آر ایس ایس کا فوج کھڑی کرنے کا خواب


امت شاہ اور موہن بھاگوت

سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے گذشتہ ہفتے بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہنگامی حالت میں بڑی تعداد میں فوج کھڑی کرنی ہو تو انڈین فوج کو اس میں کافی وقت لگے گا لیکن آر ایس ایس محض تین دن کے اندر لاکھوں کی فوج کھڑی کر سکتی ہے۔

یہ تو پتہ نہیں کہ وہ اپنے اس بیان سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ انڈین آرمی، فوج کے موبلائزیشن میں ان سے کہیں پیچھے ہے یا پھر یہ کہ آر ایس ایس محض ایک آواز پر فوج کھڑی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں نظم وضبط ہے اور یہ ہندو ثقافت اور مذہبی تصورات کو فروغ دینے کے علاوہ ملک میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ ہندو قوم پرستی اس کے نظریے کا محور ہے۔

یہ بھی پڑھیے

٭ انڈیا: ‘آر ایس ایس کے سکولوں میں عدم رواداری کا سبق’

٭ مودی سرکار: نعرے بہت مگر کارکردگی؟

یہ تنظیم ابتدا سے ہی ہندوتوا کی جانب مائل جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہی ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جیسی متعدد تنظیمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الک الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیموں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔

آر ایس ایس کارکن

آر ایس ایس اپنے کارکنوں کو اپنے دفاع کے لیے لاٹھی چلانے کا ہنر سکھاتی ہے

ان میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں اب اپنے ارکان کو لڑائی اور مسلح ٹکراؤ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی نوعیت ملیشیا جیسی ہے جن کا کردار انتخابات میں سماجی ٹکراؤ اور سیاسی مفاد کے حصول کے لیے دنگے فساد میں اکثر نظر آتا ہے۔

ان میں سے بعض تنظیموں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمراں جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ’گؤ رکشا‘ سمیتیوں اور ‘اینٹی رومیو’ سکواڈ جیسے پرتشدد گروپوں میں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

٭ قوم پرستی کے نام پر بڑھتا تشدد

٭ ‘مجھے تنہا چھوڑ دو جو کہنا تھا کہہ چکی’

بجرنگ دل

بجرنگ دل جیسی تنظیمیں پرتششد واقعات میں ملوث رہی ہیں

ہندو قوم پرستی کا ایک اہم پہلو فوج کے کردار کو غیر معمولی طور پر اجاگر اور مشتہر کرنا ہے۔ فوج سے وابستہ پہلوؤں کو مذہبی قوم پرستی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ابتدا سے ہی فوجی طرز کے نظم و ضبط کی پابند رہی ہے۔ اس میں نظریاتی تبلیغ کے ساتھ ساتھ کیڈروں کو لاٹھی چلانے اور اپنے دفاع کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کے ارکان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد اب لاکھوں میں ہے جو تنظیم کے سربراہ کی ایک آواز پر منظم طریقے سے فوجی ڈسپلن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

٭ سختگیر رہنما یوگی آدتیہ ناتھ یو پی کے وزیر اعلی

٭ ‘انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں’

انڈیا میں جنگجو تنظیمیں ہتھیار حاصل نہیں کر سکی ہیں اور ان کا سب سے مؤثر ہتھیار ہجومی اور اجتماعی تشدد ہے اور یہی ان کا کامیاب حربہ ہے۔

آر ایس ایس کارکن

آر ایس ایس کے سربراہ نے بہار کے شہر مظفرپور میں کہا کہ ان کی تنظیم تین دن میں لاکھوں کی فوج کھڑی کر سکتی ہے

انڈیا میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کا جو رخ رہا ہے اس میں خاطر خواہ نئی ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہو سکے۔ اس مدت میں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریوں کے ساتھ بے کار بیٹھے ہیں۔ ملک میں بے چینی روکنے کے لیے ان لاکھوں نوجوانوں کو کہیں نہ کہیں مصروف رکھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس کی مختلف تنظیمیں ان بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ملازمتوں کے وافر مواقع نہ بن پانے اور سوشل میڈیا کی نئی آزادی وہ تمام عوامل فراہم کر رہی ہے جو ملک میں تشدد میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ حکمراں جماعتوں سے وابستگی کے ساتھ ملیشیا جیسی تنظیموں کے فروغ اور مستحکم ہونے سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

برما، پاکستان، سری لنکا اور نیپال نظریاتی تنظیموں اور ملیشیا گروپوں کے سبب منظم تشدد کا سامنا کر چکے ہیں۔ انڈیا کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ان ملکوں کے تجربوں سے سبق سیکھے اور جمہوریت کی بقا کے لیے ان جنگجو تنظیموں کو محدود کرنے کے راستے تلاش کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp