نیپال میں حیض والی عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے


میں ہمیشہ پاکستانی معاشرے کی روایتوں سے شکوہ کناں رہی، جس میں عورت اور عورت سے منسلک تمام معاملات بے جا شرم اور حیا کے پردے میں لپیٹ کر ایک راز کی طرح رکھے جاتے ہیں۔ جن معاملات پر اللہ اور اس کے نبی صل اللہ و علیہ والہ وسلم نے کھل کر تعلیم دی ان معاملات پر عورتوں کا بولنا اور سوال کرنا رسوائی کا سبب جان کر زبان پر قفل لگا دیا جاتا ہے۔ اس خاموشی سے میں نے کتنی ہی لڑکیوں اور عورتوں کو شدید ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار پایا ہے، مگر میں بھی کیوں کہ کل تک انھی روایتوں کے ہاتھوں مجبور تھی، چناں چہ سوائے صبر کے دوسرا چارہ نہ تھا۔ اب سوچا کہ اس معاملے پر کچھ لکھوں تو پہلے جاننے کا تجسس ہوا کہ حیض یا ماہواری سے متعلق دنیا بھر میں کیا کیا روایتیں موجود ہیں اور اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں عورت کے ان مخصوص ایام کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

کچھ سالوں قبل پارسی مصنفہ بپسی سدھوا کی شہرہ آفاق کتا ب The Crow Eaters پڑھی، جس میں پارسی عورتوں کا حیض کے ایام گزارنے کے لیے کمرائے خاص، مخصوص کیے جانے کا انکشاف ہوا۔ پارسیوں میں ایام سے فراغت کے بعد پاک ہو کر ہی عورت کمرے سے باہر قدم رکھنے کی پابند ہوتی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ مجھے اچانک یاد نہیں آیا بلکہ جب میں نے نیپال کے دیہات میں بسنے والے خاندانوں کی حیض سے متعلق روایتیں پڑھیں تو میرے ذہن میں بپسی سدھوا کی کتاب کی یہ باتیں تازہ ہو گئیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ نیپال میں عورتوں کے ساتھ ایام حیض میں ہونے والا غیرانسانی سلوک حیوانیت میں سب سے بازی لے گیا ہے۔

نیپال میں پہاڑوں پر بسے لا تعداد دیہات میں حائضہ اچھوت اور ناپاک سمجھی جاتی ہے۔ ان خاص دنوں میں اس کو ایک گناہ سمجھ کر گھر ہی سے نکال پھینکا جاتا ہے۔ ہر گھر میں زرا فاصلے پر ایک کوٹھری بنی ہوتی ہے۔ جہاں سخت موسم اور وحشی راتوں کی پروا کیے بنا صدیوں سے عورتیں اور لڑکیاں حیض کے تکلیف دہ دن گزارنے پر مجبور کی جاتی ہیں۔ یہ کوٹھریاں بہت سے بہت ڈیڑھ فٹ چوڑی اور چند فٹ لمبی ہوتی ہیں، اور حالت ایسی کہ وہاں جانوروں کا رکھنا بھی ان کے حقوق کی پامالی کے زمرے میں آئے۔

ان کوٹھریوں میں اکثر بیک وقت تین اور چار عورتیں بھی موجود ہوتی ہیں، ان کے گھر والے کچھ فاصلے سے انھیں کھانے پینے کا سامان دے جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس دوران ان سے ہاتھ بھی مَس نہ ہو۔ 2006ء میں نیپال کی سپریم کورٹ نے ان کوٹھریوں کو خلاف قانون قرار دیا مگر دنیا کے ہر معاشرے کی طرح یہاں بھی انسانیت اور قانون کی ہار ہوئی اور مذہبی روایتیں فتح یاب ٹھہریں۔

نیپال کے ان دیہات میں بسنے والے ہندو آج بھی عورت کے حیض کو مافوق الفطرت چیز قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر اس دوران عورتوں کو گھر میں رکھا جائے تو کسی بھی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ مجبور اور بے بس عورتیں ٹھٹھرتی اور تاریک راتوں میں گھر سے باہر رہنے سے خوف زدہ ہیں مگر اس سے بھی زیادہ خوف معاشرے کی روایتوں کا ہے جو انھیں اپنی جانوں سے کھیلنے پر مجبور کررہا ہے۔ اور اسی خوف کے زیر اثر اکیسویں صدی کی نیپالی عورت بھی مجبوری سے سہی مگر سر تسلیم خم کرتی چلی آرہی ہے۔ ان کوٹھریوں میں اکثر کم سن لڑکیوں اور عورتوں کا ریپ ہوجانا یا انھیں سانپ کا کاٹ لینا بھی معمول کا حصہ ہے، لیکن جیسے انسانیت کا کوئی مذہب نہیں، ایسے ہی شاید بعض روایات میں انسانیت کا گزر نہیں!

کچھ نیپالی مردوں نے خود کو زیادہ باشعور ثابت کرتے ہوئے اپنے گھر کی عورتوں کو گھر سے دور بنی کوٹھریوں سے رہائی دلا دی مگر پارسی گھرانوں کی طرز پر گھروں کے اند رہی ایک کمرائے خاص بنا کر دے دیا ہے، جہاں دوران حیض قیام کر کے وہ اپنی گندگی سے گھر کے دوسرے افراد کو ’’محفوظ‘‘ رکھتی ہیں۔

نیپالی حکومت نے اگر چہ بہت سارے دیہات کو ان کوٹھریوں سے پاک کردیا ہے لیکن فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کے تحت نیپالی عورتیں بہرحال استحصال کا شکار ہیں، چاہے وہ ایام حیض گھروں سے دور گزاریں یا گھروں کے اندر قید ہو کر۔

دنیا بھر میں عورتوں کے حیض سے متعلق بنے مختلف ٹیبوز کو توڑنے کے لیے زیادہ سے زیادہ بات کرنا ضروری ہے۔ عورتوں کو ناپاک اور گندا تصور کرنے کے بجائے ان کا ساتھ دینا بہت اہم ہے، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے عورتوں کو خود اپنے حقوق کا ادراک کرنا ہوگا، اپنی جسمانی ساخت اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننا ہوگا، سوال اٹھانے ہوں گے، خود جواب تلاش کرنے ہوں گے، استحصال کرنے والی سوچ کو اور ظلم کرنے والے ہاتھ کو روکنا ہوگا۔ تب کہیں جا کر امید کی جا سکتی ہے کہ شاید آنے والی دو سے تین دہائیوں میں وہ وقت آہی جائے جب عورت کا حیض شرم کے موضوع کے بجائے اسی طرح سے ایک فطری چیز سمجھا جانے لگے جیسے سونا، جاگنا، کھانا اور پینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).