عاصمہ جہانگیر کے بارے میں لکھی چند سطور ….


قوموں کی عظمت جانچنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ وہ اپنے افراد کی قدر پیمائی کس طرح کرتی ہیں۔ اب سے کوئی سو برس پہلے سلطنت برطانیہ اپنے عروج پر تھی ۔ افریقہ اور ایشیا میں برطانوی نو آبادیوں کا اہم ترین حصہ ہندوستان تھا۔ آج کا جنوبی ایشیا یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما سب برطانوی ہندوستان کا حصہ تھے۔ سوال اٹھایا گیا کہ انگلستان کی عظمت میں ہندوستان کا کردار زیادہ ہے یا شیکسپئر کا؟ جواب بہت سادہ تھا۔ ’ہندوستان تو ایک نہ ایک روز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔شیکسپئر تو ہمارا ہے اور ہمیشہ ہمارا رہے گا۔ سلطنت برطانیہ کے لیے ہندوستان نہیں بلکہ شیکسپئر حقیقی افتخار کا باعث ہے۔‘ ڈیگال نے جب یہ کہا کہ سارتر فرانس ہے، تو یقینا اس کے ذہن میں سارتر کی تصویر ایک فلسفی اور مصنف سے بڑھ کر تھی۔ دراصل ڈیگال سارتر کو فرانس کی تہذیبی روایت کا استعارہ قرار دے رہا تھا۔ اہل پاکستان میں دیگر خوبیوں اور خامیوں کے علاوہ ایک صفت یہ بھی ہے کہ ہم کم ہی کسی کو مان کر دیتے ہیں۔ دھوکے ہمارے ساتھ بہت ہوئے ہیں۔ ہمارے باہمی اعتماد کی دستاویز پر بہت سے دھبے ہیں۔ ہمارے احترام کے لباس پر بہت سی شکنیں ابھر آئی ہیں۔ ہمارے اندر غصہ بہت ہے۔ ایک دوسرے کو بری طرح ادھیڑ کر رکھ دینے میں ہم دو بار نہیں سوچتے۔ یہ سب بجا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے گھپ اندھیرے میں ہمارے ہاں جو ستارہ اپنی جھلک دیتا ہے، اس کی روشنی بہت تیز ہو جاتی ہے۔


آج کل ہمارے حالات خوشگوار نہیں ہیں۔ تشویش کے بہت سے پہلو ہیں اور بیشتر ایسے کہ جن پر بات کرنا بھی مشکل ہے۔ ہنگامے کی افراتفری سے پرے دیکھنے والوں کو معلوم ہے کہ ہمارے دکھوں کا مرہم صبر طلب ہے۔ ہمارے شیشوں کی مسیحائی آسان نہیں۔ ہمارے روگ کا کیچوا وقت کے ساتھ ہزار پایہ بن گیا ہے۔ ایسے اضطراب میں اوپر تلے اچھی خبریں آئی ہیں۔ انتظار حسین کو فرانس کی حکومت نے اعلیٰ ادبی اعزاز دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کو سویڈن سے انسانی حقوق کا ایک بڑا اعزاز ملنے کا اعلان کیا گیا۔ مناسب یہ ہے کہ پاکستان کے ان دو قابل احترام شہریوں کا کچھ مزید ذکر ہو جائے جنہوں نے اپنی قابل تحسین کارکردگی سے ہماری عزت بڑھائی ہے۔

ایسا نہیں کہ فرانس کے ادبی اعزاز سے ہم نے انتظار حسین کو گویا نئے سرے سے دریافت کیا ہے۔ لکھنے والے کی قامت تو اس کے لفظ سے متعین ہوتی ہے۔ ادیب انتظار حسین قیام پاکستان کے ساتھ ہی نمودار ہوا تھا۔ اس کا لہجہ دھیما ہے لیکن اس کی وابستگی، اس کا تعلق بہت استوار ہوتا ہے۔ انتظار حسین کی تحریریں ہماری سات دہائیوں کی دستاویز ہیں۔ ادیب کے لیے تکمیل کے زاویے تین ہیں، ہنر پر گرفت، خیال کی پرواز اور قبول عام۔ انتظار نے کئی دہائیاں پہلے یہ تینوں منزلیں عبور کر لی تھیں۔ اس کی فنی مہارت پر انگلی اٹھانے کی ہمت کسے؟ فکر کی پرواز کا اندازہ اس سے کیجئے کہ تنقیدی شعور اور طرز احساس میں انتظار حسین آج سے 60 برس پہلے یعنی 1954ءمیں جہاں پہنچے تھے، وہ منزل ابھی گابریل گارشیا مارکیز اور گنٹر گراس سے بہت دور تھی۔ ہمارے عہد کے یہ دونوں اساطیری ادیب ابھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سیکھ رہے تھے۔ انتظار حسین نے کہانی لکھنا شروع کی تو بہت گرد اڑی۔

ترقی پسند خفا اور اسلام پسند ناراض۔ کوئی زبان پر معترض ہوا تو کسی کو پلاٹ نہ ہونے کی شکایت پیدا ہوئی۔ انتظار نے بیک وقت ترقی پسند اور انحطاط پسند سکول سے ٹکر لی۔ سیاسی شعور کو تہذیبی احساس سے توازن دیا۔ بیانیہ میں جدید اور متروک کی لڑائی لڑی۔ اور لطف یہ ہے کہ ادبی بحث میں اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے اپنا لہجہ بگڑنے نہیں دیا۔ انتظار کی ذات میں ادبی اختلاف رائے کے سوا کسی جھگڑے کے لیے گنجائش نہیں رہی۔ اسے اپنے تجربے کو ہنر کی کٹھالی میں ڈال کر جوالہ مکھی بنانے سے فرصت ملتی تو عقیدے، سیاست اور زبان کے نام پر لڑائی کی سوجھتی۔ فرانس کی حکومت اور عوام ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ ہمارے بہترین ادیب کو اعزاز دے کر انہوں نے ہماری قوم کی عزت افزائی کی ہے۔


انتظار حسین ہماری تہذیبی اصابت کا نشان ہیں تو عاصمہ جہانگیر ہمارے شہری شعور کی علامت ہیں۔ مردانہ بالا دستی ہمارے معاشرے کا ایک بدنما زاویہ ہے۔ صنف کی بنیاد پر تفریق سے انسان چھوٹا ہوتا ہے۔اس بالشتیاپن کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ذہانت، صلاحیت اور اختیار میں ہم عورتوں کو مردوں کے برابر نہیں سمجھتے لیکن جب قوم کو سب سے کٹھن امتحان درپیش ہوتا ہے تو پاکستان کی عورت لڑائی کی اگلی صفوں پر نظر آتی ہے۔ آمریت سے بڑا امتحان کیا ہو سکتا ہے ۔ایوب خان سے انتخابی مقابلہ فاطمہ جناح نے کیا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے خلاف مال روڈ پر نکلنے والے تین افراد میں طاہرہ مظہر علی خان شامل تھیں۔ ضیاءآمریت کا مقابلہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کیا۔ ضیا الحق نے ملاّ سے گٹھ جوڑ کر کے امتیازی قوانین مسلط کیے تو پاکستان کی بہنوں نے مال روڈ پر آمریت کا جلوس نکال دیا۔ 90کی دہائی میں مسلم لیگ نواز کا معاشرتی بیانیہ رجعت پسند تھا۔ اس کے باوجود پرویز مشرف نمودار ہوئے تو مال روڈ پر کئی گھنٹے تک کرین سے لٹکتی کار میں کلثوم نواز شریف بیٹھی تھیں۔ ہمیں اپنی ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں پر فخر ہے انہوں نے نا انصافی، تشدد اور بدزبانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس قابل افتخار تصویر میں عاصمہ جہانگیر کی شبیہ بہت بلند ہے۔ عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان (1972ء) ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا۔ 40سال سے زیادہ ہو گئے۔ عاصمہ جہانگیر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جمہوری حقوق کی جدوجہد ہو یا عورتوں کی آدھی گواہی کی بحث، آزادی صحافت پر قدغن لگے یا عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو، بھٹہ مزدوروں کے حقوق ہوں یا جبری مشقت کا معاملہ ،کم سن بچوں سے مشقت کا مسئلہ ہو یا مذہبی اقلیتوں کے حقوق، بلوچ ہم وطنوں کے حقوق کا سوال ہو یا قبائلی علاقوں میں قوانین، عاصمہ جہانگیر نے اپنے شعور اور عمل سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو مایوس نہیں کیا۔ عاصمہ جہانگیر پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جسے بدزبانی کے جوہر دکھانا ہوتے تھے عاصمہ جہانگیر کو تختہ مشق بنا لیتا تھا۔ جو سیاسی قوتیں اقتدار میں عاصمہ جہانگیر کو دشنام کا نشانہ بناتی تھیں وہ اپوزیشن کا حصہ بنتے ہی عاصمہ جہانگیر کی طرف مدد کے لیے دیکھتی تھی۔ آج سے بیس برس پہلے ایک فرقہ پرست تنظیم کے رہنما نے بھی جیل سے خط لکھ کر عاصمہ جہانگیر سے مدد کی اپیل کی تھی۔

کچھ برسوں سے عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد کا دائرہ پاکستان سے باہر نکل کر دور دور تک پھیل گیا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے فکری اور قانونی خدوخال اجاگر کرنے میں قابل تعریف کردار ادا کیا ہے۔ کوئی دو برس پہلے میمو گیٹ سکینڈل کے دنوں میں ایک پیچیدہ سازش کے ذریعے سیاسی قوتوں کو عدلیہ کے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ اس موقع پر عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدارتی انتخاب جیت کر سازش کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کسی عہدے یا بین الاقوامی اعزاز کا معاملہ نہیں، عاصمہ جہانگیر جیسے شہری بذا ت خود قوم کے لیے اعزاز ہوتے ہیں۔

(27 ستمبر ، 2014)

اس سیریز کے دیگر حصےمیں نے عاصمہ آپا کو کیسا پایا؟ (1)عاصمہ جہانگیر کے بارے میں شورش کاشمیری کی نظم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).