ یا وحید مراد کی نہیں۔ ہم میں سے جس سے بھی غلطی ہوتی ہے تو میڈیا کے کمرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، آج بھی ایک اخبار نے آپ کی غلط خبر شائع کی ہے اس پر صبح سے اپنے گروپ میں تنقید کررہے ہیں، میں اس اخبار کا نام نہیں لوں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں اس کا نام لیتا ہوں، جنگ اخبارکی سرخی غلط ہے، وہ بات عاصمہ جہانگیر نے کی تھی جو مجھ سے منسوب کی گئی، میں نے کبھی نہیں کہا کہ پارلیمان آزاد نہیں۔
اس کے بعد کچھ دیر شعیب شیخ نے بات کی اور عدالت نے بول ٹی وی کے اینکر وں کی درخواست پر ملزمان کے ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں کا حکم تبدیل کرلیا۔
بشکریہ پاکستان 24


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).