عاصمہ جہانگیر: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


انسانی بنیادی حقوق کی بے باک اور توانا آواز، غریب اور پسے ہوئے طبقوں اور خواتین حقوق کی ترجمان اور فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد کی علامت، آہنی ارادوں کی مالک جیسے الفاظ صرف عاصمہ جہانگیر کے لئے ہی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ ان کی رحلت کے بعد ان جیسا دور دور تک کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔

عاصمہ نے اوسلو میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا جہاں جج سیاست کرتے ہوں، جنرل حکمرانی کرنے اور عدالتیں لگانے کا شوق رکھتے ہوں، وہاں منتخب جمہوری اداروں کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کسی مذاق سے کم نہہں رہ جاتی۔ انہیں سیاستدانوں کی موقع پرستیوں، ناتواں جمہوریت اور کمزور سول اداروں کا بھی شدت سے احساس تھا۔ مگر وہ آئین، قانون اور ریاست پر جمہور کی بالادستی پر کسی قسم کی مفاہمت کرنے کو گناہ عظیم سمجھتی تھیں۔ 1970 کی دہائی سے یحییٰ خان کی مارشل لا کو چیلنج کرنے اور معاشرے کے سب سے زیادہ دبے کچلے طبقے بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لئےجدوجہد کا آغاز کرنے والی عاصمہ جہانگیر نے کبھی انسانی بنیادی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور جمہوری بالادستی پر مصلحت سے کام نہیں لیا۔ ضیا مارشل لا کے دوران خواتین سے متعلق امتیازی قوانین کے خلاف بننے والے ویمن ایکش فورم سے لے کر ہیومن رائٹس کمیشن کی انسانی حقوق کے لئے بے مثال جدوجہد پر عاصمہ جہانگیر نے انمٹ اور یادگار نقش چھوڑے ہیں۔ توہین مذہب قانون کا غلط استعمال ہو یا بلوچستان میں گمشدہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت ہلاکتیں ہوں، بے آواز عورتوں کی گرفتاری یا بانڈڈ بھٹہ مزدوروں کی رہائی کا مسئلہ تو عاصمہ جہانگیر کی آواز ہی انصاف کے ایوانوں میں گونجتی تھی۔ جنرل مشرف دور میں آزاد عدلیہ اور ججوں کی بحالی کی تحریک عاصمہ جہانگیر کے نام کے بغیر نامکمل سمجھی جائے گی۔ انسانی حقوق کے مظاہروں میں بیہمانہ پولیس تشدد اور جیل کی سختیاں بھی عاصمہ جہانگیر کے حوصلے کو پست نہ کرسکیں۔ قومی اسمبلی یا سینٹ کی رکنیت اور وزارت کی پیشکش کو کئی بار ٹھکرانے والی عاصمہ جہانگیر کے سامنے سیاسی اور حکومتی عہدے بہت معمولی نظر آتے ہیں۔

بیرونی دنیا میں عاصمہ جہانگیر پاکستان کا ایک معتبر، نمایاں اور قابل احترام نام سمجھا جاتا ہے۔ یو این او کی خصوصی نمائیندہ ہونے کی حثیت سے ان کی انسانی حقوق کے لئے ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ان کی رپورٹوں نے ان ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی کو بے نقاب کیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی کشمیر پر تحقیقاتی رپورٹ نے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے کشمیری عوام پر گھناؤنے مظالم کا پوری دنیا کے سامنے پردہ چاک کیا ہے۔

آج پاکستان اور پاکستان کے بے آواز مظلوم عوام ایک ایسے پر عزم عظیم انسان سے محروم ہو گئے ہیں جس کا متبادل ملنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان اور پاکستانی عوام اپنی دھرتی کی نامور، باحوصلہ اور دلیر بیٹی عاصمہ جہانگیر کے ذکر پر اپنا سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےمقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی عاصمہ جہانگیر سے محبت کرتے تھے: حامد میرپاکستان کے مظلوموں کی وکیل نہیں رہی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).