جنرل (ریٹائرڈ) ذوالفقار علی بھٹو


اسلام آباد کی جو زیریں عدالت پچھلے ڈھائی برس سے لال مسجد کے منتظم غازی عبدالرشید کے مقدمۂ قتل کی سماعت کر رہی ہے اس مقدمے میں مطلوب واحد ملزم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آج تک اپنے روبرو نہیں دیکھ سکی۔ حالانکہ یہ عدالت اس عرصے میں تین بار جنرل صاحب کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ نکال چکی ہے۔

تازہ وارنٹ گذشتہ روز جاری کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز قادر میمن نے کہا کہ ملزم جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہو رہا اور اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انصاف کا طلب گار ہے۔

یہ مقدمہ بھی شاید درج نہ ہوتا اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ستمبر دو ہزار تیرہ میں پرچہ کاٹنے کا حکم نہ دیتی۔ پولیس نے اس حکم کی بادلِ نخواستہ تعمیل تو کر دی لیکن عدالت کے روبرو جو چالان پیش کیا اس میں واحد ملزم پرویز مشرف کا نام چالان کے کالم نمبر دو میں ڈالا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ تحقیقاتی افسر تو ملزم کو بے قصور سمجھتا ہے، آگے عدالت کی مرضی۔ اتنے رعایتی چالان کے باوجود ملزم نے عدالت میں پیش ہونا تضیحِ اوقات سمجھا۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کا آرٹیکل چھ توڑنے کے الزام میں جو مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ وہ بہت پہلے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا چکا اور مدعی (حکومت) بھی اب اس بارے میں ذکر کرتے لجاتا ہے۔

اکبر بگٹی قتل کیس میں جنرل صاحب ایک پیشی بھگتے بغیر بری ہوگئے۔ مقتول غازی عبدالرشید کے بھائی عبدالعزیز جنرل مشرف کو معاف کر چکے ہیں مگر غازی کا بیٹا ہارون رشید مقدمہ چلوانے پر کمر بستہ ہے۔

پاکستان نہ تو چلی ہے جہاں جنرل پنوشے کو وہیل چئیر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جائے، نہ ترکی ہے جہاں سابق فوجی جنرلوں کو تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے کر کے مقدمہ بھگتنے پر مجبور کیا جائے اور نہ ہی کوئی ٹوٹتا ہوا سوویت یونین جہاں جنرل تین دن حکومت کرنے کے بعد ہانپ جائیں اور خود کو عارضی معزول صدر گوربچوف کے حوالے کر دیں۔

اس اعتبار سے پاکستان کی اپنی شناخت ہے۔ یہ مصر، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سابق گورے جنوبی افریقہ اور نائجیریا کے درمیان کی کوئی ملغوبائی انتظامی شکل ہے۔ یہ منتخب احتساب کی مملکت ہے جہاں طے ہے کہ کون کس کے احتساب کا پیدائشی مجاز ہے۔ احتسابی چھوت چھات کا یہ نظام اس قدر شفاف ہے کہ کوئی نابینا بھی دیکھ سکتا ہے کہ برہمن کون کون ہے اور کھشتری، ویش اور شودر کون۔

حالانکہ ریاستی تخت کے چاروں کھونٹوں پر سونے کے پانی سے ’وفاق‘ کندہ ہے۔ سریر آرائے تخت کے ماتھے پر آئینی بالادستی کا جھومر بھی ہے اور قانون کی نظر میں سب کی برابری کا مورچھل بھی مسلسل جھلا جا رہا ہے۔ مگر یہ شیر کا دربار ہے۔ جہاں ہر شکار کے تین حصے برابر برابر کیے جاتے ہیں۔ ایک حصہ شیر کا، دوسرا شیر کے حقیقی و منہ بولے بچوں کا اور تیسرا سامنے دھرا ہے۔ جس عدالت، پارلیمنٹ یا عام آدمی میں ہمت ہو اٹھا لے جائے۔

کون سا آرٹیکل چھ، کیسا نیب، کس کے گرفتاری وارنٹ، کدھر کی پیشی۔ سوچیے اگر بھٹو صاحب جنرل (ریٹائرڈ) ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟

21 فروری 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).