سپریم کورٹ کا سپر فیصلہ ۔۔۔ شیر نااہل، اک واری فیر نااہل


دو خبریں بڑی اہم تھیں۔ ایک نااہلی کے بعد کے سارے فیصلے کالعدم اور دوسرا جہاں میں رہتا ہوں، وہاں کی کرپٹ انتظامیہ کا رخصت ہونا۔ سچ پوچھئے اوپر اللہ کی ذات ہے، جس نے ایک بندے کو ہمت دی اور ایک شخص عوامی طاقت سے ان چوروں کو عدالت میں لے کے آیا۔ کتنے مایوس تھے لوگ جس دن عمران خان نے لاک ڈاﺅن کے بعد عدالتوں میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی کیا دن تھا۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ بنی گالہ میں ڈنڈ بیٹھکیں لگا رہی تھی اور کچھ میرے جیسے من چلے سڑکیں بلاک کر رہے تھے اور پولیس سے پھنڈھ کھا رہے تھے۔ اس دن کی مایوسی اس قدر کہ ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ عمران خان نے پارٹی کو بند کر دیا ہے۔ اللہ ہے ناں۔ عدلیہ کے پاس گئے تو ایسا لگا پی ٹی آئی کو مایوسی ہو گی لیکن 28 جولائی کی وہ شاندار گھڑی جب سپریم کورٹ کے باہر میرے نعرے گونج رہے تھے ان نونیوں کے مقابل گلا بیٹھ گیا۔ اندر گئے تو سب تھکاوٹیں دور ہو گئیں۔

مزاحمت کے سو رنگ۔ گزشتہ چھ ماہ میں جو کچھ ہوا اس میں جگ ہنسائی ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کو اٹھا کے پھینک دیا گیا۔  ایک طرف عدلیہ نے جھوٹ اور مکار کے حامل شخص کو منصب سے نکال باہر کیا۔ صرف اسے ہی نہیں، انہی الزامات کے تحت جہانگیر ترین بھی گئے۔ ایک سڑک پر نکلا اور کیوں نکالا؟ کیوں نکالا؟ کی چیخیں آسمانوں تک پہنچائیں۔ دوسرا خاموشی سے نکل گیا اور جاتے ہی پارٹی کی انتہائی اہم پوسٹ سے استعفی دے دیا۔

نواز شریف نے ایک اور ظلم کیا کہ اپنی پارٹی کو دھونس خوف اور لالچ سے قابو میں رکھا اور اسمبلی میں ایک ایسا بل پاس کرا لیا جس سے وہ دیگر عوامی عہدے حاصل کر سکنے کا پرمٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ موصوف نے کیوں نکالا کی تان کچھ اس انداز سے لگائی کہ یہ آہستہ آہستہ ایک نعرہ بن گیا۔ سادی اور بھولی بھالی قوم کو لالچ دے کر چند جلسیاں کیا کر لیں۔ حضرت سمجھنے لگے کہ میں قانون سے بالاتر ہوں۔ دو روز سے اسمبلی کے فلور پر عدلیہ کے ساتھ کھلی مخاصمت کا اعلان کیا اور وہ لوگ منہ کھولنے لگے جن کو گھر میں مشورہ کرتے وقت دکان پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اسمبلی کے فلور پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اور لوگوں نے ایک تماشہ دیکھا۔ انہیں یہ علم تھا کہ قانون اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریروں سے صرف نظر کرتا ہے مگر یہ تو حد تھی کہ کہا گیا کہ عدلیہ مقننہ کے ماتحت ہے۔ یعنی ایک بحث چھیڑ دی گئی کہ مرغی پہلے آئی یا انڈہ۔ اور آج ایک اور تاریخی فیصلہ آ گیا کہ کہ 28 جولائی کے بعد جتنے بھی فیصلے ہوئے جو بھی آئین و قانون میں تبدیلیاں کی گئیں سب غلط۔ یعنی ختم نبوت کے بل میں جو تبدیلی کی گئی وہ بھی غلط اور اس میں جو اصلاح کی گئی وہ بھی غلط گویا ختم نبوت کا قانون اصل حالت میں واپس آ گیا۔ اس قانون کے ساتھ جو چھیڑ خانی کی گئی یہ دراصل ایک سازش تھی۔ اور دنیا جانتی ہے کہ اس قانون میں تبدیلی لانے کی بات نواز شریف پہلے کر چکے ہیں۔ توہین مذہب بل میں ہیرا پھیری کی خواہش اسلام دشمن لابی عرصے سے چاہتی ہے، اس کے لئے ماڈرن لبرل فسادئیے عرصہ دراز سے کوشاں ہیں۔ نواز شریف کو جہاں تک میں جانتا ہوں اور بڑے قریب سے جاتا ہوں، وہ ہر وہ کام کر جائے گا جس میں دو پیسوں کا فائدہ ہو۔ اقتتدار کے دن لمبے ہوں۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں میں ان جیسے لوگوں کی اکثریت رہی ہے لیاقت علی خان کے بعد اس منڈی میں کچرا ہی آیا۔ یہاں جن لوگوں کو بڑا معصوم اور پاک و پوتر قرار دیا جاتا ہے ان کے کرتوت تاریخ کے صفحات میں دفن ہو چکے ہیں۔

میاں نواز شریف اگر اچھے سیاست دان ہوتے تو چپکے سے اس فیصلے کو قبول کرتے اور نظر ثانی کی اپیل میں جا کر تاعمر ناہلی کی مدت کے تعین کے بارے میں اختصار کا مطالبہ کرتے مگر انہوں نے خود اور اپنی بیٹی کو ساتھ رکھ کر جلسوں میں عدالتوں کا مذاق اڑانے میں لگا دیا۔ کہتے ہیں بیٹے باپ کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں یہاں معاملہ الٹ تھا یہاں ایک بیٹی نے باپ کو اپنے راستے پر چلا لیا۔ یہاں باپ بھی بیٹی کی راہوں پر چل نکلا۔ نتیجہ کیا ہوا میاں نواز شریف ایک ایسی بند گلی میں آن پہنچے جہاں آ کر انہوں نے اختلاف نہیں، دشمنی کا راستہ اپنایا۔ یہ بات مضحکہ خیز تھی کہ اعلی عدالت سے ٹھکرایا گیا نواز شریف دوسرے عہدوں کے لئے اہل ٹھہرا دیا گیا۔ یہاں آ کر اسمبلی کی پیداواری صلاحیت کا پتہ چلا جس نے ملک کی اعلی عدلیہ کو ٹھینگا دکھایا۔ میں سمجھتا ہوں عدلیہ کو نواز شریف اور جہانگیر ترین میں فرق جان لینا چاہئے۔ ایک سر جھکا کے نکل گیا پارٹی کی جنرل سیکرٹری شپ چھوڑ دی۔ دوسرے نے اس ترمیم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ جنرل سیکرٹری تو رہ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

آج کے فیصلے نے ان لوگوں کے ذہنوں سے یہ خناس نکال دیا ہے کہ عدلیہ کمزور ہے۔ عمران خان نے دھڑلے سے کہا ہے کہ میں جلسے کر کے دکھاﺅں گا۔ لوگ سمجھنے لگے کہ شائد خان کے ساتھ عوام نہیں ہیں۔ عوام ہیں اور لوگ اپنے قائد کو کسی دو نمبر لیڈر کے ساتھ کھڑا نہیں دیکھنا چاہتے ویسے بھی رضوی نے قادری کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی ہے۔ یہ چیز شیخ رشید کو سمجھ آ جانی چاہئے۔ لاہور میں جو ہمالہ جیسی غلطی ہوئی وہ صرف تحریک انصاف کی غلطی نہ تھی ۔یہ لوگ تو اظہار یک جہتی کے لئے گئے۔ پیپلز پارٹی کے پاس تو تھا ہی کچھ نہیں۔ وہ بندے کیا نکالتی۔ طاہر القادری کے لوگ سمجھتے رہے کہ تحریک انصاف ہے ناں، ویسے بھی جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پیری مریدی تاحیات چلتی ہے انہیں بھی سبق مل گیا ہے۔ لوگ گالیاں دے کر قادری صاحب کا سودا لوٹ لے گئے۔ 2018 میں اس نئے پہلوان کو جو بھی نظر انداز کرے گا نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔ لاہور میں جو ہوا وہی کہ کسی نے سوچا کہ کام جو دیا گیا ہے، کوئی اور کر لے گا اور عین ٹایم پر کسی نے وہ کام نہیں کیا۔

آج تاریخ لے لمحوں نے دیکھ لیا ہے کہ عدلیہ زندہ ہے اور اس میں بیٹھے ہوئے لوگ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف کا اصل مقام جیل ہے اور انہیں علم ہے کہ کیس بڑا تگڑا ہے۔ سچی بات ہے جیلیں بنائی کس لئے جاتی ہیں کہ اس میں مجرم رکھے جائیں۔ یہ حیران کن عمل تھا کہ مجرم آنکھیں دکھا رہا تھا۔ اس دوران یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف نشہ ہے۔ مان لیا مگر وزارت صحت نے یہ اعلامیہ بھی جاری کر رکھا ہے کہ نشہ ایک لعنت ہے۔ نواز شریف اور اس کے ہمنوا نشئی ہیں انہیں طاقت دولت کا نشہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ خرید لیا جائے۔ مانا ماضی میں عدالتیں بکتی رہی ہیں۔ چمک کا کام چلتا رہا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ ادارے افراد کی وجہ سے نیک نام ہوتے ہیں۔ ہماری عدلیہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس پاکستان کی عدلیہ ہے جو ایک وکیل کی جد وجہد سے بنا تھا، جسے پہلے پاکستانی چودھری رحمت علی نے سوچا تھا جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ افراد مر تو جاتے ہیں۔ اس دنیا سے پردہ تو فرما جاتے ہیں مگر اپنے جیسا نہیں، کچھ ملتا جلتا شخص اس دنیا میں ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہماری عدلیہ کو سلامت رکھے۔ قوم اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر کوئی شک ہے تو عمران خان کے جلسوں کو دیکھ لینا۔ یہ فیصلہ میرے اللہ کا کرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).