میں غیر مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر فلرٹ کرتی ہوں


جب فیس بک پر پہلی بار اس کا میسیج آیا تو میں گھبرا گئی تھی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ میرے شوہر گھر پر نہیں تھے لیکن یوں محسوس ہوا جیسے میں کوئی چوری کر رہی ہوں۔ ایک آن لائن میسیج کھولنے سے پہلے بھی ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ اپنی حالت پر ہنسی بھی آئی کہ میں کتنی بیوقوف ہوں، گھر میں تنہا ہوں پھر کس سے ڈر رہی ہوں۔

اس نے لکھا تھا: ‘ہائے، میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔’

پڑھ کر چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر خود ہی شرما بھی گئی۔

میں انٹرنیٹ پر کسی نامعلوم شخص کے پیغام میں کیوں دلچسپی لوں؟

شوہر کا خیال آتے ہی دل میں ایک ٹیس سی اٹھی اور کوفت بھی ہوئی۔

یہ ان کی بے رخی ہی ہے کہ ایک نامعلوم شخص کی طرف سے آنے والا ‘ہائے’ بھی میرے دل میں گدگدی کر سکتا ہے۔

ہوسکتا تھا کہ اس کا جواب نہ دیتی لیکن اپنے شوہر سے اس قدر ناراض تھی کہ فورا لکھ دیا: ‘ہائے!’

اس کا نام آکاش تھا۔

پتہ نہیں اسے کیوں یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ میں ایئر ہوسٹس ہوں۔ اسے سچ بتا سکتی تھی لیکن نہیں بتایا کیونکہ میں بھی اس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ بچپن سے سب سے سنتی آئی تھی کہ میں بہت خوبصورت ہوں۔

دودھ جیسا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، تیکھے نین نقش، چھرہرا بدن۔ لیکن گھر کے لوگوں کو تو بس شادی کی جلدی تھی۔ پہلا لڑکا جو اچھا لگا اس کے ساتھ رخصت کر دیا۔

لیکن میرے شوہر کو نہ تو رومانس سے مطلب نہ ہی میرے جذبات سے۔ میں سوچتی تھی کہ شادی کے بعد شوہر مجھے آنکھ بھر کر دیکھیں گے، روٹھوں گی تو منائيں گے، سپرائز دیں گے اور اگر کچھ نہیں تو صبح میرے لیے ایک کپ چائے ہی بنا دیں گے! لیکن ان کی زندگی ایک مشین کی طرح ہے۔ صبح اٹھے، دفتر چلے گئے، دس بجے آئے کھانا کھایا، سو گئے۔

گلے لگانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

ایسا نہیں کہ میں یہ نہیں سمجھتی کہ وہ مصروف ہیں لیکن اپنی بیوی کو محبت بھری نظر سے دیکھنے یا اسے گلے لگانےمیں کتنا وقت لگتا ہے۔
لیکن میرے شوہر میں ایسے جذبات تھے ہی نہیں یا ان کا اظہار ان کی مردانگی کو زیب نہیں دیتا۔

سیکس کر لیں گے، لیکن رومانس نہیں۔ ایک سال کی شادی میں ہم نے ابھی تک فور پلے نہیں کیا!

میں کتنا ہی بہتر کھانا بناؤں، گھر کو کیسا ہی رکھوں، کبھی تعریف کا ایک لفظ نہیں نکالتے، پوچھو تو کہہ دیں گے کہ ‘ٹھیک ہے۔’

انھی سب خیالوں میں کھوئی تھی کہ آکاش نے پھر پنگ کیا۔ وہ میری تصویر دیکھنا چاہتا تھا۔

انٹرنیٹ کی دنیا میرے لیے نئی تھی۔ انھوں نے ہی فیس بک پر میرا اکاؤنٹ بنایا تھا۔ فرینڈ ریکوئسٹ کو ایکسپٹ کرنا بھی انھوں نے ہی سکھایا تھا۔

لیکن تصاویر اپ لوڈ کرنے سے جی گھبراتا تھا۔ لوگوں سے سنا تھا کہ لوگ انٹرنیٹ سے تصاویر لے کر انھیں فحش سائٹس پر ڈال دیتے ہیں۔

لیکن آکاش مجھے دیکھنے کے لیے بیتاب تھا۔ کچھ دنوں تک میں نے ٹال مٹول کیا پھر اسے بتا دیا کہ میں ایئر ہوسٹس نہیں ہوں۔ ‘میں نے سوچا کہ وہ اب چلا جائے گا’ لیکن وہ اور بھی بضد ہو گيا۔ بھیج بھی دیتی لیکن میرے پاس ایک بھی ڈھنگ کی تصویر نہیں تھی۔

آکاش بھی شادی شدہ تھا۔ تین سال کی عمر کا اس کا بیٹا تھا۔ ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ بیرون ملک جاتا رہتا تھا۔ خوب پارٹیاں کرتا تھا جس میں لڑکیوں کا سگریٹ اور شراب پینا عام بات تھی۔ یہ میرے لیے نئے قسم کا تجربہ تھا۔

اس کی بیوی بھی کسی بڑی کمپنی میں کام کرتی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے ہیں۔ ایک دن اس نے کہا؛ ‘میں آج بہت اداس ہوں اور میری بیوی اس لیے بات نہیں کر سکی کہ وہ میٹنگ میں مصروف ہے۔’ میں اس کے درد کو سمجھ سکتی تھی۔ ہم روزانہ بات کرتے تھے، بہت مزا آتا تھا۔

یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ ایک وقت آیسا آیا کہ میں صبح سے بات کرنے کے لیے پرجوش رہتی کہ جلدی سے جلدی کام ختم کر لوں۔ ایک دن کہنے لگا: ‘ویب کیم پر آو۔’ میں گھبرا کر آف لائن ہو گئی۔ سوچا کہ ابھی تو میں نے غسل بھی نہیں کیا اور اگر ایسی حالت میں دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔ لیکن اب اس نے مجھے دیکھنے کی ضد پکڑ لی۔

کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے اس سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ اس کے آن لائن ہونے کے وقت میں آف لائن ہو جاتی۔ کچھ دنوں اسی طرح چلتا رہا پھر اس نے چِڑّ کر مجھے بلاک کر دیا۔

ہمارا کوئی رشتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کا جانا میری زندگی میں ایک خالی پن لے آيا۔ پھر خود پر غصہ آنے لگا کہ میں کوئی نوکری کیوں نہیں کرتی، پیسے کماتی تو اپنے فیصلے خود کر سکتی تھی۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک میں نے کسی سے بات نہیں کی، لیکن ذہن میں ہمیشہ آکاش کی باتیں گردش کرتیں۔ خیال آتا کہ اس کے ساتھ دن کس قدر جلدی گزر جاتا تھا۔ بے وجہ مسکراتی رہتی تھی۔

ایک طرح سے اس کا سب سے بڑا فائدہ میرے شوہر کو ہوا۔ ان کی کوششوں کے بغیر ہی میری زندگی کا وہ خلا بھر گیا جو انھیں نظر نہیں آتا تھا۔ اب کیا کروں اور کیا نہ کروں اسی خیال میں اور کچھ دن گزر گئے۔

ایک دن یونہی ایک لڑکے کا پروفائل دیکھا۔ شکل صورت اچھی تھی۔ پتہ نہیں جی میں کیا آئی کہ میں نے اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی۔

شادی شدہ ہو کر فرینڈ ریکوئسٹ کیوں بھیجی؟

اس نے پوچھا: ‘تم تو شادی شدہ ہو، تم نے مجھے ریکوئسٹ کیوں بھیجی؟’

میں نے کہا: ‘کیوں؟ کیا شادی شدہ لڑکیاں دوست نہیں بناتی؟’

بس بات چل پڑی اور میں آج تک اس کے ساتھ رابطے میں ہوں۔

اسی طرح، ایک دن میں نے فیس بک پر ایک پروفائل دیکھی۔ اس کی وال پر اس کی کچھ فلم فنکاروں کے ساتھ تصاویر تھیں۔ میں نے سوچا کہ اس کی وال پر دلچسپ چیزیں ملیں گی۔

میں نے انھیں فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی اور انھوں نے قبول بھی کرلی۔

ایسی ہی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک بیٹی پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد چیزیں ٹھہر سی گئیں۔ پہلے دو سال تو ہوش نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں۔

اب بیٹی تین سال کی ہو چکی ہے لیکن اب بھی اپنے لیے وقت نکال پانا مشکل ہے۔

جی چاہتا ہے کہ کسی سے بات کروں، لیکن جیسے ہی فون اٹھاتی ہوں وہ ویڈیو دیکھنے آ جاتی ہے۔

کبھی کبھی تو بہت مایوسی ہوتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں صرف ماں اور بیوی بن کر رہ گئی ہوں۔

لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ اسے کچھ بناؤں گی تاکہ وہ اپنی شرائط پر اپنی زندگی جی سکے۔

(یہ کہانی انڈیا کی ایک خاتون کی زندگ پر مبنی ہے جس نے بی بی سی کی نمائندہ پرگیہ مانو سے بات کی۔ خاتون کی خواہش پر ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دویا آریہ ہیں)

اس سیریز کے دیگر حصےطلاق کے بعد خود سے پیار کرنا سیکھامیں نے بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp