احتیاط کریں! کرونا ہوا میں چھ فٹ سے زیادہ فاصلہ بھی طے کر سکتا ہے


ایک نئی سائنسی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ فضا میں تیرتے ہوئے ایسے ننھے آبی قطرے، جو وائرس کو ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں، چھ فٹ سے زیادہ فاصلہ بھی طے کر سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر وضع کی گئی ہیں۔ ان میں ایک فرد سے دوسرے کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا بھی شامل ہے۔ لیکن کیا چھ فٹ دور رہنے سے لوگ وائرس سے محفوظ ہو جاتے ہیں؟

ماہرین اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فضا میں تیرتے ہوئے ایسے ننھے آبی قطرے، جو وائرس کو ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں، چھ فٹ سے زیادہ فاصلہ بھی طے کر سکتے ہیں۔

ایک نئی سائنسی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ کرونا وائرس چھ فٹ سے زیادہ فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ تاہم اس کی اثر پذیری میں کمی آ سکتی ہے۔

کرونا وائرس ہوا کے ذریعے پھیلنے والی وبا ہے۔ جب وائرس میں مبتلا کسی شخص کی کھانسی، چھینک، بولنے، تھوکنے یا سانس لینے سے منہ یا ناک سے خارج ہونے والی ہوا میں بخارات کی شکل میں بہت بڑی تعداد میں پانی کے انتہائی چھوٹے قطرے بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ قطرے وائرس کے لیے ایک شخص سے دوسری شخص میں منتقلی کا کام کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حجم میں بڑے قطروں میں وائرس کے ذرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن بڑے ہونے کے سبب وہ بھاری ہوتے بھی ہیں۔ اس لیے زیادہ دور جانے کی بجائے وہ قریب ہی گر جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرین چھ فٹ سے زیادہ فاصلے کو محفوظ قرار دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دوسری جانب مریض کے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے پانی کے انتہائی چھوٹے قطرے نہ صرف زیادہ دور تک جا سکتے ہیں۔ بلکہ وہ زیادہ وقت تک فضا میں اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگر کرونا وائرس کا مریض کسی کمرے یا بند جگہ پر ہو، تو ان آبی بخارات کا قیام مزید بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چھوٹے سائز کے ان آبی ذرات کی مقدار زیادہ ہو، تو قریب موجود افراد میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

چین کی ایک بائیو ٹیک کمپنی کی تیار کردہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکیسن تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔
چین کی ایک بائیو ٹیک کمپنی کی تیار کردہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔

سائنس دانوں کو تجربات سے پتا چلا ہے کہ کرونا وائرس لے جانے والے مائیکرو سائز کے آبی قطرے زمین پر گرنے سے قبل کئی منٹ بلکہ بعض صورتوں میں کئی گھنٹے تک فضا میں تیرتے رہتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق اگر یہ قطرے کسی ایسی بند جگہ پر موجود ہوں جہاں کی ہوا، ایئر کنڈیشننگ کے نظام یا پنکھے کے ذریعے پھیل رہی ہو تو وائرس زدہ یہ قطرات پورے ماحول میں پھیل جاتے ہیں اور وہاں سانس لینے والے ہر شخص کو اس وبا سے خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

تاہم وہاں موجود ہوا کی نکاسی اور تازہ ہوا اندر لانے کے عمل سے اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔

موسم سرما میں وائرس کی دوسری لہر کے خدشے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سردی کے باعث لوگوں کا زیادہ تر وقت بند جگہوں میں گزرتا ہے۔ جہاں وائرس کی موجودگی کی صورت میں دوسرے افراد میں اس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کا بند جگہوں پر جانا ضروری ہو تو وہاں سے اندر کی ہوا کے اخراج اور شفاف ہوا کی آمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوا صاف کرنے والے آلات بھی نصب کیے جائیں جو بڑی حد تک وائرس کی منتقلی کو روک دیتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ تو یہی ہے کہ زیادہ وقت کھلی فضا میں گزارا جائے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa