تحریک نظام مصطفی۔ یہ یقیں آپ پر نہیں آتا


\"hashirقوم کو مژدہ ہو کہ ایک دفعہ پھر مذہبی اور دینی ( ویسے دونوں میں فرق کیا ہے ) جماعتوں کے اکابرین کو ملک میں اسلام کی زبوں حالی پر زوروں کا درد اٹھا ہے۔ طبی اصطلاح میں یہ ایک مذمن chronic مسئلہ ہے جو ان بیماروں کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ عموما اس کا علاج ملٹری ہسپتالوں میں ہوتا رہا ہے اور مارشل لا نامی دوائیاں اس ضمن میں تیر بہدف ثابت ہوئی ہیں۔

کل ہونے والے اجلاس میں نظام مصطفی تحریک کا پھر سے احیا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ملک بننے سے اب تک بیسیوں بار یہ تحریک چلائی جا چکی ہے تاہم کسی کے فرشتوں کو آج تک کانوں کان یہ خبر نہ ہو سکی کہ اس نظام کے اصل خدوخال کیا ہیں۔ سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظام کے مخالف ان اکابرین سے ہمیں ہر گز یہ توقع نہیں ہے کہ انہوں نے جان لاک، آدم سمتھ، مارکس یا اینگلز کو کبھی پڑھا ہو گا بہرحال پھر بھی وہ اتنا تو شاید جانتے ہوں گے کہ یہ کوئی بھی نظام ایک عمارت کی صورت ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ایک پختہ فلسفے پر رکھی جاتی ہے۔ پھر اس بنیاد پر ان اداروں کی نیو رکھی جاتی ہے جو فلسفے کو عمل میں بدلتے ہیں۔ پھر اصول اور قوانین کا تعین ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کے ذریعے اجتماعی معاشرت کی تعبیر، تطہیر اور تعمیر کی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ نظام جامد نہیں ہوتا بلکہ اپنی ساخت میں لچکدار اور تغیر پذیر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے بہت جلد جان لاک کے اختلاف حق ضیاع کو دولت اقوام کے تحت بدل ڈالا۔ انقلاب فرانس کے بطن سے برآمد ہونے والے سوشلسٹ فلسفے نے روس میں مرکزی معاشی ماڈل کا روپ دھار لیا۔ جنگ ویتنام کے بعد سوشل ڈیموکریسی وجود میں آ گئی۔ سکنڈے نیویا میں سرمایہ دارانہ فلسفے کو اجتماعی مساوات کے رنگ میں رنگا گیا۔ آئیے اس روشنی میں نظام مصطفی کے نام پر لگائے گئے نعرے کو پرکھتے ہیں۔ نہ کوئی مشترکہ فلسفہ ہے جو اس کی بنیاد ہو۔ بیس مذہبی جماعتیں نظام کی بیس مختلف تعبیریں رکھتی ہیں اور ان کے اختلاف پر ایک دوسرے کی تکفیر کو جائز اور گردن زدنی کو مباح سمجھتی ہیں۔ کوئی اداروں کا پوچھے تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اگر وفاقی عدالت کو وفاقی شرعی عدالت، بینکاری کو اسلامی بینکاری اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نام پر \”مراعات یافتہ ٹھرکی بڈھوں\” کو قوم پر مسلط کرنا اداروں کی نئے نظام کے تحت تشکیل ہے تو پھر انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ لچک اور تغیر کا دور دور تک پتہ نہیں۔ صدیوں پرانی تعبیرات سے آج کے خواب بیان ہوتے ہیں۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ ہم گیارہویں بارہویں صدی کے لوگ ہیں ہمیں خواہ مخواہ کھینچ کر اکیسویں صدی میں لے جایا جا رہا ہے۔ پر وہ غلط تھے۔ ہمارے یہ رہنما ہمیں ہماری خوشی سے ساتویں آٹھویں صدی میں لے جا رہے ہیں۔ شاید یہی ہمارے لئے بہتر ہو۔ یہ تو سب نہ ملا اس نظام میں۔ اب لے دے کے آخر میں ایک قرآن و سنت کا آزمودہ دعوی رہ جاتا ہے جو اس قوم کو قرارداد مقاصد سے لے کر اب تک بیچا جا رہا ہے۔

قرآن وسنت کو بھی دیکھ لیجئے۔ اول تو قرآن کو ایک سیاسی اجتماعی نظام کی اساسی کتاب بنانا ہی قابل بحث ہے قرآن کو شروع سےآخر تک پڑھ جائیے تو اس کا مخاطب فرد ہے۔ اور اس کے جید شارحین کے مطابق اس کا بنیادی مقصد ایک اخلاقی وجود کی تعمیر ہے۔ سیاست اور حکومت کا نظام کسی بھی طرح قرآن کا موضوع نہیں رہا۔ نہ اس میں جمہوریت کا ابطال ہے نہ سوشلزم کا انکار اور نہ ہی نظام مصطفی نامی کسی نظام کا ذکر۔

مذہبی اکابرین سے امید ہے کہ وہ اس بات سے تو واقف ہوں گے کہ وصال رسول کے بعد صحابہ کے درمیان حکومت کے حوالے سے کیسے سنگین اختلافات ہوئے۔ انصار اور مہاجرین کیوں مخالف گروہوں میں بٹے۔ اس کے بعد دور فاروقی میں نئے خیالات نے کیسے ایک مختلف نظام کا روپ دھار ا۔ کمیونزم کے ستر سال میں ڈھیر ہو جانے کو اس کی ناکامی سے تعبیر کرنے والے یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ طرز حکومت جو خلیفہ اول اور دوئم نے اختیار کیا وہ دور عثمانی تک محض تیرہ سال میں خلفشار کا شکار بن گیا۔ خلیفہ سوئم پر جو تیغ گری اس کو تھامنے والے ہاتھ خلیفہ اول کے فرزند کے تھے۔ ریاست اس کے بعد ایک ہی وقت میں دو خلفا دیکھتی ہے۔ سیاست اور اقتدار کی کشمکش میں آپس کی جنگوں میں خانوادہ رسول ہی ایک دوسرے کے مقابل اترتا ہے۔ یہ دور آشوب ختم ہوتا ہے تو پھر ملوکیت کا ہزار سالہ دور جس میں اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی اپنی اپنی باری لگاتے ہیں۔ اس ساری کہانی میں کون سا قابل رشک ماڈل ہے یہ ابن خلدون یا قاسم فرشتہ کو تو نہیں ملا ہاں مودودی صاحب اور مفتی محمود جیسوں نے ڈھونڈ نکالا تاہم چونکہ یہ راز عوام پر آشکار کرنے والے نہیں تھے اس لئے ان کی تفصیل صائب الرائے حضرات اور کچھ خدا کو براہ راست جواب دہ مقرب جرنیلوں تک محدود رکھی گئی۔

چلئے بالفرض محال قرآن سے نظام برآمد کرنے کی کوشش بھی کریں تو کیسے۔ صرف برصغیر کے شارحین قرآن کو دیکھیں تو شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان، سید مودودی، مفتی محمد شفیع، مولانا وحید اللہ خان،احمد رضا خان، امین احسن اصلاحی، غلام احمد پرویز اور جاوید غامدی تک متن کے مطالب میں بے پناہ اختلافات ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ڈی چوک پر ان میں سے دو تین کا نام لے کر سواد اعظم کے رہنماؤں کی انہیں دی گئی مغلظات اور ان کے پیروکاروں کے قتل کے فتوے سب نے سنے ہیں۔ تو اب سوچئے قرآن کی کونسی تعبیر اجتماعی شکل اختیار کرے گی۔ یہ بات بہت دفعہ سن لی کہ اختلافات فروعی ہیں۔ حضور ایسا ہی ہوتا تو منبر سے تکفیر کے فتوے توپ کے گولوں کی طرح روز نہ داغے جاتے۔

اس کے بعد اگلا پسندیدہ لفظ ہے سنت۔ تو سنت تو محض طریقے کا نام ہے اور وہ بھی شخصی لحاظ سے۔ تمام انبیا ایک ہی سنت کے مقلد رہے ہیں۔ تو پھر سنت موسوی ہو یا سنت محمدی، کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں کا تعلق سیاسی نظم سے نہیں ہے۔ دانت صاف کرنا سنت ہے۔ بچوں سے شفقت سے پیش آنا سنت ہے۔ بڑوں کی عزت کرنا سنت ہے۔ اب ان عادتوں کا اطلاق سیاسی تحریک سے ہو گا یا گھر کی تربیت سے۔ آپ خود فیصلہ کر لیں۔

بہت سے اکابرین نے سنت اور حدیث کو ایک ہی بنا کر پیش کیا ہے۔ بات ہے تو غلط لیکن چلیں برائے تجزیہ مان لیتے ہیں۔ حدیث کو قانون اور نظم اجتماعی کی اساس بنانا کیونکر ممکن ہے جبکہ حدیث کا پورا دفتر مسلکی اختلافات سے عبارت ہے۔ کم لوگ اس بات سے آشنا ہیں کہ منکر حدیث کا پہلا خطاب امام ابو حنیفہ کو دیا گیا اور آج حنفی علما حدیث کو قرآن کا ناسخ قرار دیتے ہیں۔ ابن جوزی جیسوں کی حدیث پر تنقید پڑھئے تو طبعیت صاف ہو جاتی ہے۔ حدیث کا بیان کیسے کاروبار بنا اور اس سے کیا کیا فائدے اٹھائے گئے اس پر کتابوں کی کتابیں لکھی گئیں لیکن آج کوئی ان کو نہیں جانتا۔ کیسے محدثین نے طاقت کا متبادل مرکز تیار کیا۔ خلفا وقت کے افعال کو حدیث سے سند کیونکر عطا کی گئی۔ زندیق اپنی اصل میں تھے کون، حدیث کی بنیاد پر فرقے کیسے تعمیر ہوئے، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے، پر کوئی پڑھنے والا تو ہو۔

