دعا کی طالب عاصمہ جہانگیر کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال


بزرگوں سے سنا تھا کہ نیک لوگ جب وفات پاتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک اطمینان اور نور سا ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں نے اس وقت دیکھی جب محترمہ عاصمہ جہانگیر کی میت کا آخری دیدار کرنے کا موقع ملا۔ حالانکہ ان کے جسدِ خاکی کو دو روز کے بعد تدفین کی جا رہی تھی لیکن ان کا چہرہ تروتازہ اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ مجھے لگا شاید میں نے ہی یہ محسوس کیا لیکن یہ بات ہر ایک کی زبان پر تھی کہ ان کا چہرہ کتنا پرسکون، تروتازہ اور گلابی لگ رہا تھا۔

ان کے گھر سے قذافی اسٹیڈیم کچھ قدم ہی دور تھا۔ جہاں جنازہ پڑھایا جانا تھا۔ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی بھاری تعداد میں قذافی اسٹیڈیم کی جان عاصمہ کے جنازے میں شرکت کرنے جا رہے تھے۔ ہم بھی اس طرف چلے گئے۔ راستے میں پنجاب حکومت کی طرف سے ان کو ٹریبیوٹ پیش کرنے کے لئے بینرز لگائے گئے تھے۔ بحرحال بہت سے لوگ جنازے میں شرکت کے لئے آ رہے تھے۔ جہاں پر کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ زندگی کے تقریبا ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں موجود تھے۔ میں جہاں بیٹھی تھی اس کے پیچھے ایک بہت بڑا پینا فلیکس لگا تھا جس پر عاصمہ جی کی بڑی مسکراتی تصویر آویزاں تھی۔ اور لکھا تھا پوری دنیا تمہیں سلام کرتی ہے۔

اس وقت میرے لئے خود پر قابو پانا مشکل تھا۔ میرے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میں سامنے موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی نظر پڑی تو میں نے مشہورٹی وی شخصیت جگنو محسن کو دیکھا جو زاروقطار رو رہی تھیں۔ اور کسی سے فون پر کہہ رہی تھیں کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں عاصمہ کے جنازے میں موجود ہوں۔
ان کے جنازے میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ وکلا، سول سوسائٹی، اداکار، میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ، سیاست دان، عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے، سکھ، امیر غریب غرض کے کوئی پیچھے نہیں رہا۔

نمازِ جنازہ میں خواتین بھی ایک طرف کھڑی تھیں اور انہوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ بعد میں میت کو تدفین کے لئے میت کو بیدیاں روڈ لاہور میں واقع فارم ہاوس لے جایا گیا۔ اس وقت ہر انکھ اشکبار تھی۔ وکلا نے ان ایمبولینس کے سامنے عاصمہ کا مشن جاری رکھنے کا عہد بھی کیا اورنعرے بازی سے عاصمہ کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

Asma Jahangir funeral

اور اس طرح ایک بہادر نڈر، جمہوریت پسند، انسانی حقوق کی علم بردار، صفِ اول کی وکیل عاصمہ چلی گئیں۔ دنیا میں ہر طرف سے ان کی وفات پر تعزیتی پیغامات آ رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق نے بھی ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ جہاں دنیا بھر میں ان کے چاہتے والوں کی تعداد بے شمار ہے وہیں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ انے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آ خر عاصمہ جیسی شفاف خاتون کسی کے لئے کیسے خطرہ ہو سکتی تھیں۔ اپنی جمہوری سوچ کے باعث ان پر غداری اور اسلام دشمنی تک کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جو کو ابھی کے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ان پر لگتے آئے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جس طرح زہر میرے خلاف سوشل میڈیا پر اگلا جا رہا ہے حیرت ہے کہ میں زندہ کیسے ہوں۔ کون کتنا محبِ وطن ہے یا کتنا مسلمان اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے۔ اور اس پر کوئی کیسے فتوی لگا سکتا ہے کہ کون کتنا مسلمان ہے؟

عاصمہ تو ہر کمزور کا ساتھ دیتی تھیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم کے خلاف بھی مودی کو للکارا، فلسطینی ہوں یا روہنگیا مسلمان، خواتین ہوں یا بچے یا پھر اقلیتیں وہ ان سب کی آواز بنیں۔ بہت سے غریب لوگوں کے حقوق کی خاطر انہوں نے طاقت ور ترین لوگوں کی مخالفت کی۔

ہم نے عام مشہور میڈیا میں رہنے والی خواتین کی طرح ان کو بنا سنورا نہیں دیکھا۔ سادہ سے کپڑوں میں خود کو رکھنے والی، چہرہ میک کے بغیر ہوتا تھا۔ کیوںکہ ان کی زندگی کا مقصد ان سب چیزوں سے بڑا تھا۔ انسانی حقوق کے لئے اور جمہوریت کے لئے جدودجہد جو کہ سولہ برس کی عمر سے ہی انہوں نے شروع کررکھی تھی۔ جب اپنے اسکول میں انتظامیہ کی مرضی سے ہیڈگرل کا انتخاب کیا گیا تو عاصمہ نے آواز بلند کی اور ہیڈ گرل کے چناؤ کے لئے الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔ عاصمہ نے نہ صرف ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کی بلکہ سول حکومتوں کے ڈکٹیٹر والے قوانین کے بھی ڈٹ کا مخالفت کی۔

میں نے کبھی کسی مرد کو بھی اس نڈر انداز میں بولتے نہیں سنا جیسے عاصمہ بولتی تھیں۔ انہوں نے پہلی بار انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی اور ویمن ایکشن فورم بھی بنایا تاکہ خواتین کے حقوق کے لئے بات کی جا سکے۔ انہوں نے بھٹہ مزدوروں، چائلڈ لیبر اور لڑکیوں کی پسند سے شادی کے لئے بھی آواز اٹھائی اور پارلیمنٹ سے قوانین منظور کروائے۔

انسانی حقوق پر بات کرنے والی طاہرہ عبداللہ نے بالکل صحیح کہا کہ ایسی شخصیت سالوں نہیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ عاصمہ نے نہ صرف اپنے حامیوں بلکہ مخالفین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر بھی آواز اٹھائی چاہے وہ طالبان کا ماورائے عدالت قتل ہو، یا ان پت تنقید کرنے والے الطاف حسین پر لگنے والی پابندی کے خلاف مقدمہ لڑا۔ ایک اور لال ٹوپی والی شخصیت جو زہر اگل رہی ہے ان صاحب کو جب سعودی عرب میں کسی جرم میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی تو عاصمہ نے اس کی مخالفت بھی کی۔

اسی لئے صحافی مبشر علی زیدی نے ایک ٹویٹ میں لکھا:
“اور جب جہنم کے فرشتے فتویٰ فروش مولویوں کو سیخ میں پرو کر آگ پر بھون رہے ہوں گے تو ایک دیوانی عورت کالا کوٹ پہن کر خدا کی عدالت میں آئین آسمانی کی شق غفور الرحیم کے تحت گناہ گاروں کی بخشش کے لیے دلائل دے گی وہی عاصمہ جہانگیر ہوگی۔ “

میں نے بہت سے لوگوں سے سنا کہ عاصمہ ہر انسان کی پہنچ میں تھیں۔ ایک فون پر ہی وہ غریب لوگوں کو اپنے گھر بلا بھی لیتی تھیں اور خود ان کے گھر چلی بھی جاتی تھیں۔ ایسی ہی ایک خاتون جنازے میں مجھے ملیں جو کہہ رہی تھیں کہ اوکاڑہ میں مزارعین کی زمینوں پر قبضے کیے گیئے اور ان کے والد اور بھائی کو کیس کروا کر جیل بھیجا گیا اس وقت عاصمہ نے ان کا مقدمہ مفت میں لڑا اور رہائی دلوائی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ عاصمہ اس کے والد سے کہتی تھیں کہ مجھے بس دعا دے دیں۔ یہ تو ایک کہانی ہے اور پتا نہیں کتنے مجبوروں کی عاصمہ نے مفت میں قانونی مدد کی ہے جن کی دعائیں بے شک عاصمہ کو ضرور پہنچیں گی۔ اور اللہ اپنے بندوں پر کیے گئے صلہ رحمی اور احسان کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ جس جس کے حقوق کی جنگ عاصمہ نے لڑی وہ دل سے ان کے لئے دعاگو ہیں۔

عاصمہ کو اس سے بڑھ کر اورکسی کا کیا اعتراف چاہیے ہو گا۔ وہ منافق نہیں تھیں شیشے کی طرح صاف اور نڈر خاتون تھیں ورنہ کبھی کوئی اتنی بہادری سے نہیں بول سکتا۔ کمزورلوگوں کے اور مشکل نوعیت کے کیسز جو مرد بھی نہیں لیتے تھے وہ عاصمہ لینے کو تیار ہو جاتی تھیں۔ ان کی خوبیوں کا اعتراف تو بڑے بڑے مرداعلیٰ پائے کے قانون دان بھی کرتے ہیں۔ طاقتور کے سامنے آواز اٹھانا جہاد سے کم نہیں جو انہوں نے ہمیشہ کیا۔ ماریں کھائیں، نظر بند جھیلی، جیلیں کاٹیں لیکن مردوں کے اس معاشرے میں بھی ہار نہیں مانی۔ میری طرٖح بہت سی اور خواتین ان کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں۔ ان کا چنا ہوا راستہ بہت کٹھن ہے لیکن کم از کم ہمیں کوشش ضرور کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں کمزور اور بے یارومددگار کی کچھ تو مدد کی جا سکے۔
فکر تو ان لوگوں کو کرنی چاہیے جو دوسروں پر جھوٹے الزامات اور فتوے لگاتے ہیں کیا انہیں اپنی موت، قبر اور آخرت بھول گئی ہے؟

اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ جہانگیر کی زندگی، مقاصد اور کام پر ایک نظرمیں نے عاصمہ آپا کو کیسا پایا؟ (2)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صائمہ جبار

DUNYA NEWS. PROGRAM PRODUCER/RESEARCHER

saima-jabbar has 2 posts and counting.See all posts by saima-jabbar