معصوم بچوں کے ریپ کی شرعی سزا


دقیق وعمیق موضوع ہے۔ اختصار کی خاطر، تین ذیلی عنوانات میں سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔
اول: اسلام بطور ”کوڈ آف لائف“:

ازل تا ابد، کسی بھی زمان ومکان کا کوئی بندہ بشر اگر امن کا طلبگار ہے تووہ روح اسلام تک پہنچ چکا ہے ( چاہے وہ عربی کا ایک لفظ نہ جانتا ہو)۔ اپنے داخلی وخارجی امن کوحاصل کرنے کا اکمل فارمولا، البتہ قرآن پیش کرتا ہے۔

ایک فرد کیسے ایک پرامن زندگی گذارے؟ اور ایک پورا معاشرہ کیونکر پرامن ماحول میں رہے؟ اس کے جواب میں کچھ بنیادی ٹِپس اور کوڈز (اصول)، قرآن نے عطا کیے ہیں۔ دنیا کا ہر ذی عقل انسان، قرآن کے دیے بنیادی کوڈز پر، زمان ومکان کے لحاظ سے اجتہاد کرکے اس سوال کا شافی جواب پاسکتا ہے۔

فردی الجھن پیش آگئی؟ قرآن سے قیاس کرلیجیے۔

اجتماعی مسئلہ درپیش ہے؟ چنداہل دانش مل بیٹھ کر قرآن سے اجماع کرلیں۔ اللہ اللہ خیرصلّا۔ شریعت آسان ہے۔ قرآن سے مستنبط قیاس اور اجماع۔ (اہل دانش کون؟ جو موقع محل کی مناسبت سے الاہم فالاہم کا اصول جانتا ہو)۔
یعنی اسلامی قانون کا کوڈ ہے ”قرآن“ اور اس کی تشریح ہے ”قیاس یا اجماع“۔

اب ”سنت“ کیا چیز ہے؟
سنت آپ کو“ قیاس“ اور ”اجماع“ کرنے گرسکھاتی ہے۔ قرآنی کوڈزکی مددسے ایک فرد کو قیاس کیسے کرنا ہے؟ یا اہل عقل کواجماع کیسے کرنا چاہیے؟ اس کا طریقہ رسول پاک نے قولاً وعملاً بتا دیا ہے جسے سنت کہتے ہیں۔

ایک مثال سے بات کو واضح کروں۔
کہاجائے کہ ”اپنی آمد وخرچ کو متوازن رکھو تو تنگ دست نہ ہوگے“۔ یہ جملہ پرامن معاشی زندگی گذارنے کا ایک ضابطہ اور کوڈ ہے جو قیامت تک آنے والے زمانوں کے لئے لاگو ہوگا۔ یوں سمجھ لیجیے یہ قرآنی ہدایت ہے۔

آمد و خرچ کا توازن رکھنے کے لئے بجٹ بنانا پڑے گا۔ فرض کریں اس کی عملی تشریح کے لئے پندرہ صدیاں پہلے کسی نے تھیلی میں درہم و دینار کا حساب رکھنے کا طریقہ بتایا تو اس عمل کو ”سنت“ کہیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج بھی صرف تھیلی ہی رکھی جائے گی اور صرف درہم ودینار میں ہی حساب رکھا جائے گا۔ بلکہ آپ نے اصل کوڈ کی عملی تشریح اگرسمجھ لی تو اب زمانے کے لحاظ سے تجوری میں، لاکر میں، شیئرز میں، ڈائری میں، کمپیوٹر میں، بٹ کوائین میں غرض جیسے چاہیں، اپنا بجٹ متوازن کرلیں۔ اس کو قیاس کہتے ہیں۔

تاہم، اگر بات آپ کے گھریلو بجٹ کی نہیں ہے بلکہ قومی بجٹ کی ہے توپھر بچت، تخمینہ، آمدوخرچ کا طریقہ وغیرہ وضع کرنا صرف آپ کی ذات پہ منحصر نہیں ہوگا بلکہ پوری قوم کے چنیدہ افراد مل کر اس کا فیصلہ کریں گے۔ اسے اجماع کہتے ہیں۔
امید ہے کہ قرآن، سنت، قیاس اور اجماع کا باہمی ربط واضح ہوگیا ہوگا۔ اب دوسرے عنوان پہ جاتے ہیں۔

دوم: برائی اور اس کی سزا:

انسانی مشین کے سافٹ ویئر میں، اچھائی اور برائی دونوں کے سگنل پہلے سےموجود ہیں (چاہے یکساں شدت سے یا کم وبیش)۔

اچھائی کیا ہے؟ خود کواور معاشرے کو امن بہم پہنچانے کی ہرانسانی حرکت کو ”اچھائی“ کہا جائے گا۔ امن تباہ کرنے والا ہر رویہ ”برائی“ کہا جاتا ہے۔ ہر دواعمال بارے، قرآن تین پہلو سے راہنمائی پیش کرتا ہے۔

قرآن، ”اچھائی“ کی تعریف متعین کرتا ہے۔ اچھائی کو بڑھاوادینے کی ترکیب بتاتا ہے۔ اچھے لوگوں کے لئےجزا بیان کرتا ہے۔
قرآن، ”برائی“ کی ڈیفنیشن کرتا ہے۔ برائی کی روک تھام بارے تدبیر بتاتا ہے۔ مجرم کے لئے سزا بیان کرتا ہے۔
المختصر، قرآن، انسان کے اندر اور باہر کے طاغوت سے نمٹنے کی ٹیکنیک بیان کرتا ہے۔

برائی کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ کوئی برائی، فقط قابل ملامت ہوتی ہے (فحش) اور کوئی برائی، قابل تعذیر ہوتی ہے (منکر)۔
کسی کو گالی دینا فحش کام ہے، جو قابل ملامت ہے مگر بہتان لگانا ایک منکر ہے، جو قابل تعذیرہے۔

ایک دوست کسی دوست کو حرامی کہے تو یہ ایک دوستانہ بے تکلفی ہے۔ یہ تمسخر ہے، فحش ہے، لغو ہے، بیہودہ پن ہے۔ لیکن اگر ایک دشمن بھی یہی لفظ بولے تو بات آدمی کے میڈیکل ٹسٹ پہ جا پہنچے گی اور اب یہ عمل ” جرم ” کہلائے گا۔ بہتان اور منکر کہلائے گا اور موجب سزا بنے گا۔

زنا کرنا فحش عمل ہے۔ عورت ومرد کسی کمزور لمحے میں پھسل جائیں تو قرآن اس فطری کمزوری پرپردہ ڈالنا چاہتا ہے اور ایسا پردہ کہ اگر کسی نے اچانک ان کو زنا کرتے دیکھ لیا ہو تو اس کو بھی منہ بند رکھنے کا حکم دیتا ہے (اگر چارسے کم گواہان ہیں تو قذف کے کوڑے مارے جاسکتے ہیں)۔

مگر کسی کے ساتھ ”زنا“ کرنے اور کسی کو“ریپ“ کرنے میں فرق ہے۔ دونوں کام عمل کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں مگر ایک کام باہمی رضامندی سے ہوتا ہے جبکہ دوسرا کام جبرسے ہوتا ہے۔ پس پہلا کام ”فحش“ ہے (قابل ملامت)، دوسرا کام ”منکر“ ہے (قابل تعزیر)۔ (“چندہ لینا“ اور ”بھتہ لینا“، شکل میں ایک جیسے ہونے کے باجود، ماہیت میں متضاد عمل ہیں۔ “چندہ دہی“ کا اخفاء کرنا تو“ بھتہ خوری“ کی شکایت لگانا، قابل تحسین عمل ہوتا ہے )۔

آگے چلتے ہیں۔ “عموم“ اور ”استثنی“ کی بات کرتے ہیں۔
اچھائی ہو یا برائی، دونوں کی ایک قسم تووہ ہوتی ہے جونارمل کہلاتی ہے مگرایک حد سے باہرنکلی ہوئی اچھائی اور برائی بھی ہواکرتی ہے۔

عام انسانی عقل اورمشاہدے میں اچھائی اوربرائی کی کچھ حدود متعین ہواکرتی ہیں۔ بعض ”سپرنارمل“ لوگ، عام انسانی عقل کی حدود سے بھی زیادہ نیک سیرت ہوتے ہیں (فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا)۔ اسی طرح بعض ”ابنارمل“ لوگ، عام گمان سے بڑھ کر برے ثابت ہوتے ہیں۔
یہ دونوں استثنائی کیس ہوتے ہیں۔

قرآن نے عمومی اچھائی اور اس کی جزا کا واضح ذکرکیا۔
قرآن نے عمومی برائی اور اس کی سزا کا بھی واضح ذکر کیا۔ (کیونکہ یہ عموم، انسانی فطرت میں ہردور میں رہے گا)۔ ایسی سب آیات کو ”محکمات“ کہتے ہیں۔ (جس کو سمجھنا ہر آدمی کے لئے آسان ہے)۔

“استثنائی اچھائی“ اور ”استثنائی برائی“ کرنا، ہر کہ و مہ کا کام نہیں ہے۔ یہ انسانی نفسیات کا پیچیدہ ترین معاملہ ہوتا ہے اور عمومی طور پر فرد یا معاشرے کو اس صورتحال سے سابقہ نہیں پڑاکرتا۔ لہذا قرآن نے اس کا تذکرہ بھی بڑے باریک اور پیچیدہ انداز میں کیا ہے جس کو غیر معمولی دانش ہی سمجھ سکتی ہے۔

ایسے قرآنی اشاروں کو“ متشابہات“ کہتے ہیں۔ (جن پہ مغز ماری کی ہر کسی کو ضرورت نہیں ہے)۔
عمومی اور استثنائی جرم بارے، قرآنی طرزِ راہنمائی کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہابیل و قابیل تا آخر بنی آدم، قتل ومقاتلہ کا جرم باقی رہے گا۔ قتلِ انسان کی عمومی وجوہات بھی ہردور میں زن، زر، زمین رہیں گی۔ چونکہ جرم عمومی ہے تو اس کی سزا بھی قرآن محکم انداز میں بیان کرتا ہے یعنی ”جان کے بدلے جان“۔

اصول قرآن نے دے دیا کہ ”قاتل کی سزا موت ہے“۔ مگر قتل کی تفتیش، قاتل کا تعین، قصاص کا فیصلہ، اندازِ قصاص، مابعدالقصاص سوسائٹی کا رویہ وغیرہ، یہ سب ”سنت“ نے سمجھایا۔ چونکہ سنت کے ذریعہ فارمولاطے پاگیا ہے تو قاتل کے لئے، زمان ومکان کے لحاظ سے تیر، تلوار، پھانسی، کرنٹ، زہر کا ٹیکہ وغیرہ کا اجماع، اہل دانش خود کرلیں۔ (یعنی ضروری نہیں کہ قاتل کا سر ہی قلم کیا جائے اور وہ اسی سائز اور وزن کی تلوار سے جو پندرہ سو سال پہلے موجود تھی)۔

مگرآج کے دور میں ایک نیا قسم کا قاتل پایا جاتا ہے۔ یہ ریموٹ کنٹرول بم سے سینکڑوں معصوم شہریوں کو بلاوجہ ہی آن واحد میں قتل کردیتا ہے۔ یہ اس دور کا استثنائی جرم ہے۔ استثنائی صورتحال جب معاشروں کو درپیش ہوتی ہے تو وہ اپنے اہل دانش کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں۔ متمدن دنیا کی ہر قوم نے اپنے ہاں اہل دانش کی ایسی مجالس ترتیب دے رکھی ہے جن کو ”تھنک ٹینک“ کہا جاتا ہے جو ارباب اختیار کواستثنائی صورتحال میں مشورہ دیے رکھتے ہیں ( اگرچہ جمہوری پارلمنٹ یہ مشورہ ماننے کی پابند نہیں ہوا کرتی)۔

متمدن دنیا نے یہ اصول بعد میں پایا، اسلام کے پاس شروع سے موجود ہے۔ (اگرچہ ملوکیت کی بنا پرعمل میں کم ہی آیا ہے)۔

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ”تھنک ٹینک ”موجود ہے جو ”قرآنی کوڈز“ سے استنباط کرکے، استثنائی صورتحال میں گائیڈ کرسکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے لبرل دانشورموجود ہیں جن کو مولوی حضرات سے خاص کِد ہے اوروہ اس کونسل کی سفارشات کا مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ وہ بھی اپنا ایک ”لبرل تھنک ٹینک“ بنالیں اور“کنٹراورشل“ آراء کے متبادل اپنا ”منطقی ورژن“ بھی ریاست کے سامنے پیش کیا کریں تو بات بنے گی۔ ورنہ تنقید کرنا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔

خلاصہ مذکورہ بالا بحث کا یہ ہوا کہ استثنائی صورتحال کو اہل دانش کے اجماع سے ڈیل کیا جائے۔

سوم:زینب کے قاتل کی شرعی سزا
قصور کی ننھی کلی زینب کے ساتھ ریپ بھی ہوا اورپھر اس کو درندگی سے قتل بھی کیا گیا۔ یہ دورحاضر کا استثنائی جرم ہے۔ استثنائی مجرم کی شرعی سزا، قرآنی محکمات میں نہیں ملے گی تاہم اس جرم کی کوئی بھی ایسی سزا جو معاشرے میں امن کے فروغ کے لئےزیادہ سے زیادہ ممد ثابت ہو، وہی اسلامی روح کے قریب اور شرعی سزا شمار ہوگی۔

چنانچہ اس استثنائی جرم کی سزا بارے چاہے آپ اسلامی نظریاتی کونسل سے راہنمائی لیں یا ملکی مشران کا جرگہ جسے پارلمنٹ کہا جاتا ہے، اس سے رائے لیں، دونوں صورتوں میں جس سزا کا بھی تعین ہوجائے اس پہ اسلام کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ (اور جب اعتراض نہ ہوتو“ سکوت“، تائید کہلاتا ہے۔ پس یہی شرعی سزا کہلائے گی)۔

یہاں میں ایک اور نکتہ واضح کردوں۔
استثنائی صورتحال بارے، کسی سوسائٹی کے اہل دانش کا جو بھی اجماع ہوگا، وہ اسی خاص کیس اور ٹایمنگ کے لئے ہی لاگو ہوگا۔ اس لئے کہ ایسا ہر کیس اپنی نوعیت اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ قصور کی بیٹی کا قاتل، 36 سالہ سیریل کلر ہے جبکہ چارسدہ کی اسماء کا قاتل 15 سالہ کزن ہے۔ اس لئے اہل دانش کے ایسے کسی اجماع کا حوالہ کسی اور کیس کے لئے دلیل یا نظیر نہیں قرار پائے گا البتہ اس سے تفہیمی مدد لی جاسکتی ہے۔ ہردور کےہر استثنائی کیس کےلئے، اہل دانش کی الگ بیٹھک ہوگی اور الگ اجماع ہوگا۔ ( چاہے آپ اس اجماع کو آرڈننس کہیں، قرارداد، رولنگ یاریفرینڈم کہیں)۔

چھوٹا منہ بڑی بات۔ زینب کے قاتل کی سزا بارے یہ خاکسار اپنی رائے بھی سامنے رکھنا چاہتا ہے۔

دیکھئے، قصاص کا فلسفہ کیا ہے؟
ایک آدمی کسی کوقتل کرتا ہے تو اب مرنے والا مرگیا۔ اس قاتل کو مارنے سے تو مردہ زندہ نہیں ہوگا۔

لیکن قرآن نے قصاص کے عمل کو سوسائٹی کے لئے زندگی قرار دیا ہے۔ یہ بڑی بلیغ بات ہے۔ “قصاص میں معاشرے کی حیات“ کی اصطلاح بارے علماء نے ایسی ایسی خوبصورت اور منطقی تشریحات پیش کی ہیں کہ انسان بے اختیار قرآنی بلاغت کی داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ “قصاص میں حیات“ بارے ایک تشریح، خاکسار کے ذہن میں بھی آئی ہے جو پیش کرتا ہوں۔

بات یہ ہے کہ جب کوئی کسی کو بے جرم قتل کرتا ہے تو اس کے پسماندگان کو ایک ایسا صدمہ پہنچتا ہے جسے ”ڈپریشن“ کہتے ہیں۔ ڈپریشن زدہ آدمی، زندہ ہوتے ہوئے بھی مرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا اعصابی نظام، اس ظلم کے شاک میں تباہ ہوجاتا ہے اور قوت عمل ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے اعصابی نظام کو اگنائیٹ کرنے (دوبارہ زندہ کرنے) ایک جذباتی سپارک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ریاست مقتول کے ساتھ کھڑی ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے، قاتل کو اسی انجام سے دوچار کرتی ہے تو پسماندگان کے پژمردہ اعصاب واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس کو کہا گیا کہ ”قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے“۔

اگر مذکورہ بالا توضیح منطقی نظرآئے تو پھر ایسے قتل جیسا کہ قصومیں رزینب بیٹی کا ہواہے، یا آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کا ہواہے، تو ایسے قتل پورے معاشرے کے اعصاب کو منجمد اور پژمردہ کردیا کرتے ہیں۔ پوری سوسائٹی ڈپریشن کا شکار ہوکر قوت عمل اور زندگی کی حرارت سے محروم ہونے لگتی ہے۔ پوری سوسائٹی کے اعصاب کو دوبارہ اگنائیٹ کرنے، معاشرے کو ہمہ جہتی تحفظ کا عملی احساس دلانے کے لئے، ایسے قاتلوں کو برسرعام چوک میں لٹکا دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).