امام بخاری لاکھوں حدیثیں سنتے ہیں اور پھر اپنے بنائے گئے اصولوں پر دو ہزار چھ سو تیس حدیثوں کو ٹھیک جانتے ہیں۔ ان اصولوں میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ اگر عراق کے لوگوں سے سو حدیثیں سنو تو ان میں سے ننانوے کو غلط جانو اور وجہ اس کی یہ کہ فلسفہ ایمان پر امام ابو حنیفہ اور امام بخاری کا اختلاف شدید تر تھا۔ اور چونکہ ایک امام کوفے سے تھا اس لیے سارے کوفی ناقابل اعتبار ٹہرے۔ بخاری کے بعد اہل سنت مسلم کو جزو ایمان جانتے ہیں پر یہ نہیں جانتے کہ مسلم نے امام بخاری کو مختل الحدیث قرار دیا تھا۔ اسماء الرجال میں ایک ہی سلسلہ ایک جگہ سلسلہ ذہب ٹھہرتا ہے تو دوسری جگہ اسے بالکل مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اہل سنت بخاری، مسلم، ترمذی، ابی داؤد، ابن ماجہ اور نسائی کو محترم جانتے ہیں تو اہل تشیع الکافی، تہزیب، استبصار اور من لا یستحضرہ الفقیہ کو مقدم سمجھتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جو کتابیں قانون کا ماخذ ٹھہرتی ہیں ان میں بھی صحیح، حسن، قوی اور ضعیف کا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب اس سارے جھگڑے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر حدیث انفرادی زندگی میں رہنما ہو۔ پر اجتماعی قانون کی صورت میں یہ ایک اختلافی مسئلہ بن کر رہ جائے گی۔ ضیا صاحب کے قانون زکوٰۃ کا حشر سب کے سامنے ہے۔ قانون توہین مذہب کو طالع آزماؤں نے کس کس طرح استعمال کیا اور معاشرے پر اس کا کتنا مثبت اثر مرتب ہوا۔ سب جانتے ہیں۔

قرآن، سنت اور حدیث کو ایک سیاسی نعرہ بنا کر ذاتی منفعت کا حصول کیوں توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتا۔ شاید اس لئے کہ جارج آرویل کے بقول سب برابر ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ زیادہ برابر ہوتے ہیں اور ان سے پوچھنا اس معاشرے میں کفر کے برابر ہے اور اس کی سزا بھی ارتداد والی ملتی ہے۔

1977 میں یہ لوگ نورانی، مودودی، مفتی محمود، احسان آلہی ظہیر، ظہور الہی اور پیر پگاڑا کہلاتے تھے اور آج سراج الحق، فضل الرحمان، ساجد میر، ابو الخیر زبیر اور حافظ سعید کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 1977 میں بھی جدوجہد نظام کے نفاذ تک جاری رکھنے کا عزم تھا اور آج بھی یہی آموختہ دہرایا جا رہا ہے۔ اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو ایک معصوم سا سوال پوچھوں۔ 1977 سے لے کر 2016 تک کے عرصے میں ضیاءالحق کی مجلس شوری سے لے کر نواز شریف کی آئی جے آئی اور بی نظیر کی کشمیر کمیٹی سے لے مشرف کے زیر سایہ ایم ایم اے کی حکومت میں شمولیت کیا اس بات کا مظہر نہیں تھی کہ آپ کی جدوجہد کامیاب رہی، نظام مصطفی نافذ ہو گیا اور اسلام کا بول بالا ہوا وگرنہ آپ جیسے متقی ایک کافرانہ نظام کا حصہ تو نہ بنتے۔ تو اگر مقصد حاصل ہو چکا ہے تو اب یہ تحریک کیوں اور اگر حاصل نہیں ہوا تھا تو پھر کیا جدوجہد محض کرسی کے حصول کا راستہ تھا۔ کیونکہ جہاں کرسی ملی وہاں نظام مصطفی سے وفا کا نعرہ غتر بود ہو گیا۔ اب اصل کہانی کیا ہے۔۔۔ سچ کیا ہے بولئے تو سہی۔ نظام رامپوری نے کہیں آپ کے لئے ہی تو نہیں کہا تھا۔۔۔

آپ سے ایسی بے وفائی ہو
یہ یقیں آپ پر  نہیں  آتا

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments