آؤ عاصمہ جہانگیر بنیں


موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن ہمارے اپنے بھی کبھی اس زندگی سے منہ موڑ لیں گے، اس بارے میں ہم کبھی سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمارے اپنوں کی فہرست میں کب عاصہ جہانگیر شامل ہوئیں پتا ہی نہیں چلا۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی ہوگا جب عاصمہ جہانگیر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گی۔ وہ دن آیا اور تب ہمیں پتا چلا کہ ہمارے معاشرے میں کتنے انسان حیوان بن چکے ہیں۔ یہ کام بھی بس عاصمہ ہی کر سکتی تھیں۔ اب کم از کم ہم اتنا تو جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کتنے انسان نما حیوان ہیں جن کی حیوانیت ہمیں ختم کرنی ہے۔ شکریہ عاصمہ جہانگییر۔

عاصمہ جہانگیر دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت اور انسان دوستی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ ان کا یہ سفر پاکستان سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ پوری دنیا تک پھیل گیا۔ ان کی وفات پر پوری دنیا غمگین ہے، اگر کہیں خوشیاں منائی جا رہی ہیں تو وہ ان کا اپنا ملک ہے۔ جن لوگوں کو اپنے اگلے پَل کا علم نہیں وہ عاصمہ کی آخرت کے بارے میں پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود سوائے امتِ مسلمہ کی تعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ دین اور وطن کی کوئی خدمت نہیں کی مگر عاصمہ پر بات کرنا یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔

جو لوگ لکھتے ہیں یا بولتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل ہے۔ ہر کوئی اس کام کو کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ بہت ہمت چاہئیے ہوتی ہے کسی ظالم کے خلاف دو لفظ بولنے یا لکھنے کی اور عاصمہ کے پاس ہم سب سے زیادہ ہمت تھی۔

عاصمہ نڈر تھیں، بے خوف تھیں اور اپنے اصولوں کی پکی تھیں۔ انہوں نے جو بیانات دیے یا جو کام کیے وہ کوئی دوسرا کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ کسی بڑے عہدے دار کی کیا بات کرنی، اپنے ارد گرد دیکھ لیں۔ بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر بھی آواز نہیں اٹھاتے، دوسروں کے لیے وہ کیا بولیں گے۔

اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے کہا کہ مذاہب کے نام پر قوانین بننے میں تو وقت نہیں لیتے لیکن انہیں ختم کروانے میں صدیاں لگتی ہیں۔ کیا یہ بات کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی کہہ سکتا ہے؟ ایک حدیث ملاحظہ کریں۔

تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اسے اپنے دل میں برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔

اس حدیث کی کسوٹی کے مطابق تو عاصمہ ایمان کی سب سے اعلیٰ حالت میں تھیں۔ ہم جیسے کم علم تو ایک طرف بے شمار علماء بھی ایسے ہیں جو ایمان کی کمزور ترین حالت میں ہیں، فرق صرف اس ہمت اور حوصلے کا ہے جو عاصمہ کے پاس تھا اور ہمارے پاس نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی حیران ہوتی ہوں کہ جب مشال خان کی نمازِ جنازہ میں شمولیت سے ایک مولوی نے لوگوں کو روک دیا تھا تو کیوں کوئی بڑا عالم وہاں نہ پہنچا اور اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائی؟ عاصمہ نے تو ہر وہ کیس لیا جو کسی بھی وکیل نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ گمشدہ افراد کے حوالے سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتی تھیں کہ ان کو غائب کرنے والے باہر سے نہیں آئے بلکہ ہمارے ملک میں ہی موجود ہیں۔ کیا اتنی ہمت کوئی کر سکتا ہے؟

عاصمہ جہانگیر کی وفات پر کئی مردوں نے بھی اپنی سوشل میڈیا ڈسپلے پکچر پر ان کی تصویر لگائی ہوئی ہے۔ وہ مرد جنہیں ہر وقت اپنی مردانگی کا دھیان رکھنا پڑتا ہے آج ایک عورت کی تصویر اپنی شناخت کے طور پر لگائے بیٹھے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی کامیابی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟

وہ پدر سری معاشرے کے خلاف کھڑی ہوئیں اور کل ان کے جنازے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے مردوں کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ وہ عورت ہمارے لیے جو کچھ کر گئی ہم اس کے لیے اتنا تو کر ہی سکتے تھے۔

اب عاصمہ جہانگیر ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن ان کے اصول ہمارے ساتھ ہیں۔ ان اصولوں کو اپنائیں اور اپنی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگی بہتر بنائیں۔ آؤ لوگوں سے ڈرنا چھوڑیں۔ آؤ عاصمہ جہانگیر بنیں۔ آؤ حق کے لیے آواز اٹھائیں، چاہے اس کے لیے طاقتور کے خلاف ہی کیوں نہ کھڑا ہونا پڑے۔ آؤ بولنا سیکھیں چاہے سامنے مذہب کا کاروبار کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ آؤ ایک آواز بنیں، ایک ایسی آواز جو مر کر بھی کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےسو شیر جوانوں پہ بھاری ایک نہتی لڑکیعاصمہ: تمہارا سفر جاری رہے گا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).