ذکر کچھ روادار مولویوں کا


شبلی نعمانی

راقم کی اکثر تحریروں کی تان مذہبی لیڈروں کی کج خلقی، کم عقلی اور عدم برداشت پر ٹوٹتی ہے۔ بدقسمتی سے حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن شاذ شاذ ہمیں ایسے علماء بھی نظر آتے ہیں جو مذہبی تعصب اور مسلکی نزاع پر اسلامی اصولوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ شرافت کا پیمانہ مقرر کرنا آسان ہے۔ کون ہے جو احمدیوں سے بات کرتے ہوئے تہذیب اور انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا؟ احمدیت کے ذکر سے ہی اکثر علماء کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ اور اگر کوئی احمدیوں کے لئے نرمی برتتا مل جائے تو اس کا اسلام مشکوک اور نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔

یہاں ان چند شریف مولویوں کا تذکرہ مقصود ہے جو اگر آج زندہ ہوتے تو شاید زیادہ دیر زندہ نہ رہتے۔

شبلی نعمانی:

علامہ شبلی کے نزدیک جماعت احمدیہ ایک ‘باطل فرقہ‘تھی۔ وہ بانی جماعت احمدیہ کے ہم عصر تھے لیکن برصغیر کے ایک ممتاز عالم ہونے کے باوجود تکفیر سے اجتناب رکھا۔ مولانا سید عبدالواحد ایک معروف بنگالی عالم دین تھے۔ کئی کتب کے مصنف تھے۔ احمدی کتب کے مطالعہ کے بعد جماعت کی طرف مائل ہوئے اور تحقیق کے بعد مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت کا ارادہ کر لیا۔ لیکن قادیان جانے سے قبل انہوں نے برصغیر کے تمام ممتاز علماء سے ملاقات کا قصد کیا تاکہ ان سے احمدیت کے حق یا باطل ہونے کے متعلق تمام اوہام پر بات کی جائے۔ سفرنامہ نہایت دلچسپ اور پڑھنے کے لائق ہے۔ مولانا نے شبلی تعمانی صاحب سے لکھنو جا کر ملاقات کی۔ شبلی کی بیٹھک میں تخلیہ پا کر بے تکلفی سے سوال و جواب کیے۔

پہلا سوال تھا کہ علامہ صاحب نے جماعت احمدیہ کے رد میں کوئی کتاب یا مضمون کیوں نہیں لکھا۔ علامہ صاحب نے جواب دیا کہ ہرچیز کا رد کرنا یا مقابلہ کرنا لازم نہیں۔ باطل تحریکوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ اس کے جواب میں مولانا عبدالواحد نے حدیث سنائی جس کا مفہوم تھا کہ اگر دین کو نقصان پہنچانے والے فتنے کھڑے ہوں تو ان کا مقابلہ نہ کرنا اللہ کی لعنت کاموجب ہوجاتا ہے اور نیک اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ اس دلیل کو سن کر شبلی خاموش ہوگئے اور جواب نہ دیا۔ مولانا نے انتظار کیا اور جواب نہ پا کر اگلا سوال عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق پوچھا۔ یہاں بھی مختصر سی بحث ہوئی اور ایک دلیل سن کر شبلی پھر خاموش ہوگئے اور بحث نہ کی۔ اس خاموشی پر مولانا نے تیسرا سوال مسیح موعود کے نزول کے متعلق پوچھا۔ یہاں شبلی نے ایک نکتہ احادیث کی نوعیت کے متعلق پیش کیا۔ جوابی دلیل بھی بہت وزنی تھی۔ شبلی نے پھر سکوت کیا اور ایسا طویل سکوت تھا کہ مولانا عبدالواحد کو جواب کی امید نہ رہی۔ پھرایک اور مہمان تشریف لے آئے اور سوال جواب کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ عبدالواحد صاحب کہتے ہیں کہ میں یہاں علامہ شبلی کی عالمانہ شان کا قائل ہوگیا۔ علامہ نے انہیں کوئی تسلی بخش جواب تو نہ دیے لیکن زودبحثی نہ کر کے اپنی شرافت کا ثبوت دے دیا۔

کئی سال بعد 1912 میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد ندوہ کے جلسہ میں شریک ہونے لکھنؤ پہنچا جس کی قیادت بانی جماعت احمدیہ کے صاحبزادے مرزا بشیرالدین محمود کر رہے تھے۔ اس جلسہ میں مشہور مصری عالم رشید رضا بھی موجود تھے۔ مولانا شبلی نے صاحبزادہ صاحب سے ملاقات کی اور جب ایک احمدی مرد کی غیر احمدی خاتون سے شادی کے متعلق فنویٰ کا ذکر ہوا تو مولانا شبلی نے ایسے نکاح کے جائز ہونے کے متعلق اپنی رائے دی اور اپنے ساتھی علماء کے مخالف فتوے پر بے بسی کا اظہار بھی کر دیا۔

عبیداللہ سندھی

عبیداللہ سندھی:

مولانا عبیداللہ سندھی علمائے دیوبند میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ حد درجہ کے حریت پسند اور حق گو تھے۔ اپنے مذہبی اور سیاسی مشن میں قربانیوں سے بھرپور زندگی گزاری اور اصولوں پر تاحیات قائم رہے۔
دیوبندی علماء کے رجعت پسند حلقوں میں مولانا سندھی ایسے مقبول نہ رہے۔ ہندوستان چھوڑ کر افغانستان، ترکی اور حجاز میں اپنی ساری زندگی گزار دی۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول مولانا نورالدین سے عقیدت مندانہ تعلق تھا جس کا اظہار ساری عمر کرتے رہے۔ مورخین کو یہ حقائق ہضم نہیں ہوتے۔ مکاتیب عبیداللہ سندھی کے پیش لفظ میں بھی مولانا کے احمدیوں سے تعلقات پر تاسف کیا گیا ہے۔ افادات اور ملفوظات میں مولانا نے مولوی نورالدین صاحب کو قرآن کا سب سے بڑا عالم قرار دیا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مولانا کو بانی جماعت احمدیہ کے دعاوی قبول نہ تھے اور وہ پورے خلوص سے خود کو تحریک دیوبند کا سپاہی سمجھتے تھے۔

جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں بھی مولانا سندھی کا تذکرہ اچھے لفظوں میں ملتا ہے۔ انہوں نے قادیان کے کئی سفرکیے اور مولانا نورالدین سے ملاقاتوں میں مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر بحثیں بھی کیں۔ ایک دفعہ بحث ہو رہی تھی کہ مرزا صاحب کے بیٹے (جو بعد میں خلیفتہ المسیح ثانی بنے) بھی آ گئے۔ مولوی صاحب نے کسی نکتہ پر سندھی صاحب کو کہا کہ آپ میری نہیں مانتے تو ان کے لڑکے سے پوچھ لیں۔ راوی کے مطابق مولانا سندھی نے اس لڑکے کے والد کا ادب ملحوظ رکھا اور کوئی بات نہیں کی۔ راقم کی تحقیق کے مطابق مولانا احمدیوں کو مسلمانوں کا فرقہ سمجھتے تھے۔

مولانا عبدالماجد دریاآبادی

مولانا عبدالماجد دریابادی:

اشرف علی تھانوی صاحب کے مقربین میں سے تھے۔ مشہور مفسر، مقالہ نویس اور ماہنامہ صدق اور صدق جدید کے ناشر تھے۔ ان کی تھانوی صاحب سے ایک عرصہ خط و کتابت رہی اور ان خطوط سے مولانا دریابادی کا تکفیر سے انقباض مظہر ہوتا ہے۔ ان کے مرشد تھانوی البتہ اس معاملہ میں ایسے محتاط نظر نہیں آئے۔
ان کی وفات پر تقی عثمانی صاحب نے جو تعزیتی مضمون لکھا اس میں مولانا کے دینی کارناموں کے تذکرے کے ساتھ یہ اعلان بھی تھا

‘قادیانیت کے مسئلے میں ان کا نرم گوشہ پوری امت کے خلاف تھا۔ وہ پوری امت کی مخالفت کے باوجود اپنے اس موقف پر قائم رہے‘۔

مولانا دریابادی نے جماعت احمدیہ کی تکفیر کی مخالفت میں اپنے ہم مسلکوں کو دشمن بنا لیا تھا۔ ایک دوست کے استفسار پر لکھا کہ ان کی تصنیفی نگہداشت میں مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا بڑا حصہ ہے۔

فرماتے تھے کہ ‘اس عامی (دریابادی) کا مسلک اپنے اکابر سے بہت بڑی حد تک اب بھی الگ ہے‘۔ اور
‘میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے بھی ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے‘ (حکیم الامت صفحہ 233۔ 234)۔

ابوالکلام آزاد

امام الہند لے لقب سے معروف ہیں۔ مفسرقرآن، مورخ، نقاد، صحافی، مقرر اور اردو زبان کے محسن و مربی تھے۔ سیاست میں شرافت اور متانت کی روایت تاعمر جاری رکھی۔ تیرہ سال کی عمر میں ہی اپنے جریدے کی اشاعت شروع کر دی۔ مولانا کے بھائی ابو نصر آہ (جو نوجوانی میں انتقال کر گئے) نے قادیان کے حالات پر ایک اداریہ اخبار وکیل میں لکھا۔ ایک فقرہ یہ تھا۔

‘’’مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا۔ ’’ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھرآئیں اور کم از کم دوہفتہ قیام کریں‘‘۔ (اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے)‘۔

تاریخ احمدیہ کے مطابق آہ صاحب نے مرزا صاحب کی بیعت کر لی تھی۔ وہ خود اپنے والد کے خلیفہ تھے اور کئی مرید ان سے بیعت کا تعلق رکھتے تھے۔

عبدالرزاق ملیح آبادی نے ذکر آزاد میں مولانا آزاد کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے جو ایک صاحب نے بذریعہ خط طلب کیا تھا۔ سوال سے ظاہر تھا کہ سائل کسی طرح مولانا کو احمدیوں کی تکفیر پر مجبور کر رہا ہے۔ جواب میں مولانا جو دلائل دے کر تکفیر سے اجتناب کیا وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ اسی ضمن میں مولانا آزاد کے قادیان کے سفر کا ذکر بھی ہوا ہے۔

شواہد بتاتے ہیں کہ مولانا آزاد نے یہ سفر اپنے بھائی کی قادیان سے واپسی کے کچھ دن بعد کیا۔ یہ مئی 1905 کے واقعات ہیں۔ آزاد کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ ہوگی لیکن وہ اپنی قابلیت کا لوہا پورے ہندوستان میں منوا چکے تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کا حال بھی تحریر کیا ہے۔ اگرچہ کہ ان پر اس ملاقات کا وہ اثر نہ ہوا جو ان کے بھائی لے کر لوٹے تھے لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ مرزا صاحب کی تحریرات سے خوب واقف تھے اور ان کے قدردان بھی تھے۔ مرزا صاحب کی وفات پران کے اخبار وکیل کا اداریہ اس بات کی گواہی دیتا ہے۔

برسوں بعد جب سن 1930 کی دہائی میں احرار کی یورش اپنے عروج پرتھی، مولانا آزاد پر کئی تکفیری طبقوں کی طرف سے احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دینے پر زور ڈالا گیا لیکن انہوں نے اپنا دامن اس داغ سے محفوظ رکھا۔

ان صاحبوں میں ایک قدر مشترک اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان کے اپنے ہم مسلکوں نے ان پر کفر کے فتوے جاریکیے۔ افسوس یہ ہے کہ ان صلح پسند علماء کے نام لیوا اب بھی بہت سے ہیں لیکن قابل اتباع وہ مولوی ٹھہرے جو فتاوی تکفیر میں مشاق تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments