ہمارا سماج غیر تخلیقی کیوں ہے… میری نظر میں         


 \"aleem  محترم ذیشان ہاشم کا \”مضمون ہمارا سماج  غیر تخلیقی کیوں ہے\” پڑھا  اچھا لگا پڑھ کہ لیکن میں بحثیت طالب علم کچھ بنیادی مسائل کی طرف توجوہ مبذول کروانا چاہوں  گا.

کسی بھی انفرادی یا اجتماعی  تخلیقی سوچ کو پنپنے کے لئے آزاد بے خوف معاشرہ اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے\’ کیوں کہ  تخلیقی سوچ کبھی کبھی غیر معمولی راہیں بھی اختیار کرتی ہے .کسی بھی قوم کا اجتماعی شعور اس قوم کی منزل کا تعین کرتا ہے جیسا اجتماعی شعور ہوگا  ویسی  منزل نصیب  ہوگی. ہم اجتماعی یا انفرادی طور پر صرف اس  چیز میں اس  مضمون میں یا زندگی کے اسی پہلو میں کوئی نئی چیز  تخلیق کر پاتے ہیں یا جدت پیدا کر پاتے ہیں  جسے ہم پسند کرتے ہوں اس سے پیار کرتے ہوں اور اس چیز کو  بڑھتا اور  پھلتا پھولتا دیکھنا چاھتے ہوں. ایسا کبھی نہیں  ہوسکتا کہ جس چیز سے نفرت ہو اس میں کوئی جدت پیدا کی جا سکے. ہمارا سماج ایک ایسا سماج ہے جس میں لوگ زندگی  گزار  نہیں رہے بلکے انہیں زندگی کا سامنا ہے یہ اس دنیا میں رہ رہے جس سے یہ نفرت کرتے ہیں اور جو فنا ہونے والی ہے اور اس سب کی عملی تصویر کچھ یوں ہے کہ  ہمارے معاشرے میں بچے کو پیدا ہوتے ہی یہ درس دیا جاتا ہے کہ یہ  دینا مادی ہے اور مادیت پسندی گناہ ہے اور یہ سلسلہ یہیں رکتا نہیں ہے بلکے دھیرے دھیرے بڑھتا چلا جاتا ہے اور فرد کی سوچ اور دینا و دنیاوی مسائل  کے درمیان فصیل اونچی ہوتی چلی جاتی ہےاور دنیا کے مسائل اور ان کے حل کے لئے درکار تخلیقی  تو دور پیداواری سوچ بھی سرے سے مفقود ہوتی چلی جاتی ہے. ہمارے ہاں سکولوں کالجوں میں اساتذہ کرام کے ہر لیکچر کی ابتدا اور اختتام انہی کلمات پے ہوتی  ہے کہ جو بھی ہم پڑھ رہے ہیں وہ بے کار ہے اور  ہوگا وہی جو لکھا جا چکا ہے اور  جو خدا کو منظور ہوگا. تو ایسی صورت حال میں کیسا تخلیقی ذہن اور کیوں کر پیدا ہوگا.

میرے ایسے بہت سارے  جاننے والے  دوست طالب علم ہیں جو پی ایچ ڈی کے تحقیقی مکالے لکھ رہے ہیں جن کے نزدیک مذہبی روایت ہی ان سب مسائل کا حل ہے  جن سے ہمارا سماج دو چار ہے لیکن ان میں سے کسی کا بھی ریسرچ کا موضوع مذہب نہیں ہوتا۔ اس بات سے ہماری افرادی قوت کے فکری انتشار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. لہذا جب تک آپ اپنے بچوں کو مارے جانے یا مار دیے جانے کے خوف سے آزاد ماحول فراہم نہیں کرو گے  اور صحت مند مکالمہ کی اجازت نہیں دو گے\’ جب تک بچوں کو یہ نہیں سکھایا جائے گا کہ مادی دنیا کے مسائل مادی ہیں اور خالص مادی سوچ رکھنے سے حل ہونگے’ انھیں دنیا سے محبت کا رشتہ پیدا کرنے نہیں دیا جائے گا اور جب تک تخلیق اور جدت کو بدعت گردانا جائے گا  تب تک اس سماج میں دولے شاہ کے چوہے پیدا ہوتے رہیں گے اور بقول ارشد محمود صاحب،  یہ سماج سائنس کے مستری پیدا کرتا رہے گا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments