جرمنی کے گوئبلز سے کشمیر کی آسیہ تک


جوزف گوئبلز ہٹلر کا پروپگینڈا منسٹر تھا۔ ہٹلر کے ہر جھوٹ کو اس نے سچ بنا یا، ہٹلر کے ہر گناہ کو اس نے عوام کے سامنے نیکی بنا کر پیش کیا۔ ہٹلر نے اگر دن کو رات کہا تو گوئبلز نے عوام کو یہ یقین دلوایا کہ رات ہی ہے۔ ہٹلراکیلا جرمن قوم کو کبھی بھی جنگ پر نہیں اکسا سکتا تھا، یہ گوئبلز کا ہی کمال تھا کہ جرمن قوم نے جنگ کو ہی اپنا مسیحا سمجھا۔ اس کی مثال آپ کو جورج آرول کے مشہور زمانہ ناول نائنٹین ایٹی فورمیں ان الفاظ میں ملے گی
War is Peace
Freedom is Slavery
Ignorance is Strength

جورج آرول کا یہ ناول ایک یوٹوپیا ہے لیکن گوئبلز نے ایسی یوٹوپین دنیا کو حقیقت کا روپ دیا۔ اس نے حقیقتا جرمن قوم کو یہ بات باور کروائی کہ جنگ امن ہے، ٖفیورر (ہٹلر)کی غلامی ہی حقیقی معنوں میں آزادی ہے۔ گوئبلز کی اہلیہ ماگدا گوئبلزنازی پارٹی کی اہم رکن بھی تھی اور ہٹلر کی ساتھی بھی۔ یہاں تک کہ اسے جرمنی کی غیر سرکاری خاتون اول بھی کہا جاتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر جب جرمنی جنگ ہارنے کے بعد ریڈ آرمی کے قبضے میں آگیا تھا تب ہٹلر اور اس کے بہت سے ساتھیوں نے اپنے عبرتناک انجام کو بھانپتے ہوئے خود کشی کر لی تھی۔ ہٹلر کی خود کشی کے بعد اس کی لاش کو اس کے حامیوں نے جلا دیا تاکہ دشمن اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔ اسی طرح گوئبلز اور اس کی بیوی نے اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد خود کشی کر لی تاکہ وہ بھی دشمنوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔ ان کے لیے موت مستقبل کی اذیت ناک زندگی سے نجات کا پروانہ تھی۔ یہ اقدام اچانک سے نہیں کیا گیا بلکہ یہ پلان پہلے سے ہی مرتب کیا گیا تھا۔

مگدا گوئبلز یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ وقت آنے پر اس کو خود موت کو گلے لگانا ہو گا۔ جن ہاتھوں سے اس نے اپنے چھ بچوں کو پروان چڑھایا ان ہی ہاتھوں سے اس نے ان کو زہر بھی دیا۔ اپنی زندگی کے اس المناک پہلو کو وہ قسمت کا لکھا یا دشمن کی سازش نہیں سمجھتی تھی، بلکہ وہ یہ بات جانتی اور مانتی تھی کہ وہ اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہی رہے۔ جس نفرت کی آگ میں اس نے دوسروں کے بچوں کوجھونکا اسی میں وہ خود اپنے بچوں سمیت جل کر خاکستر ہوگئی۔ اس نے اسی بابت اپنی خود کشی سے ایک ماہ پہلے اپنی ایک دوست ایلو کیونڈٹ کو ایک خط میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اپنی بربادی کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اس خط متن کچھ یوں ہے

”ہم نے جرمنی کے لوگوں پر بہت ظلم کیا ہے اور دوسری قوموں کے لوگوں کو بھی جبر وستم کا نشانہ بنایا ہے۔ اور اسی وجہ سے وکٹر ہم سے ہمارے ظلم کا بدلہ ضرور لیں گے لیکن ہم نے انہیں یہ دکھانا ہے کہ ہم بزدل نہیں ہیں۔ یہاں سب کو جینے کا حق ہے لیکن ہمارے پاس جینے کا حق نہیں ہے۔ ہم نے خود سے یہ حق چھین لیا ہے۔ میں اس کے لیے خود کو ذمہ دار ٹھہراتی ہوں۔ میں نے ہٹلر اور گوئبلز پر یقین کیا اور ان کا ساتھ دیا۔ بالفرض اگر میں زندہ رہی تو جرمنی پر قبضے کے فوراً بعد مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور مجھ سے گوئبلز سے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔ اگر میں نے سچ سے پردہ اٹھا دیا اور یہ بتا دیا کہ وہ کن مذموم جرائم میں ملوث تھا تو کوئی بھی شخص میری شکل دیکھنے کا روادار نہ ہو۔ اور میرے بچوں کو اپنی جا ن کی قربانی دینی ہو گی ورنہ مستقبل کے جرمنی میں اپنے باپ کے گناہوں کا جواب میرے بچوں کو دینا ہوگا۔ لوگ انہیں طرح طرح کی اذیت دیں گے اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جائے گی۔ تم جانتی ہو اس سب کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ ہمارے اس انجام کی بنیاد اس دن پڑ گئی تھی جب میونخ کے کیفے انست میں ہٹلر نے ایک یہودی لڑکے کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس یہودی لڑکے کو کیڑے کی طرح دیوار سے کچل دے۔ میں نے اس نفرت کو کبھی برا نہیں سمجھا اور نہ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ہٹلر بعد ازاں اسے حقیقت کے قالب میں ڈھالے گا۔ مجھے لگا کہ یہ محض جذباتی باتیں ہیں۔ مگر ایسا ہی ہوا۔ اور اب میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔“

مگدا گوئبلز کا یہ خط ہم سب کے لیے عبرت کا نشان ہے۔ یہ اس انسانی کمزوری کا بین ثبوت ہے جو خوف، مصلحت، پسندیدگی یا کسی بھی اور وجہ سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ وہ اچھے یا برے میں تفریق کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کی آنکھوں پر جیسی عینک لگی ہوتی ہے وہ دنیا کو ویسا ہی دیکھتا ہے۔ ایسی ہی ایک وجہ نیشلزم بھی ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ کسی بھی قسم کا ’ازم‘ انسان کی حق بات پرکھنے کی صلا حیت کو دھندلا دیتا ہے۔ ازم بالکل اس آئینے کی مانند ہے جس پر بھرپور لائٹنگ کی گئی ہو اور اس میں دیکھ کر آپ کو اپنا آپ نہایت اجلا اور روشن لگتا ہے۔ اس چکا چوند میں انسان اپنی بہت سی خامیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آئینہ صریحا جھوٹ بول رہا ہے۔

نیشنلزم آج کے دور کی ایسی حقیقت ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جس نے مخصوص جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگوں کو ذات پات، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ لیکن یہی لڑی اگر گلے کا پھندہ بن جائے تو پھر اس سے جان چھڑوانا بہتر ہے۔ یہ لڑی عموما گلے کا پھندہ تب ہی بنتی ہے جب اس کے ساتھ ایک اور ازم یعنی ایکسٹریمزم مل جاتا ہے۔ انہی دونوں ازمز نے جرمنی کی لنکا ڈبو دی۔ ایسا ہی معاملہ کچھ ہمارے ہاں ہے اور کچھ ہمارے پڑوس میں بھی۔

10 جنوری 2018 کو جموں کشمیر کے گاؤں کسانہ میں گجر خانہ بدوشوں کی آٹھ سالہ بچی آسیہ لا پتہ ہوئی اور ایک ہفتہ بعد اس کی مسخ شدہ لاش جنگل سے ملی۔ بعد ازاں تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ ایک ہندو ایس پی او (اسپیشل پولیس افسر) نے بچی کو ایک ہفتہ حبس بے جا میں رکھا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد نہایت بے دردی سے اس کو قتل کر دیا۔ بچی کی لاش پر انسانی دانتوں کے نشان تھے، اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ مگر اس ستم کی کہانی یہیں پر ٖختم نہیں ہوتی۔ ہندو پولیس افسر کی گرفتاری کے بعد دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں ہندو ایکتا منچ اور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے کارکنان نے بھارت کا جھنڈا کا اٹھا کر محبوبہ مفتی کی حکومت اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ مجرم دیپک کجوریا کو رہا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کوہندوہونے کی وجہ سے اس معاملے میں پھنسایا گیا ہےاوروہ کسی ہندو کے ساتھ ایسا ناروا سلوک نہیں ہونے دیں گے۔ اس پورے معاملے کا سب سے غور طلب پہلو یہ ہے کہ جس دیپک کے حق میں ان جماعتوں نے یہ کہہ کر جلوس نکالا ہے کہ اسے ہندو ہونے کی سزا دی جا رہی ہے اسی دیپک نے خود اس جرم کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے ان خانہ بدوش مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے یہ قدم اٹھا یا۔
تعصب اور نفرت انسان کو بالکل اندھا کر دیتے ہیں۔ خود انسان ہی انسانیت کا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔

آپ کا تعلق چاہے کسی بھی ملک، مذہب، ذات، رنگ یا نسل سے ہو ہیں تو آپ مٹی سے بنے ہوئے انسان۔ پھر یہ کیسی نفرت ہے جو آپ کو ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کا درد محسوس کرنے سے روک رہی ہے اور ستم یہ کہ آپ اپنے آپ کو حق بجانب بھی سمجھتے ہیں۔ یہ کیسا فسوں ہے کہ اپنی بیٹیوں میں آپ کو آسیہ نظر نہیں آتی۔ صرف اس لیے کہ وہ جموں کشمیر کے ایک مسلمان گھرانے کی بیٹی ہے۔ بی جے پی کے سربراہ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر آعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ بھارت کے ہٹلر بننا چاہتے ہیں یا چارلس ڈی گال۔ ان کی حکومت میں بھارتی معاشرے میں شدت پسندی اور تنگ نظری تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ دشمن کی پسپائی اور ہندواتا جیسی سستی جنس وہ اپنی عوام کو نہایت مہنگے داموں بیچ رہے ہیں اور اس کی قیمت ہندوستان کی آنے والی نسلوں کو چکانی ہو گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج پاکستان یہ ماننے پر مجبور ہے کہ ہم شدت پسندی کی چالیس سال پہلے بوئی گئی فصل آج کاٹ رہےہیں۔ جیسے مگدا گوئبلز کی غلطی کی سزا اس کے آئندہ نسلوں کو ملی۔

بھارت کے وہ لوگ جو سہ رنگی ترنگہ اٹھائے آسیہ کو انصاف دلوانے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں وہ یہ یاد رکھیں کہ اسی ترنگے کے تینوں رنگ اگرآج بھارت کے عروج کا نشان ہیں تو کل انہی رنگوںمیں بھارت کے زوال کی داستان بھی لکھی جا سکتی ہے۔ نفرت کی جو آگ بھارت کشمیر میں جلا رہا ہے کل وہی نارنجی رنگ آگ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لےسکتی ہے۔ راقم یہ لکھے گا کہ سبز پاکستانی پرچم سے نفرت میں بھارت اس قدر اخلاقی اندھا ہو گیا کہ اسے سفید کفن میں لپٹی آسیہ کی لاش نظر نہیں آئی۔ ساحر لدھیانوی کا کہنا ہے

پھلتی نہیں ہے شاخِ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے

ہر وہ معاشرہ جہا ں عصبیت اور نفرت انسانوں کا شعار بن جائیں وہ معاشرہ آخر کار تباہ ہوجاتا ہے۔ پھر چاہے وہ تباہی جنگ کی صورت میں ہو یا اخلاقی فقدان کی صورت میں۔ اور یہ سبق صرف بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو یاد رکھنا ہے۔ اگر نہیں یاد رکھے گی تو آج شاید ہمیں کسی زینب، آسیہ، اقبال مسیح کا درد محسوس ہوتا ہے کل شاید وہ بھی نہ ہو۔ آج قلم ان کا نوحہ لکھ رہا ہے کل شاید احساس کی روشنائی ہی نہ رہے۔ ساحر لدھیانوی کی ایک خواہش جس کی قبولیت میں ہی ہماری بقاہے

مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).