ایک مدھم نیلے نقطے کے کچھ احمق باسیوں کے نام  (1)


ہم زمین نامی جس کرے پر آباد ہیں وہ ایک سورج نامی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔ اس محبت میں یہ اکیلا مبتلا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سات سیارے، پلوٹو سمیت کوئی پانسو بونے سیارے، چار سو پچھتر قدرتی سیارچے، سات لاکھ پچاس ہزار چھوٹے سیارہ نما اور تین ہزار چار سو چھ برفانی دمدار اجسام بھی اس کی کشش میں گرفتار ہیں۔ چھ ارب انسانوں سے بسا یہ ہمارا سیارہ حجم کے اعتبار سے نظام شمسی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر زمین کے مرکز سے زمین کی سطح تک ایک لکیر کھینچی جائے تو یہ لکیر 6371 کلومیٹر طویل ہو گی۔ اسے ہم نصف قطر کہتے ہیں۔اسے دو سے ضرب دیں تو یہ ہمارا مکمل قطر ہو گا یعنی کوئی 12742 کلومیٹر۔ جو سیارے ہم سے چھوٹے ہیں ان میں زہرہ، مریخ اور عطارد شامل ہیں۔ جو ہم سے حجم میں زیادہ ہیں ان میں نیپچون کا قطر 49244 کلومیٹر ہے یعنی یہ زمین سے 388 فی صد بڑا ہے۔ یورینس ہم سے 400 فی صد بڑا ہے۔ زحل 945 فی صد اور مشتری 1120 فی صد بڑا ہے۔ دل تھام کے بیٹھیے ۔ ہمارے کوئی بارہ ہزار کلومیٹر کے قطر کے مقابلے میں یہ قطر قریبا ایک لاکھ چالیس ہزار کلومیٹر ہے۔ زمین جیسے تیرہ سو سیارے مشتری میں سما سکتے ہیں۔ پر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب سیارے اور اجسام مل کر بھی نظام شمسی کی محض اعشاریہ ایک چار کمیت کے حامل ہیں۔ مرکز میں واقع سورج باقی 99.86 فی صد کمیت سنبھالے ہوئے ہے۔ ہماری زمین کا تو ذکر ہی کوئی نہیں ہے۔ سورج کا قطر1,400,000 کلومیٹر ہے اور ہماری زمین کا حجم سورج کے دس لاکھویں حصے کے برابر ہے۔ صحرا میں ایک ذرہ ریگ سمجھیے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ پندرہ کروڑ کلومیٹر ہے۔ اگر روشنی کی رفتار سے اسے ماپا جائے تو یہ فاصلہ آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈ میں طے ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیے گا۔ دوسری بات یہ کہ سورج کی عمر کوئی ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اب آگے چلتے ہیں۔

سورج بہت بڑا ستارہ ہے پر بس اپنے نظام میں۔ قرب و جوار میں اس سے بہت بڑے ستارے بکھرے پڑے ہیں۔ سورج کا قطر ہے 14 لاکھ کلومیٹر۔ ذرا کہکشاں میں تھوڑا آگے چلیے تو سیریس اے نامی ستارہ ملے گا۔ کسی بھی رات مطلع صاف ہو تو آسمان میں برہنہ آنکھ سے نظر آنے والا سب سے چمکدار ستارہ یہی ہے۔ جہاں سورج ہم سے ساڑھے آٹھ منٹ کی نوری مسافت پر ہے وہیں یہ ستارہ ساڑھے آٹھ سال کی نوری مسافت پر ہے۔ یہ فاصلہ طے کرنے میں آج کے جدید ترین خلائی جہاز کو کوئی ایک لاکھ ستر ہزار سال لگیں گے۔ یاد رہے کہ پوری انسانی تاریخ جو کہ ہمیں کسی حوالے سے معلوم ہے وہ چھ ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے۔ سیریس اے کا قطر ہے کوئی پچیس لاکھ کلومیٹر۔ ہماری زمین جیسے لاکھوں سیارے بآسانی اس میں سما سکتے ہیں۔

اور ذرا آگے چلتے ہیں۔ یہ زرد رنگ کا بھڑکتا ہوا ستارہ پوفلکس کہلاتا ہے۔ اور اس کا قطر ہے ایک کروڑ بائیس لاکھ کلومیٹر۔ اس کے بعد باری آتی ہے آرکٹیورس نامی ستارے کی۔ یہ سورج سے ایک سو ستر گنا زیادہ روشن اور اس سے دگنی عمر کا ہے۔ اس کا قطر سورج سے پچیس گنا زیادہ ہے۔ حضور کوئی چھتیس نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔

اس کے بعد ایک عظیم الجثہ ستارہ ایلڈیبیرن ہے۔ یہ پینسٹھ نوری سال کے فاصلے پر ہے یعنی یہاں پہنچنے میں ہمیں کوئی تیرہ لاکھ سال لگیں گے۔ اس کا قطر سورج سے چوالیس گنا بڑا ہے یعنی تقریبا چھ کروڑ دس لاکھ کلومیٹر۔ اس کی روشنی سورج سے 425 گنا زیادہ ہے۔ پر یہ عظیم الجثہ ستارہ ایک اور ستارے اینٹیرے کے مقابلے میں بالکل بونا ہے۔ اینٹرے کی روشنی سورج سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔ ہم سے 604 نوری سال کے فاصلے پر موجود یہ ستارہ سورج سے سات سو گنا بڑا ہے۔ اس کا قطر ایک ارب پچیس کروڑ کلومیٹر ہے۔

پر ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔ ایٹاکرینے نامی ستارہ سورج سے پچاس لاکھ گنا زیادہ روشنی رکھتا ہے۔ سورج سے لاکھوں گنا بڑا یہ ستارہ اپنے ہمسائے بیٹلجوس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ بیٹلجوس نامی ستارہ جو ہم سے چھ سو چالیس نوری سال دور ہے، ایٹاکرینے سے بھی تین سو گنا بڑا ہے۔ اس سے بھی بڑا ہے وی وائے کینس مجورس، اس کا قطر سورج سے 2000 گنا زیادہ ہے۔ زمین کے مقابلے میں کوئی ایک لاکھ پچپن ہزار گنا۔ اب یہ حجم کیسے سمجھایا جائے ۔ ہمارے سورج میں ہماری زمین جیسے دس لاکھ سیارے سما سکتے ہیں اور کینس مجورس میں ہمارے سورج جیسے ایک ارب سورج غائب ہو جائیں گے۔ باقی حساب آپ خود کر لیں۔ اس سے آگے چلیں تو یو وائی سکوٹی نامی ستارہ ملتا ہے ۔ یہ ستارہ سورج سے حجم میں پانچ ارب گنا زیادہ ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ 9500 نوری سال ہے۔ یعنی اس تک پہنچنے میں ہمیں کوئی بیس کروڑ سال درکار ہیں۔ یہ طول شب فراق سے بھی کچھ پرے کا معاملہ ہے۔ روشنی کو بھی یو وائی سکوٹی کا طواف مکمل کرنے میں آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ سورج کے گرد یہی طواف ساڑھے چودہ سیکنڈ میں مکمل ہو جاتا ہے۔

یہ تمام ستارے ایک کہکشاں کا حصہ ہیں جس کو ہم ملکی وے کہتے ہیں ۔ ملکی وے ایک عظیم کہکشاں ہے جس میں اربوں نہیں بلکہ کھربوں ستارے اور ہزارہا ایسے جھرمٹ ہیں جو ہمارے نظام شمسی سے مشابہہ ہیں۔ اور یہ وہ ہیں جو اب تک ہمارے مشاہدے میں آئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ نظام شمسی جیسے ارب ہا ارب نظام ہماری اس کہکشاں میں موجود ہوں۔ روز نئی دریافت کا ایک در وا ہوتا ہے۔ ہماری یہ کہکشاں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ڈیڑھ لاکھ نوری سال کا فاصلہ رکھتی ہے یعنی ایک خلائی جہاز اگر ایک کونے سے خط مستقیم میں سفر کرے تو محض ایک پٹی جو کہ مکمل کہکشاں کے ایک کھربویں حصے سے بھی کم ہے، کو عبور کرنے میں اسے تین ارب سال لگ جائیں گے۔

ہماری اس ملکی وے کہکشاں سے پچیس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر اس کی ہمسایہ کہکشاں اینڈرومیڈا ہے۔ یہی کوئی پچاس ارب سال لگیں گے ایک خلائی جہاز کو وہاں پہنچنے میں۔ یاد رہے کہ سورج کی تشکیل محض ساڑھے چار ارب برس کا قصہ ہے۔ ہمارے مشاہدے میں ایسی ہزاروں اور کہکشائیں آ چکی ہیں اور شاید اربوں کہکشائیں ابھی ہم سے اوجھل ہیں۔ ہماری کہکشاں میں نظام شمسی کی حیثیت سمندر میں موجود ایک قطرے سے بھی کم ہے۔ ہماری زمین کا تو ذکر ہی کیا۔ کہکشاں سے روشنی کی رفتار سے نکلیے تو پانچ ارب نوری سال کے فاصلے پر کائناتی جال یا کاسمک ویب ملے گا۔ یہ جال کھربوں کہکشاوں پر مشتمل ہے۔ لیکن یہاں کہانی ختم نہیں ہوتی۔ یہ تو بس پانچ ارب نوری سال کا فاصلہ ہے۔ ایک خلائی جہاز کو یہاں پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا یہ بتانے کے لیے ہمارے پاس کوئی ایسا ہندسہ نہیں جو عام فہم میں آ سکے لیکن اس کے بھی بہت باہر 200 نوری ارب سال کی دوری پر بگ بینگ سے پیدا ہونے والی اس کونیاتی تابکاری کی باقی رہ جانے والی روشنی موجود ہے جس سے شاید ازل کی تار بندھی ہے۔ پر رکیے۔ شاید اس کے آگے بھی کچھ ہے۔ اب ہم کثیر کائناتی نظریے کے بارے میں تحقیق شروع کر چکے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کئی کائناتیں موجود ہوں۔ یہ ایسا حساب ہے اور یہ ایسے فاصلے ہیں جنہیں ہم ابھی مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوئے لیکن سفر جاری ہے پر یہ سفر آسان نہیں ہے۔ اس سفر کی راہ میں جہالت کے کئی سد راہ موجود ہیں۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔

(جاری ہے)

حاشر ابن ارشاد
اس سیریز کے دیگر حصےایک مدھم نیلے نقطے کے کچھ احمق باسیوں کے نام (2)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad