آئیے ! اسلامسٹ بیانیہ کو سمجھنے کی کوشش کریں


\"aamirارادہ تو نہیں تھا کہ اس طرز کی مناظرانہ بحثوں میں الجھا جائے، جس کی ابتدا برادرم عدنان خان کاکڑ نے کی۔ برادرم سے ہمارا بہت ہی خوشگوار دوستی کا تعلق ہے اور بہت پہلے سے یہ اصول طے کر رکھا ہے کہ دوستوں کے ساتھ مباحث نہیں کرنے چاہئیں، اس میں دل شکنی کا اندیشہ رہتا ہے۔ عدنان نے اس سے پہلے بھی دو تین تحریریں ایسی لکھیں، جن میں نہ صرف روئے سخن خاکسار کی طرف تھا بلکہ نام لے کر لکھا گیا،سوچا کہ جوابا کچھ لکھا جائے، مگر پھر طرح دے جانا ہی مناسب لگا۔ اب کی بار چونکہ انہوں نے خاصی محنت کر کے اس عاجز کے پچھلے کئی کالموں سے مختلف ٹکڑے نکالے اور ان کے حوالے دے کر اپنے استدلال کی عمارت تعمیر کی تو اس محنت کی داد دینا تو بنتی ہے۔ ان معروضات کا مقصد صرف اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنا ہی ہے ، جو لگتا ہے کہ میری کم علمی اور کمزور ابلاغ کی وجہ سے پچھلی تحریروں میں مکمل طور پر واضح نہیں ہوسکا۔ تاہم یہ پیشگی معذرت کہ اس سلسلے کی یہ آخری کڑی ہوگی۔ مجھے اندازہ ہے کہ کسی نظریے یا سکول آف تھاٹ میں نئے نئے داخل ہونے والے کس قدر پرجوش اور ولولے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ہم پر بھی یہ دور گزرے ہیں، اس وقت اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک والی کیفیت ہوتی ہے، ٹھیراﺅ آہستہ آہستہ ہی آتا ہے۔ میلسی کے شاعر خوش نوا نے کہا تھا:

تم تو آئے ہو ابھی دشت محبت کی طرف
میں نے یہ خاک بہت پہلے اڑائی ہوئی ہے

خیر عدنان خان کے مضمون ”جلتی ہوئی دم والے مویشی“ میں کئی نکات اٹھائے گئے ہیں۔ میرے اس مضمون کو پڑھنے والے پہلے عدنان کے مضمون پر نظر ڈال لیں تو انہیں بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

میں نے ایک کالم میں داعش اور القاعدہ کی فکر پر تنقید کی تھی اور لکھا کہ یہ لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں، مگر عملاً اسلام اور مسلمانوں ہی کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کا امیج مسخ کرتے ہیں اور ان کی مثال جلتی دم والے مویشیوں سی ہے، جو قدیم زمانے میں دشمن فوج پر حملہ کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ اس پر عدنان خان نے ایک دو پیرے لکھنے کے بعد جو سوال اٹھایا ہے، وہ پوری طرح تو میں نے نہیں سمجھا ،لیکن ان کا مقصد شاید خلافت کے تصور پر تنقید ہے اور انہوں نے لکھا کہ نیشنل سٹیٹس والے اس عہد کی ترکیب استعمال کی۔

عرض یہ ہے کہ ایک عالم گیر خلافت کی بات کرنا کوئی ایسی برائی یا شیطانی حرکت نہیں۔ یہ عالم گیر خلافت کیا ہے، اسے آج کے دور میں یورپی یونین کا ماڈل ہی سمجھ لیجئے۔”نیشنل سٹیٹس والے اس عہد“ میں ہی یورپی یونین کا ماڈل وجود میں آیا ہے، پچیس سے زائد ممالک کے لئے ایک ہی ویزا درکار ہوتا ہے، کرنسی ایک ہے، تجارتی اقتصادی تعاون وغیرہ۔ اسلامی بلاک کا تصور بھی ایسا ہی ایک خواب ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ تمام یا چند ایک مسلم ممالک اکٹھے ہوجائیں تاکہ ان کے وسائل، طاقت اور صلاحتییں مجتمع ہو کر ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔ اس تصور کو خلافت سمجھ لیں، اس میں ایسی کیا برائی ہے؟ اگر چند مسلمان ممالک آپس میں کنفیڈریشن بنا لیں، ایک سیاسی نظم کے تحت اور کسی سسٹم کے ذریعے کوئی ایک حکمران لے آئیں۔ اسے خلیفہ کہہ لیں تو کیا حرج ہے اس میں ؟ یہ وہ تصور ہے جس کے لئے اسلامی تحریکوں والے لوگ سوچتے اور کوشاں رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک دوسرے کے لئے خیر خواہی کا جذبہ ہی ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مصر کے حسن البنا نے پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے نام خط لکھا، جس میں انہیں اسلام کے نام پر مملکت بنانے پر مبارکباد دی۔ مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہ کو پاکستان نامی ایک نئی مسلمان ریاست بننے پر مسرت ہوئی۔ اسی طرح دنیا میں کہیں بھی مسلمان کامیاب ہو، کسی مسلمان ملک کو کوئی افتخار ملے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ جو لوگ اس سب کچھ کو پرامن، جمہوری، فکری، نظریاتی انداز میں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ درست راستہ ہے۔ یہ لوگ کسی خفیہ، فوجی انقلاب کے چکر میںنہیں پڑنا چاہتے، کہیں پر افراتفری ، انارکی نہیں پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پہلے مسلم ممالک کے عوام قریب آئیں، پھر جب ان میں قربت اور محبت کا رشتہ قائم ہو جائے گا تو پھر ظاہری بات ہے ان کی منتخب حکومتیں بھی قریب آئیں گی اور کسی مرحلے پر خلافت یعنی یورپی یونین ماڈل یا اس سے تھوڑا آگے کا ماڈل تشکیل پا سکتا ہے۔ میری رائے میں اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اس کے لئے میں دعاگو ہوں۔ میرے نزدیک خلافت کا تصور جدید دور میں نیچے سے آئے گا۔ اوپر سے کوئی خلیفہ بنا کر مسلط نہیں ہوسکتا ، نیچے سے مشترکہ نکات پر ایک دوسرے سے قریب آنے کا عمل شروع ہو تو پھر یہ نیچے سے ٹاپ تک چلا جائے گا۔

جو لوگ جلد بازی میں خلافت کے چکر میں افراتفری، انتشار ، قتل وغارت پھیلا رہے ہیں۔ وہ غلط ہے۔ داعش ہو یا القاعدہ یا اس طرح کے گلوبل ایجنڈا رکھنے والی دہشت گرد مسلح تنظیمیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ وہ بجائے دعوت وتعلیم کا راستہ اختیار کرنے کے مستحکم مسلمان ممالک کو غیر مستحکم اور وہاں خانہ جنگی کی لہر پیدا کر رہی ہیں۔ یہ غلط راستہ ہے۔

یہ بھی درست نہیںکہ خلافت کی بات کرنے والے ہی اسلامسٹ ہیں۔ سب اسلامسٹ یہ نہیں سوچتے۔ وہ اپنے اپنے ممالک میں مسلم معاشروں کی بات کرتے ، اس کے لئے کوشاں ہیں۔ ان سب کی نظر خلافت پر نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر مختلف مسلمان ممالک میں مسلم معاشرے تشکیل پا گئے تو وہ ازخود ایک دوسرے سے قریب آ جائیںگے۔ وہ صرف اپنے اپنے دائرہ کار پر فوکس کررہے ہیں، انہیں یہی کرنا چاہیے، انہی سے اسی کی پرسش ہوگی۔

یہاں پر یہ واضح ہوجائے کہ اسلامسٹ سے کیا مراد ہے۔ بھائی بات یہ ہے کہ یہ تو مختلف اصطلاحات ہی ہیں، رائٹسٹ کہہ لیں، اسلامسٹ کہہ لیں یا کوئی اور نام تجویز کر دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلامسٹ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا اصرار ہے کہ ان کی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگیوں کا محور اسلام کو ہونا چاہیے۔ یعنی یہ اسلام کو صرف اپنے گھر تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔

بات کو مزید واضح کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اسلامسٹ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل چاہتے ، اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ دراصل اسلام صرف اللہ کو واحد ماننے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری نبی ماننے کا نام نہیں۔ وہ تو بنیادی عقیدہ ہے ہی، مگر اسلام ایک ضابطہ حیات بھی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ مکمل ضابطہ حیات والا جملہ بہت سے دوستوں کو تکلیف پہنچائے گا، مگر مجبوری ہے کہ اس کے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکے گی۔

جب ہم یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اسلام کا مکمل ماڈل، فکری اور عملی سٹرکچر اور رہنمائی کرنے والے اصول ہیں۔ مثلا اسلام کا تصور معاشرت ہے۔ جس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھنا ہے، ہمسایوں کے ساتھ محبت، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں سے شفقت، قانون کا احترام، دوسروں کے لئے ایثار وقربانی کا جذبہ اور سب سے بڑھ کر جذبہ خیرخواہی رکھنا وغیرہ۔ اسلام کا ایک تصور معیشت ہے۔ کس انداز میں تجارت کرنی ہے، کاروبار میں کیا رہنما اصول ہونے چاہئیں۔ منافع کمانے کی کیا حدود ہیں،کس حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ، جدید دور میں کس انداز کا بنکنگ سسٹم ہو،وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح اسلام کا تصور اخلاق ہے ، دل میں خوف خدا ، دوسروں کے لئے درد رکھنا، فواحش ومنکرات سے بچنا۔ حیا ، حفظ مراتب اور تحفظ فروج اسلامی معاشرے ، اسلامی معاشرے کے تصور اخلاق کے بنیادی اجزا ہیں۔ اسی طرح اسلام کا تصور شہریت ہے۔ ایک شہری اور ریاست کا کیا تعلق ہے۔ ریاست اس کی کس طرح خبر گیری کرے گی، اسے جوابا ریاستی قوانین کی کس طرح پابندی کرنا اور ریاست کے ساتھ وفادار رہنا ہے ، ریاست کمزوروں ، بیماروں، مریضوں، بچوں، معذوروں وغیرہ کے ساتھ کس طرح ماں والا سلوک روا رکھے گی، انہیں بے سہارا نہیں چھوڑے گی وغیرہ وغیرہ۔ اسلام کا تصور اقلیت بھی ہے۔ کسی اسلامی ریاست میں اقلیتیوں کے ساتھ کیا سلوک رکھنا ہے۔ کس طرح انہیں ظلم ، جبر ، جدید دور کی اصطلاح میں ہراسمنٹ کہہ لیں، سے محفوظ بنانا ہے۔ ان کی جان ، مال ، عزت کے تحفظ کے لئے کیا کیا کرنا ہے، ان پر ظلم اگر کسی مسلمان نے کیا ہو تو کس طرح پوری قوت کے ساتھ اس کا مواخذہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسلام کا تصور علم بھی ہے۔ علم کی کسی مسلمان اور اسلامی ریاست کے نزدیک کس قدر اہمیت ہونی چاہیے، علمی فضا، اہل علم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے۔ علمی مہارت رکھنے والے اہل علم کی کس قدر توقیر کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

یہ چند ایک شعبوں کی مثالیں ہیں جو فوری طور پرذہن میں آئی ہیں۔ یہ سب اسلامی معاشرے کے حصے ہی ہیں۔ رہی بات کہ یہ تصور اسلام سے کیا مراد ہے تو سادہ جواب یہ ہے کہ جو جو طریقے اللہ کے آخری نبی، ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کئے ، انہی کی پیروی کرنا ہے۔ آپ کے بعد آنے والے چاروں خلفا راشدین نے جو نئے مسائل سامنے آئے، انہیں جس طرح حل کیا ، وہ قابل تقلید ہیں۔ بعض امور پر مسلم اہل علم نے بعد میں بھی رہنمائی کی۔ یہ کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیںکہ جسے سمجھا نہ جا سکے۔ ہاں یہ یاد رہے کہ ہم مسلمانوں نے جو غلطیاں کیں، ماضی اور حال میں جس طرح سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ واہلبیت سے روگردانی کی ، اس کے ذمہ دار ہم ہیں، اللہ کا دین نہیں۔ جس طرح کمیونسٹ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ کمیونسٹوں یا مارکسسٹوں سے کمیونزم یا مارکسزم کو نہ سمجھا جائے کہ کمیونسٹ ناکام ہوئے ، کمیونزم نہیں۔ سیکولر کہتے ہیں کہ سیکولر ازم کی علمی فکر کو دیکھا جائے، سیکولرسٹوں کی غلطیوں یا کرتوتوں کی وجہ سے سیکولرازم کو لادین نہ کہا جائے۔ اسی طرح ہم مسلمانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام نہ کیا جائے۔ اگر ہم اسلام کے تصور معاشرت، اخلاق، علم ،شہریت اور معیشت کو واضح سٹرکچرڈ شکل میں جدید دور میں پیش نہیں کر پائے تو اس کا مطلب نئے سرے سے ، درست سمت میں بھرپور انداز سے محنت کرنا ہے نہ کہ اسلام ہی کو لپیٹ کر طاق نسیاں میں رکھ دینا ہے۔

میں مانتا ہوںکہ آج یہ سب ایک خواب ہی لگ رہا ہے۔ مسلمانوں میں جس قدر خرابیاں در آئی ہیں، ان کی اصلاح اور تربیت کا کام قطعی
طور پر آسان نہیں۔ یہ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھنا ہے، مگر میرے نزدیک اس خواب کی تکمیل کے لئے کوشاں رہنا اور آخری سانسوںتک اس جدوجہد میں جتے رہنا بہتر ہے کہ جھوٹے خداﺅںکی خدائی اور جھوٹے نظریات کے طلسم میں اسیر ہوا جائے۔ کم از کم روز آخرت ہم اپنے رب کے سامنے یہ تو کہہ سکیں گے کہ جتنی ہمت اور استعداد تھی، یارب آپ کے دین کے لئے صرف کر دی۔
جو مسلمان اس تصور کے حامی نہیں ہیں، وہ اسلام کو صرف ذاتی عقیدے اور عبادات کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ظاہر ہے انہیں مسلمان نہ کہنے والی حماقت میں تو نہیں کر سکتا۔ انہیں اپنے نظریات، سوچ کے مطابق کام کرنے ،جینے کا پورا حق حاصل ہے۔ روز آخرت جو کوئسچن شیٹ ہو گی ، جو چیزیں تولی جائیں گی ، ان کی فکر کرنا ان کا کام ہے۔ ہم تو بطوربھائی ان کے لئے جذبہ خیر خواہی رکھتے ہوئے ان کے لئے دعاگو رہیں گے، انہیں بار بار اس طرح متوجہ کر کے تذکیر کا کام انجام دیتے رہیں گے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کفر کا یہ معاملہ ہے ہی نہیں۔ تکفیر ان پر ویسے بھی نہیں بنتی اور میرے نزدیک تکفیر کا حق صرف ریاست کو ہے۔

چند ایک سوالات اور ہیں۔ پوسٹ لمبی ہوچکی، مختصر جواب پر اکتفا کروں گا۔

قرارداد مقاصد پر ہمارا اصرار صرف اسی لیے ہے کہ وہ پاکستان کی مشن سٹیٹمنٹ ہے، ایک وعدہ ہے کہ ہم اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کریں گے۔ اس وعدے کو ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں اپنے بے عملی، کوتاہی، ناکامی کا احساس ہو اور ہم اپنی غلطیوں کو سدھارتے ہوئے ایسا ملک تشکیل دیں جو دنیا کے سامنے ایک اعلیٰ نمونہ ہو۔ جسے دیکھ کر دنیا سوچے کہ اگر یہی اسلامی معاشرہ اور اسلامی مملکت ہے تو ہمیں وہاں جا کر آباد ہونا چاہیے، وہی ماڈل اپنے ملک میں بھی لاگو کرنا چاہیے۔ یہ مگر سچ ہے کہ ابھی تک ہم اس سب سے بہت پیچھے ہیں، بہت پیچھے۔ میرے نزدیک مگر یہ خیال حوصلے پست کرنے کے بجائے مہمیز لگانے کا باعث بننا چاہیے۔ قائداعظم بھی یہی چاہتے تھے۔ ان کے بے شمار ، جی میں دوبارہ کہوں گا بے شمار بیانات، تقریریں، انٹرویوز ہیں اس بارے میں ، جن میں قائد فرماتے رہے کہ ہم پاکستان کو ماڈل اسلامی مملکت بنائیں گے، ماڈل اسلامی معاشرہ تشکیل دیں گے، یہ بھی کہا کہ ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، چودہ سو سال قبل ہمارا منشور، ہمارا ایجنڈا واضح طور سے بتا دیا گیا ہے۔

قائداعظم ہمارے نزدیک ہر لحاظ سے اسلامسٹ ہیں، بلکہ ایک اعلیٰ درجے کے اسلامسٹ۔ رہی قائد کی گیارہ اگست والی تقریر تو اسے ہمیشہ غلط تشریح کی جاتی ہے۔ یہ دراصل اسلام ، اسلامی ریاست کے تصور اقلیتی آبادی کے ضمن میں تھی۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی اسلامی ریاست اور پاکستان میں اقلیتیوں کا مکمل تحفظ ہونا چاہیے، ان کی جان ،مال ،عزت ہر چیز کا مکمل تحفظ۔ ایسے انداز میں کہ دنیا بھر کی غیر مسلم یہ سوچیں کہ کاش ہم پاکستان میں رہتے ہوتے۔ آج ایسا نہیں ہے، مگر ہمیں اس طرف جانا چاہیے۔ اقلیتیوں کے ساتھ کوئی زیادتی کرنا تو دور کی بات ہے، ایسا سوچنے اور اس کا اظہار کرنے والوں تک کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ اگر ملکی قوانین کا پروسیجر درست نہیں تو اسے درست کیا جاسکتا ہے، مگر اقلیتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ اسلامی ریاست میں رہ رہے ہیں، جہاں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنیادی فیبرک میں شامل ہے۔ بلاسفیمی قانون کسی صورت ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے غلط استعمال کرنے والے کو اگرچہ پھانسی سے کم سزا نہیں ملنی چاہیے۔

عدم برداشت، مکالمہ نہ ہو پانے کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سب سے اہم ریاستی کمزوری ہے۔ یہ عدم برداشت مسلمان عرب ممالک میں کیوں نہیں دکھاتے؟سعودی عرب، امارات میں انہیں کیا ہوجاتا ہے۔ یہ عدم برداشت انگلینڈ ،امریکہ میں کیوں نہیں دکھاتے؟ اس لئے کہ وہاں فوری طور پر قانون حرکت میں آ جائے گا۔ یہاں بھی ایسا کیا جائے۔ جو قانون ہاتھ میں لے اسے اڑا دیا جائے۔ خود بخود برداشت قائم ہوجائے گی۔

رہی بات جمعیت علمائے ہند کی یا بھارتی مسلمانوں کی تو بھائی مسلم معاشرہ وہیں تشکیل پائے گا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں دو ہی آپشنز ہیں۔ یا تو وہاں اکثریت کا قانون نافذ ہوگا جسے مسلمانوں کو تسلیم کرنا ہوگا، جیسا کہ مغرب میں رہنے والے مسلمان برداشت کرتے ہیں۔ بے شمار قوانین میں انہیں مغربی کلچر کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اسلام میں طلاق کے بعد بیوی کو نان نفقہ دینے کی کوئی پابندی نہیں، مغرب میں رہنے والے مسلمان کو عدالتی حکم سے طلاق دینی پڑتی ہے اور اس کے بعد بھی نان نفقہ دینا پڑتا ہے ، دیگر مغربی شہریوں کی طرح۔ جسے وہاں رہنا گوارا ہے تو یہ قوانین ماننے پڑیں گے، ورنہ وہ کہیں اور کا رخ کر جائے۔ بعض مثالیں بھارت جیسی ہیں، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں، جہاں کے بے شمار اندرونی مسائل اور تفریق ہے، ان کے لئے سیکولرازم ہی واحد آپشن ہے تاکہ اندرونی فالٹ لائنز گہری نہ ہوں۔ بھارتی آئین اس حوالے سے بہت واضح ہے۔ انہیں اس کا پورا حق پہنچتا ہے۔ بھارتی مسلمان وہاں اس سیکولر ازم کو اس لئے سپورٹ کرتے ہیں کہ ان کے پاس دوسری آپشن پھر ہندو بھارت ہے، جس میں ہندو قوانین کی پابندی کرنا پڑے گی، جس سے ان کے لئے زیادہ مسائل پیدا ہوں گے۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ رائیٹ کے مقابل کیمپ کے حوالے سے میں نے لکھا کہ جہاں ایک زمانے میں لیفٹ تھا، آج وہاں لبرل،سیکولر بیٹھے ہیں…. یہ بات کنفیوژن کیوںپیدا کر گئی ؟ بھائی ایک زمانے میں رائیٹ یعنی اسلامی نقطہ نظر والی سوچ کے مقابل سوشل ازم ، کمیونزم والی فکر اور اہل فکر تھے۔ نوے کے عشرے میں سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد وہ لیفٹ تقریبا ختم ہی ہوگیا۔ پرانے مارکسسٹ آج کے کیپیٹلسٹ ہوگئے۔ آج رائیٹ کے مقابل کیمپ سیکولر، لبرل سوچ رکھنے والوں سے لبریز ہے۔ اس میں کوئی طعنہ ہے نہ کچھ ، یہ تو امر حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا۔ ظاہر ہے سوشل ازم کے خلاف کچھ اور انداز سے لٹریچر لکھا گیا، لبرل ازم ، سیکولرازم کے سوالات اور ہیں تو ان کے جواب میںکچھ اور انداز سے لکھا جائے گا۔ اسی بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔

لبرلز ، سیکولروں کوحاصل وسائل کے بارے میں کیا کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟ بھیا بے شمار این جی اوز ہیں جو مغرب سے فنڈنگ لیتی ہیں اور انہی سے ہمارے بیشتر سیکولر مہربان منسلک ہیں۔ امریکہ بہادر کے دورے، تربیتی ورکشاپس سے لے کر بے شمار چیزیں ہیں۔ جہاں تک رائیٹ ونگ کو وسائل کی بات کہی، دراصل یہاں بھی بات غیر واضح ہوجاتی ہے۔ صرف دینی جماعتیں رائیٹ ونگ نہیں ہیں۔ مدارس ہی صرف رائیٹ ونگ نہیں ہیں۔ جیسا کہ اوپر نہایت تفصیل سے عرض کیا کہ اسلامی معاشرہ کا خواب دیکھنے، اس کے لئے عملی جدوجہد کرنے والے اسلامسٹ کہلاتے ہیں۔ ان میں مولوی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مولوی بھی۔ مدرسے والے بھی ہوسکتے ہیں اور مغربی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بھی، کسی بھی طبقے کا کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے الٹا رائٹ ونگ کے کاز کا نقصان ہی پہنچایا ہے۔ انہوں نے اپنی اپنی جتھہ بندی اور گروپنگ پر فوکس کیا ہے، جس سے تقسیم بڑھتی اور اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔

رہی بات کہ رائیٹ کا بیانہ گھسا پٹا ہے اور جو عامیانہ لطیفہ آخر میں بیان کیا گیا۔۔۔۔ اس پر کیا عرض کیا جائے۔ جوابا ایسا ہلکا طنز یا کوئی عامیانہ لطیفہ سنانا طبیعت کو گوارا نہیں۔ بھائی سادہ سی بات ہے کہ بعض اوقات قدرے سست چلنے والوں کو مہمیز لگانے، تیز کرنے کے لئے ان پر تنقید کی جاتی ہے، اس میں قدرے مبالغہ کے ساتھ بھی سخت الفاظ استعمال ہوجاتے ہیں۔ صبح سے اینٹوں کی چنائی میں جتے کسی قدرے سہل انداز مزدور کو اس کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کیا۔ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ واقعی صبح سے اس نے ایک اینٹ بھی نہیں لگائی ، بلکہ یہ اشارہ ہوتا ہے کہ جیسا کرنا چاہیے تھا ، ویسے نہیں کیا، کچھ اور ہمت کرو۔

افسوس تو یہ ہے کہ اتنی سادہ ، چھوٹی باتیں بھی کھول کھول کر بیان کرنا پڑ رہی ہیں۔ سیکولر دوستوں کو سوال اٹھانے سے ہرگز منع نہیں کر رہے ، مگر کسی قدر سخن فہمی کی درخواست تو کر سکتے ہیں۔ اس میں تو کوئی حرج نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
21 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments