قید کہانی: خوف، امید اور سزائے موت


پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں دہشت گردی کے خاتمے اور جرائم میں کمی کے لئے بڑے پیمانے پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ پاکستان دسمبر 2014 سے اب تک 488 پاکستانیوں کو پھانسی دے چکا ہے۔ پاکستان میں 27ایسے جرائم ہیں جن کے ارتکاب پر عدالتیں سزائے موت سنا سکتی ہیں، حال ہی میں اس فہرست میں مزید اضافے اور سرعام پھانسیوں کے مطالبات میں بھی شدت آئی ہے۔ یہ رحجانات انسانی حقوق کے کارکنان کی ان کوششوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں جو سزائے موت کا دائرہ عمل محدود کرنے اور پھانسیوں پر عملدرآمد رکوانے کے لئے جاری ہیں۔

سزائے موت کے حوالے سے عوام میں آگہی بیدار کرنے اور اس مسئلے کو زیادہ انسانی بنیادوں پر زیرِ بحث لانے کے لئے ایک اہم کوشش ”قید کہانی“ کی صورت میں شروع کی جا رہی ہے۔ قید کہانی ایک ریڈیو ڈرامہ ہے جو سزائے موت کے قیدیوں کے روزمرہ معمولات کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان میں ریڈیو ڈرامے کی صنف قدیم مگر آج کل نایاب ہے۔ یہ ڈرامائی سلسلہ گزشتہ برس پیش کیے جانے والے سلسلے کا دوسرا سیزن ہے۔ پہلا سیزن سزائے موت کے قیدیوں کی زندگی کے حقیقی واقعات پر مشتمل تھی۔ قید کہانی کا دوسرا سیزن سزائے موت کے ایک قیدی حق نوازکی فرضی ڈائری پر مشتمل ہے۔ پہلی قسط ڈائری کے ان مندرجات سے شروع ہوتی ہے جو پشاور میں آرمی ہائی سکول پر حملے کے بعد تحریر کیے گئے۔

ڈائری کے مندرجات ایک جانب تو قیدی کی داخلی صورت حال کو واضح کرتے ہیں وہیں جیل میں اس کے آس پاس ہونے والے واقعات اور معمولات تک رسائی کا ایک ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
”یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا، مگر یہ ہوا۔ 136 لاشیں، ننھی خون آلود لاشیں اور پھر ایک پاگل پن۔ ایک ایسا پاگل پن جس کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ ہم سب یہاں جیل کی کوٹھڑیوں میں خاموش بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا؟ ہم میں سے کوئی بھی کچھ بولنے کو تیار نہیں تھا جیسے ہمارے بولتے ہی کوئی خوفناک طلسم اپنے پیچھے چھپے عفریت آزاد کر دے گا۔ “

یہ ڈائری بعض ایسے دلخراش واقعات بھی بیان کرتی ہے جو جیل سے باہر رہنے والے افراد کے لئے شاید انہونی ہوں لیکن قیدی ہر روز ایسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں۔ اس ڈائری کے مندرجات تکلیف دہ بھی ہیں، چشم کشا بھی اور پاکستانی نظام انصاف کے تحت سزا پانے والوں کی زندگیوں پر ہمدردانہ غور کرنے کا موقع بھی۔

جیل میں ہر بندہ چابی والا بندر ہے، ایک بار اس کی چابی بھر دو تو دن بھر ٹک ٹک کرتا چلتا رہتا ہے۔ اور پوری جیل اتنے بجے، اتنی دیر، اتنے بندے، اتنی بار کی تکرار ہے۔ یہ ایک سانچہ ہے، ترتیب ہے، اکتاہٹ ہے، ایک عادت ہے۔

ڈائری کو ایک ڈرامائی صورت دینے کے لئے متعدد تکنیکوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ سامعین کی توجہ اور دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے صوتی تاثرات، پس پردو موسیقی اور مکالموں کی مدد سے جیل کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ ڈرامہ دس قسطوں پر مبنی ہے اور ہر قسط دس منٹ دورانیے کی ہے۔ یہ ڈرامہ سامعین کے لئے مست ایف ایم 103 کے چاروں ریڈیو سٹیشنز پر پندرہ فروری سے ہر پیر اور جمعرات کی شام پانچ بج کر پانچ منٹ پر نشر کیا جائے گا۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان اور کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں رہنے والے افراد یہ ڈرامہ آن لائن بھی سن سکیں گے۔ دس اقساط کے علاوہ اس ڈرامے میں تین گیت بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس قید کہانی کے پہلے سیزن کو زبردست پذیرائی ملی تھی اور سامعین کی ایک بڑی تعداد نے یہ ڈرامے سنے اور انہیں سراہا۔ قید کہانی سزائے موت پانے والے نابالغ اور ذہنی طور پر بیمار قیدیوں کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی پیشکش ہے۔ یہ ڈرامہ معروف شاعر اور براڈکاسٹر افضل ساحر اور ان کی ٹیم نے تیار کیا ہے جو یقیناً ریڈیو سامعین کے لئے ایک دلچسپ مگر حساس تجربہ ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).